ہمارے ہاں الیکشن دراصل اصول اور ضمیر بیچنے کا موسم ہوتا ہے قیمت بھی اچھی لگ جاتی ہے،اب ذرا ’ پریس کانفرنس‘ کا سلسلہ تھما ہے شاید جتنا کام ہونا تھا ہوگیا مگر یقین جانیں یہ سب نیا نہیں ہے جو نیا ہورہا ہے وہ ہم محسوس ہی نہیں کر پارہے۔خدارا بلوچستان کے سیاسی سموگ کو محسوس کریں۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس کھل کر بول پڑے۔جنگ ” میں شائع ہونیوالے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ۔۔ سیاست بے ڈھنگی اور ٹاک شوز بے ربط سے ہوتے جارہے ہیں اب تو اینکرز کو کبھی کوئی سیاستدان ’سیاسی اداکار ‘ کہتا ہے کبھی شام کے دکاندار تو کبھی کسی اور لقب سے پکارا جاتا ہے۔ اب الیکشن کا موسم آ گیا ہے خبریں کم اور اشتہار زیادہ دیکھنے کو ملیں گے۔ اب ان القاب سے نوازنے والوں کو کیا کہو ں کہ واقعی روزانہ دکانیں لگتی ہیں اور روز خریدار ہی ہم پرالزام لگانے والے ہوتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ بہت سے اینکر اس شعبہ میں اداکاری سے ہی اوپر آئے ہیں اور سیاستدانوں سے ’اداکاری‘ کا مقابلہ تاحال جاری ہے کون بہتر اداکاری کرتا ہے یہ عوام اور ناظرین پر چھوڑ دیتے ہیں۔ آج کی سیاست ہو یا صحافت کامیابی کا راز یہ نہیں کہ آپ کتنے قابل ہیں کتنی کتابیں پڑھی ہیں بلکہ آپ اپنے آپ کو ’ مارکیٹ‘ کیسے کرتے ہیں تاکہ اچھی ’قیمت‘ لگ جائے۔ بہت کم ایسے سیاستدان اور صحافی گزرے ہیں یا ہیں جنہوں نے ’کتابیں‘ لکھیں امید ہے اب اس طرف توجہ بڑھے گی کیونکہ پڑھنے والوں میں نوجوانوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہماری سیاست میں نظریات، اصولوں پرکھڑے رہنے والے لوگ ناپید ہوگئے ہیں ویسے توصحافت کابھی یہی حال ہےلہٰذا الیکشن کے موسم میں ’برساتی مینڈک‘ بہت نظر آئیں گے۔ حیرت ہے ان سیاستدانوں کو شرم تک نہیں آتی جو کل کسی اور کے ترجمان تھے اور آج کسی اور کے بن گئےہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کل یہی لوگ جب پھر اپنا قبلہ بدلیں گے تو ان کو پھرسے قبول کرلیاجائے گا۔ہمارے ہاں الیکشن دراصل اصول اور ضمیر بیچنے کا موسم ہوتا ہے قیمت بھی اچھی لگ جاتی ہے۔اب کس کس کا نام لوں لمبی فہرست ہے بے ضمیر لوگوں کی جوہر بار ’ اپنے ضمیر‘ کے مطابق پارٹی بدلتے ہیں، لیڈر بدلتے ہیں۔ اب یہ بیچارے بھی کیا کریں کہ ہمارے سلیکٹرز‘ بھی رنگ بدلنے میں دیر نہیں کرتے ،کبھی کہتے ہیں اس جماعت میں چلے جاؤ،کبھی کہتے ہیں اُس کا ساتھ دو ۔ پچھلے کئی سال سے ہماری سیاست ’گیٹ نمبر۔4‘ سے شروع ہوتی ہے اور کورٹ نمبر1‘ پرختم ہوتی ہے اور اگر ان دونوں کے درمیان یا ان کے اپنے اندر اختلاف ہوجائے تو بہت سے سیاستدانوں کی سیاست ہی ’ وڑ جاتی‘ ہے۔ آخر میں مظہر عباس نے لکھا کہ سوال یہ نہیں کہ سیاستدان کس قیمت پربکتا ہے کسی جج کی کیا قیمت لگتی ہے ہماری اپنی صحافتی برادری کیسے راتوں رات رنگ بدلتی ہے مگر خود ووٹر یہ فیصلہ کیوں نہیں کرپاتا کہ ایسے لوگوں کو ووٹ نہیں دینا جو ووٹ پر سودے بازی کرتے ہیں۔ ابھی تھوڑا سا اور انتظار کریں دیکھیں اس نام نہادجوڑ توڑ میں کون جوڑتا ہے اور کون توڑا جاتا ہے کس کو کس طرف جانے کا اشارہ ملتا ہے۔