تحریر: ناصر جمال۔۔
قیامت کی نشانیاں ہیں۔ خوشنود علی خان، ’’صحافت‘‘ کا نوحہ پڑھ رہے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسی سنی لیون، فحاشی کے خلاف احتجاج کرے۔
خوشنود علی خان اور ضیاء شاہد، صحافت کے ”ولن“ ہیں۔ صحافت کو بے آبرو کرنے اور خبر کو استعمال کرنا ان پر ختم تھا۔ یہ صحافت کے نادان دوست تھے۔ جیسے آج پی۔ ڈی۔ ایم۔ اس کے اتحادی اور عمران خان، سیاست اور جمہوریت کے ’’نادان‘‘ دوست ہیں۔
صحافت کو صنعت بنانے والے، آج، کس سے گلے کررہے ہیں۔ عباس اطہر مرحوم نے آخری ایام میں کہا تھا کہ ہم سے غلطی ہوگئی۔ ہم صحافت کو مشن سمجھتے رہے۔ جبکہ یہ بھی دوسرے پیشوں کی طرح، ایک پیشہ ہی ہے۔ ظاہر ہے وہ جتنی مزاحمت کرسکتے تھے، انھوں نے کی۔ پھر زندگی نے انھیں بھی، دھندے پر لگا لیا۔ لاکھانی سیٹھ کے پاس جاکر، ’’حنوط‘‘ ہوگئے۔میں بہرحال، حسن نثار کو داد دوں گا۔ وہ آج بھی ’’انقلابی‘‘ کی کامیاب اداکاری کرتے ہیں اور علیم خان کے پاس کرتے ہیں۔
صحافت‘‘ خبر سے ہوتی ہے۔ پاکستانی صحافت خبر سے ہی دستبردار ہوگئی۔کسی نے کہا کہ نو مئی کے بعد، جو اقساط دراقساط، اسکرپٹ سامنے آرہا ہے۔ اُس میں کے ۔ پی۔ پولیس، گھروں میں نہیں گُھسی، وہاں کچھ روایات ہیں۔ اگر پولیس ایسا کرتی تو خطرناک ردعمل سامنے آسکتا تھا۔ وہ اُس سے بچے ہیں۔
مگر پنجاب، سندھ، بلوچستان میں تو لوگ عادی ہیں۔ سیکیورٹی والے کچھ بھی کرلیں۔ اسی لئے،وہاں، پہلے سے زیادہ ’’دھاک‘‘ بٹھائی جارہی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جلد ہی منگولوں کو پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ چنگیز خان اور ہلاکو خان، آئی۔ جی پنجاب کو ’’مرشد‘‘ کہہ کر ہاتھ چومیں گے۔
بات دوسری طرف نکل گئی۔ پہلے وہ صحافی معتبر ہوتا تھا جو خبر دیتا تھا۔ جس کے پاس خبر ہوتی تھی۔ جو فیلڈ میں کام کرتا تھا۔ بائی لائن (نام کے ساتھ) خبر چھپنا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔اب خبر کی بجائے، خوشامد کے ساتھ، معتبر اخبار میں کئی کئی جگہ پر نام چھپا ہوتا ہے۔ اس پر اعزازات بھی ملتے ہیں۔ حنیف خالد، صالح ظافر، ٹاپ ٹین میں آتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وقار ستی، سمیت بہت سے لوگ اس میں مقام نہیں رکھتے۔ ابھی، ابھی حذیفہ رحمان کی شکل میں نئی انٹری ہوئی ہے۔خیر، یہاں تو سرکاری ایوارڈز میرا مطلب ہے۔ سول ایوارڈز میں فراڈ ہوتا ہے۔ جو فراڈ پکڑتا ہے۔ وہ مصیبت میں ہوتاہے۔ جو فراڈ کرتا ہے۔ اس کے سفارشی وزیراعظم لیول کے ہوتے ہیں۔ سابقہ وزرائے اعظم، وفاقی وزراء ایک نہیں، کئی کئی ہوتے ہیں۔ آپ کتنا بڑا، اسکینڈل بریک کرلیں۔ کسی کو کچھ نہیں ہوتا۔ اور شاید ہونا بھی نہیں ہے۔جو گرا، ہوا، ہوتا ہے۔ اس پر سب جھپٹ پڑتے ہیں۔ جیسے کبھی آصف زرداری، نواز شریف تھے۔ اور اب عمران خان نشانے پر ہے۔
