تحریر: مظہر عباس۔۔
پچھلے دنوں اسلام آباد میں ایک میڈیا کانفرنس کے سلسلے میں جانا ہوا تو سپریم کورٹ میں جاری معروف صحافی اور اینکر ارشد شریف قتل کیس کی سماعت سننے کا بھی موقع ملا اور میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ کل تک خود خبریں دینے والا ان پر بے لاگ تبصرے کرنے والا آج خود ’خبر‘ بن گیا ہے۔
کافی حد تک تو یہ کیس اس دو رکنی کمیٹی کی مفصل رپورٹ پڑھ کر واضح ہوگیا ہے کہ اسے ایک منصوبہ بندی کے تحت مارا گیا ہے۔ کیا بات اس سے آگے جائے گی؟ مجھے کم ہی امید ہے ورنہ ’خصوصی JIT‘ کی شاید ضرورت بھی نہیں تھی البتہ اس کیس کی گونج ہماری سیاست اور صحافت میں سنائی دیتی رہے گی۔
گزشتہ 30 برسوں سے شاید ہی کوئی سال ایسا گزرا ہو جب ہمارے یہاں 4 سے 5 صحافی قتل نہ ہوئے ہوں۔ سال 2022 میں بھی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران 48 صحافیوں کا قتل ہوا، مگر ارشد کا کیس اس لئے انفرادیت اختیار کرگیا کیونکہ جن حالات میں اسے پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، دبئی میں رہنا مشکل کر دیا گیا اور آخر میں کینیا کے شہر نیروبی میں پراسرار انداز میں نشانہ بنایا گیا، وہ ہر طرح سے ایک مافیا کے انداز کا قتل نظر آتا ہے۔
اس سے پہلے کراچی میں چند سال پہلے جیو کے رپورٹر ولی خان بابر کو نشانہ بنایا گیا، یہی نہیں اس کیس کے چند ایک کردار بھی مارے گئے۔ ایسا ہی کچھ 2005ء میں حیات اللہ خان کے کیس میں بھی ہوا تھا جس میں ان کی اہلیہ کو اس لئے قتل کیا گیا کہ اس نے عدالتی کمیشن کے سامنے اپنے شوہر کو قتل کرنے والوں کے خلاف گواہی دی تھی، آج بھی اس کا خاندان مشکل میں ہے۔
ان واقعات اور ایسے ہی بے شمار واقعات میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے ’خبر‘ جس کی وجہ سے یہ صحافی مارے گئے۔ خبر کی تلاش انہیں قبر تک لے گئی، بدقسمتی سے مرنے کے بعد وہ خبر بھی دفن کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے صحافی کی موت واقع ہوتی ہے۔
میں 1989سے ان واقعات کو فالو کر رہا ہوں۔ مجھے تو آج بھی ان تین صحافیوں کا قتل یاد ہے جو سندھ میں اس سال چند ہفتوں میں مارے گئے۔ اس زمانے میں احتجاج بھی بھرپور اور متحد ہوکر کیا جاتا تھا۔ ایک دن کی مکمل ہڑتال بھی ہوئی تھی اور کوئی اخبار شائع نہیں ہوا تھا۔ اب ہم پریس کلب کے سامنے ایک مظاہرہ کرلیتے ہیں اور بس۔ مجھے تو آج بھی یاد ہے جب 2006 میں سندھی اخبار کاوش اور KTN کے فوٹو گرافر منیر سانگی کو لاڑکانہ میں قتل کیا گیا۔
اس کی بیوہ نے کئی سال انصاف کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی، آخر مایوس ہوکر ایک روز اس نے سپریم کورٹ، کراچی رجسٹری کے سامنے اپنے شوہر کے کیس کی فائل جلانے کی کوشش کی، میری درخواست پر اس نے ارادہ ملتوی کردیا مگر سچ پوچھیں تو انصاف تو میں بھی نہ دلا سکا۔ اس کو بہرحال لاڑکانہ چھوڑنا پڑا۔ یہ بے شمار صحافیوں کے گھروں کی کہانیاں ہیں۔ حال ہی میں جنگ میرپورخاص کے صحافی زبیر مجاہد کے قتل پر بنائی گئی دستاویزی فلم دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، آج بھی اس کے گھر والے منتظر ہیں کہ کب انہیں انصاف ملے گا۔
بلوچستان میں تو چند برسوں میں 43 صحافی مارے گئے، کم و بیش یہی حال دوسرے صوبوں کا ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور سابقہ فاٹا کے صحافیوں کے قتل کا۔
