siyasi tareekh or mazhar abbas

خبریں اور کالم کیسے پڑھیں؟

تحریر: عطاالحق قاسمی۔۔

ساری عمر اخبار پڑھنے کے بعد اب اخبار پڑھنے کا صحیح طریقہ سمجھ میں آیا ہے۔ میں پہلے نیوز پیج پر سرخیاں پڑھتا اور پھر اس کے متن پر نظر ڈالتا مگر تین چار سطروں کے بعد ہی لکھا آ جاتا بقیہ صفحہ نمبر فلاں پر۔ دو تین صفحات بقیہ ہی کے ہوتے بالآخر میں اس صفحے تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا جس پر میرا مطلوبہ بقیہ درج ہوتا بس اس دن کے بعد سے میں فرنٹ پیج اور لاسٹ پیج پر نظر ڈال کر پوری خبر بقیہ جات ہی میں پڑھتا ہوں، اب وقت بھی ضائع نہیں ہوتا اور سرخی کے نیچے دو سطروں وا لی خبر پڑھنے کی بجائے بقیہ جات میں پوری خبر پڑھ کر ہشاش بشاش یا ہشیار باش ہو جاتا ہوں۔اخبار میں خبروں کے علاوہ کسی زمانے میں سارے کالم بھی پڑھتا تھا اب اس کی ضرورت نہیں رہتی کالم نگار کا نام پڑھتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس نے کیا لکھا ہو گا، کسی کو ڈنڈا لگایا ہو گا یا بوٹ پالش کئے ہوں گے۔ میں نے اپنا اندازہ جانچنے کے لئے تین چار بار ان کالم نگاروں کے کالم پڑھے جن کے بارے میں مجھے پہلے سے اندازہ تھا کہ انہوں نے کیا لکھا ہو گا اور میرا یہ اندازہ صحیح نکلا یعنی انہوں نے وہی لکھا ہوا تھا جو میں نے سوچا تھا اس طرح ٹی وی چینلز کے اینکرز اور مہمانوں کو دیکھتے ہی جان لیتا ہوں کہ کسی نے کیا کہا ہو گا اور الحمدللہ میرا اندازہ بالکل صحیح نکلتا ہے، صرف یہی نہیں مجھے یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ میرے من پسند تجزیے کس چینل پر چل رہے ہوں گے چناں چہ میں ریموٹ کے ذریعے سیدھا اس چینل تک جا پہنچتا ہوں اور خوش ہوتا ہوں کہ میں اکیلا نہیں بلکہ میرے ہم خیال اور بھی ہیں۔

تاہم یہ اخبار، یہ چینل، یہ سوشل میڈیا میرے لئے ان دنوں بے کارتھے جب میں شیوگھر پر نہیں کرتا تھا بلکہ اس کے لئے نائی کی دکان پر جاتا تھا وہاں اپنی باری کے انتظار میں بیٹھنے کے دوران کیسے کیسے عالی نظر بابوں اور نوجوانوں کے سیاسی جائزے سننے میں آتے یہاں قومی اور بین الاقوامی امور کے ماہر کیسی کیسی نکتہ آفرینیاں کرتے ’’وچلی گل‘‘بتاتے اور اس ’’وچلی گل‘‘ کا صرف انہی کو پتہ ہوتا اخباروں اور چینلز کے بڑے بڑے سورمائوں کو اس کی ہوا بھی نہ لگی ہوتی ان دکانوں کے ساتھ گرم حمام بھی ہوتا جہاں غسل اور صفائی ستھرائی کا تسلی بخش انتظام ہوتا غسل کے بعد میں دوبارہ ان تجزیہ نگاروں اور بڑی بڑی سیاسی پیش گوئیاں کرنے والوں کے درمیان آن بیٹھتا اور پھر میں بھی فریش ہونے کی وجہ سے جتنا ’’لُچ‘‘ تل سکتا تھا تلتا اور یوں میرا شمار بھی ملک کے صف اول کے لوگوں میں ہو جاتا بلکہ میں نے اس فن میں اتنی شہرت حاصل کر لی کہ لوگ میرے گھر میں حالات حاضرہ کے پس منظر اور پیش منظر جاننے کے لئے چلے آتے اور مجھے احساس ہوتا کہ زمانے نے مجھے اتنی اہمیت نہیں دی جتنی اہمیت کا میں مستحق تھا۔

مگر یہ چند سال پہلے کی بات ہے کیونکہ اب میں شیو گھر پر ہی کرتا ہوں اور حجامت بنوانے کے لئے کاریگر کو گھر پر ہی بلا لیتا ہوں بہرحال اب مجھے کسی اور کا کالم پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ جانتا ہوں انہوں نے کیا لکھا ہو گا کہ میں اب خود کالم نگار ہوں اور میرے بارے میں بھی سب جانتے ہیں کہ میں نے کس موضوع پر لکھاہو گا اور کیا لکھاہو گابلکہ ایک روز میرا ایک ہمسایہ میرے پاس آیا اور کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ آج تمہارا کالم شائع ہوا ہے۔ میں نے کہا ہاں چھپا ہوا ہے اور پھر میں نے بیٹے سے کہا اندر سے آج کا اخبارلائو تمہارے انکل میرا کالم پڑھنا چاہتے ہیں۔ اس پر وہ بولا ، بچے کو زحمت نہ دو میں بتا دیتا ہوں کہ تم نے کیا لکھا ہے اور پھر اس نے فر فر میرے کالم کا متن سنا دیا بظاہر لگتا ہے کہ یہ اچھی بات نہیں ہے کہ لکھنے والے اندھا دھند ایک ہی لائن ’’ٹو‘‘ کرتے رہیں مگر یہ مکمل صورتحال نہیں ہے کیونکہ حکومت اور حالات بدلنے کے بعد ہم لوگ نئی حکومت اور نئی صورتحال کے حوالے سے لکھنا شروع کر دیتے ہیں چنانچہ ہم کالم نگار لکیر کے فقیر نہیں ہیں، آپ زیادہ سے زیادہ ہمیں فقیرکہہ سکتے ہیں۔ ہمارا کیا ہے اس کے حلیے میں ہیں جو دے اس کا بھلا، جو نہ دے اس کا بھی بھلا ۔

پس نوشت:براہ کرم میرے اس تھوڑے لکھے کو ’’بوتا‘‘سمجھیں بس یہ ہے کہ سب کالم نگار ایسے نہیں ہوتے جیسا میں نے بیان کیا ہے کہ ان میں احمق بھی بہت ہیں جو روزی، روٹی کی پروا کئے بغیر وہی لکھتے ہیں جو ان کے دل میں ہوتا ہے یہ وضاحت اسلئے ضروری تھی کہ میں خود بھی تو کالم نگار ہوں۔وماعلینا الالبلاغ(بشکریہ جنگ)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں