تحریر: رضا علی عابدی
ساٹھ سال ہونے کو آرہے ہیں جب میں نے اخبار کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ اخبار ہو یا ریڈیو، میں کسی نہ کسی شکل میں خبروں ہی سے وابستہ رہا۔ کبھی خبریں لکھیں، کبھی پڑھ کر سنائیں، کبھی ان پر تبصرہ کیا اور کبھی ان کے پس منظر میں گیا، لیکن یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کبھی خبریں بنائی نہیں۔ اِدھر اُدھر سے اکٹھا کیں لیکن کبھی گھڑی نہیں۔میرا خیال ہے میرا وہ زمانہ بھی نہیں تھاکہ نامہ نگار گھر سے خبریں بنا کر لارہے ہوں ۔ یہ تو نئی لہر چلی ہے، خاص طور سے جب سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر ہوئے ہیں اخباری دنیا میں ایک نئی اصطلاح چل پڑی ہے: fake news اسے آپ اردو میں چاہیں تو مصنوعی، فرضی،من گھڑت، جعلی یا گمراہ کن خبر کہہ لیں۔ ٹرمپ کا تو عجب معاملہ ہے کہ ان کی انتخابی مہم کے دوران جعلی خبروں نے زور پکڑا اور صدر بننے کے بعد تو آئے دن ان کے منہ سے یہ سننے میں آنے لگا کہ مختلف اخبار اور ٹی وی چینل گمراہ کن خبریں چلا رہے ہیں۔ یہ وہ خبریں ہوتی ہیں جو افواہوں کی طرح گھڑ کر دنیا میں رائج کردی جاتی ہیں۔ ان کا مقصدیا تو عام لوگوں کو گمراہ کرنا یا کسی مقبول ہوتے ہوئے تصورکو باطل کرنا ہوتا ہے۔
افواہوں میں ایک عجب خوبی یہ ہوتی ہے کہ ان پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ان میں کچھ ایسی کجی پیدا کی جاتی ہے جو متاثرہ لوگوں کے دل کو بھانے لگتی ہے۔ شاید ایک سبب یہ بھی ہے کہ عام ووٹر حالات سے اتنا زیادہ واقف نہیں ہوتا کہ وہ بے بنیاد خبروں کو چھانٹ کر مسترد کردے۔ یہ بات بہت زیادہ غور طلب ہے کہ لوگ منفی خبروں پر اتنی جلدی اور آسانی سے ایمان کیوں لے آتے ہیں۔ کیا سبب ہے کہ ادھر خبر رساں اداروں کا رویہ بدلا، ادھر چلتا چلاتا نظام ڈگمگانے لگا۔ان سوالوں کے جواب دینے کا میں شاید اہل نہیں لیکن عمر بھر خبروں کے انبارٹٹولنے کے تجربے کے بعد چند باتیں کہہ سکتا ہوں۔پہلی بات یہ کہ ساری نہیں، چند خبریں ہوتی ہیں جو بڑی ٹھوس بنیاد پر کھڑی ہوتی ہیں۔خبر جاری ، شائع یا نشر ہوتے ہی جھٹ اسے جو ں کا توں مان لینا ٹھیک نہیں۔ خبر رساں ادارے میں کام کرنے والے لوگ نئی اور تازہ خبر کو دیکھ کر بارہا کہتے سنے گئے ہیں کہ ابھی یہ خبر میچور نہیں ہوئی یہ وہ خبر ہوتی ہے جوا بھی کچّی ہوتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کا حلیہ کچھ کا کچھ ہوسکتا ہے ۔
دوسری وہ خبر ہوتی ہے جس میں شرارت کارفرما ہوتی ہے اور جو فیلڈ میں نہیں بلکہ نیوز ڈیسک پر بنتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شاطر خبر نویس اس میں جس خوبی سے نمک مرچ لگاتا ہے، عام لوگ اسے خوشی خوشی قبول کر لیتے ہیں۔ اس قسم کی سیاسی خبروں کے سننے یا پڑھنے والے کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ سیاست کی دو پرتیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو اوپر ہوتی ہے اور نظر آتی ہے ۔ معاملات کی ایک پرت نیچے ہوتی ہے جس تک عام لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی۔ یہ بات عام لوگ جانتے ہیں، محسوس کرتے ہیں لیکن مانتے نہیں بلکہ یوں ہوتا ہے کہ تبصرہ نگار یا تجزیہ کاراپنی باتوںاور لب و لہجے سے یقین دلا تا ہے کہ اسے اندر کے حالات کا علم ہے۔ لوگ، بے چارے لوگ مان جاتے ہیں۔یہ بھی fake news کا کمال ہے۔ تو دو باتیں طے پائیں۔خبر سنتے ہی یا پڑھتے ہی اس پر ایمان نہیں لانا چاہئے ا ور دوسری بات یہ کہ خبر کی صداقت پر کچھ دیر کے لئے شک یا شبہ کرلیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
جعلی خبروں سے ایک بڑا کام نکلتا ہے۔ مایوسی پھیلانے میں یہ خبریں حیرت انگیز حد تک موثر ہوتی ہیں۔ ناکامیوں کو یوں ظاہر کرنا گویا یہ اندر کی خبریں ہیں، اس کا عوام پر خوب اثر ہوتا ہے۔ایک او راہم بات۔ جعلی خبروں سے حکومت یا اداروں کی کامیابی یا کارناموں کا چرچا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مایوسی کے بر عکس فرضی خبریں سب کچھ کرسکتی ہیں،کسی کی شہرت بڑھانے کا فرض انجام نہیں دے سکتیں۔اس کے لئے اپنی شہرت کے متمنی کو عام طور پر اپنا بٹوہ ڈھیلا کرنا ہوتا ہے۔
مجھے اپنے دور میں جعلی خبر چھاپنے کا جو تجربہ ہواوہ ان دنوں جب اخباروں پر سخت سنسر شپ مسلط کی جاتی تھی اوربہت پابندیاں عائد کی جاتی تھیں۔ اخبار کے دفتر کا یہ معمول تھا کہ جس وقت پابندیوں کا اعلان ہوتا، عملے میں ایک آواز ضرور بلند ہوتی کہ اب بھارت کی شامت آئی۔ مطلب یہ ہوتا تھا کہ بھارت کے خلاف خوب لکھو ، جی بھر کر لکھو ۔ کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ اُن ہی دنوں ہمارے ایک ساتھی صحافی جن کا نام بلند اقبال تھا، بھارت کے خلاف خبریں بنانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ ایک روز خبروں کا توڑا تھا اور صفحوں کا ہر حال میں پیٹ بھرنا ہوتا تھا، بلند اقبال مرحوم نے پاکستان کی سرحدوں کے قریب بھارتی فوجوں کی نقل و حرکت کے عنوان سے ایسی خبر بنائی کہ وہ شائع ہوتے ہی ایڈیٹر کے پاس فوج کا فون آیا کہ آپ نے بھارتی فوج کی نقل وحرکت کی یہ تفصیل کہاں سے حاصل کی ،یہ اطلاعات تو ہماری انٹیلی جنس کے پاس بھی نہیں ہیں۔وہ کسی نے کیا خوب کہا: اس طرح تو ہوتا ہے۔۔۔(بشکریہ جنگ)