ایسے میں صحافتی تنظیموں،سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سب سے بڑھ کر اقوام متحدہ کے 2010میں نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں وفاق اور سندھ میں ’’جرنلسٹس بل‘‘ کی منظوری اور کمیشن کا قیام ایک امید کی کرن بنی ہے۔ ویسے تو 2012 کے انسانی حقوق کمیشن ایکٹ کے تحت بھی ان واقعات پر کام ہو سکتا تھا مگر بہرحال یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔
پاکستان میں صحافت کرنا آسان نہیں ہے، ویسے بھی یہ ایک ذمہ داری کا کام ہے، پرنٹ سے الیکٹرانک اور اب ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں یہ ایک طاقتور میڈیم تو بن گیا ہے مگر ہمارے بہت سے دوست شاید اب بھی صحافت کے بنیادی اصولوں سے ناواقف ہیں۔ بہت سے واقعات میں صحافی اس لئے بھی اپنی زندگیوں سے گئے کہ ان کے پاس بنیادی ٹریننگ نہیں تھی اور نہ ہی جان کا تحفظ۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری میڈیا کے اداروں کی بنتی ہے کہ کوئی صحافی یا میڈیا ورکر اگر کام کرنے کے دوران یا کسی خبر کی لگن میں نشانہ بنتا ہے تو اس کی زندگی کی انشورنس کی جائے۔ خاتون صحافی صدف کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس چینل کے لئے وہ کام کر رہی تھی وہاں سے اسے کئی ماہ سے تنخواہ نہیںدی گئی تھی، اس کے پاس ٹریننگ کہاں ہوگی؟ اسی طرح چند سال پہلے لاہور کے ایک چینل میں آگ لگ گئی، رمضان کے دنوں میں سحری ٹرانسمیشن کے دوران کئی لوگ زندہ جل گئے کیونکہ انہیں باہر نکلنے کا راستہ نہیں پتا تھا۔
یہاں چینل کم دکانیں زیادہ کھلی ہوئی ہیں۔ مجھ میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ میں مقدمات اور واقعات کو فالو کرتا ہوں۔ اسلام آباد کانفرنس کے دوران نیپال، انڈونیشیا، فلپائن اور سری لنکا کے صحافیوں سے وہاں صحافیوں کو درپیش واقعات جاننے کا موقع ملا۔ سری لنکا کے صحافی سے میں نے جب 2009 میں وہاں ایک ایڈیٹر کے قتل کے حوالے سے معلوم کیا تو وہ بھی حیران ہوا۔ وہ بہت بڑا واقعہ تھا کیونکہ اس نے اپنے قتل کی پیشگوئی بھی کر دی تھی اور اس وقت کے سری لنکن صدر کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا تھا، ’’مجھے پتا ہے مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ تم میرے قتل کی مذمت بھی کرو گے، قاتلوں کی گرفتاری کا یقین بھی دلائو گے مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا تم اس میں بھی ناکام ہوگے اور میں قتل ہو کر بھی جیت جائوں گا کیونکہ میں انہی اصولوں پر آج تک کھڑا ہوں جس کے لئے کبھی میں نے اور تم نے زمانۂ طالب علمی میں مل کر جدوجہد کی تھی۔‘‘ جب اس کیس کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں پوچھا تو پتا چلا کہ دو ملزمان پکڑے گئے تھے، ایک نے جیل میں خودکشی کرلی اور دوسرا بری ہوگیا۔
برسوں سے صحافیوں کے قتل پر کمیشن بنتے آئے ہیں مگر رپورٹ منظر عام پر نہیں آتی، یہاں صرف لوگ ہی غائب نہیں ہوتے بلکہ کیس فائل بھی، کمیشن کی رپورٹس بھی غائب ہو جاتی ہیں۔ارشد شریف بھی تو اعلیٰ ترین سطح تک اپنی جان کے خطرات سے آگاہ کرتا رہا تھا، اس کے خلاف سولہ ایف آئی آرزدرج ہونے کی کہانی تو خود دو رکنی کمیٹی کی رپورٹس سے واضح ہے۔
ایک صحافی اپنی خبروں اور خیالات کی وجہ سے ’قبر‘ تک جا پہنچا، قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستین۔ اس کو خبر نہیں لہو بولتا بھی ہے۔(بشکریہ جنگ)