جو’’مواد‘‘ دوست دیتے ہیں۔ بغیر تحقیق، تجزیئے، کے ٹھپے پر ٹھپے لگائے جاتے ہیں۔پاکستان، کے اخبارات اٹھاکر دیکھ لیں۔ یہ غداروں سے بھرے پڑے ہیں۔ پھر اچانک ہی انھیں میڈیا کے ذریعے، محب الوطنی کے سرٹیفکیٹ اور این۔ او سی۔ جاری ہوجاتے ہیں۔
آپ دیکھیئے گا ایک دن یہ نعرے لگیں گے۔ہنے !!! خبر آئی اے۔۔۔۔ عمران ساڈا بھائی اے۔۔۔۔
پاکستان میں صحافت ختم ہوچکی ہے۔ ایک، ارب روپے کی ہیلتھ انشورنس کی ہڈی، میڈیا کے منہ میں ڈالی گئی ہے۔ تو وزیراطلاعات پر، نیشنل پریس کلب میں پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئی ہیں۔کسی صحافی نے نہیں پوچھا کہ میڈیا پر بدترین سنسر شپ کیوں ہے۔یہی افضل بٹ ،طلعت حسین، حامد میر، ابصار عالم، نصرت جاوید سمیت، ہر ’’بڑا بونا‘‘ میلوڈی میں روزانہ جلوس نکالتا تھا۔ مشرف کو گالیاں دیتا۔ایک مشہور صحافی نے تو یہ نعرہ بھی لگا دیا تھا کہ ’’کیڑا تیرا پیو مشرف، شو مشرف، شو مشرف، یہ سب خوش ہوتے تھے۔کچھ لوگ تھے۔ جو اُس وقت کہتے تھے کہ تمہارے لیڈر بیرونی اور اندرونی ابوئوں کے پے رول پر ہیں۔ مگر فرخ نواز بھٹی سمیت نوجوان صحافیوں کو انقلاب چڑھا ہوا تھا۔ انھیں بعد میں سمجھ آئی کہ ہمیں تو استعمال کر لیا گیا ہے۔
مرحوم۔ سی۔آر۔ شمسی نے میر شکیل الرحمٰن کو کہا کہ آپ نے میاں نواز شریف سے آزادی صحافت کی جنگ جیت لی۔ میر شکیل الرحمٰن نے کہا کہ کونسی آزادی صحافت۔ بعد ازاں بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔بہرحال!!! سب کو پتا تھا کہ حاجی نواز رضا، مشتاق منہاس، مجیب رحمن شامی سلمان غنی اور افضل بٹ کی ڈوریں کس کے ہاتھ میں ہیں اور کیوں ہیں۔ آج بھی ہیں۔کچھ نہیں بدلا، وہی کردار ہیں۔ صرف یہ ہوا کہ یہ ھم سب بے نقاب ہوگئے ہیں۔ ھم گندی سیاست، صحافت میں لے آئے اور آج، ایک ہیلتھ انشورنس ملنے پر، شادیانے بجا رہے ہیں۔ قلم، ایمان، ضمیر، آواز گروی رکنے پر خوش ہیں۔ مالکان کو اشتہار اور مراعات ملنی چاہئیں۔ صحافتی لیڈروں کے کام ہونے چاہئیں۔
شاید یہ لوگ زیادہ سمجھدار اور دور اندیش ہیں۔انھیں سوسائٹی کے مردہ ہونے کا لگتا ہے۔ بہت پہلے پتا چل گیا تھا۔ اس لئے انھوں نے مشکل کی بجائے، آسان راستہ چُن لیا۔۔یزید سے بھی تعلق، امام کو بھی سلام
عزیزی عاطف شیرازی کہا کرتا ہے کہ چھوڑیں!!! ناصر صاحب!!! امام کے ساتھ بھی صرف 72 ہی تھے۔ خالص خون والے اور دیوانے تھے۔ کوئی بچانے کے لئے نہیں نکلا۔ کوفہ کی مسجد میں ستر ہزار مقتدی ، سلام پھیرنے سے پہلے ہی غائب ہوچکے تھے۔ لوگ ہستیوں اور اصول کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے۔ آج تو لٹیا ہی ڈوب چکی ہے۔ ذاتی مفادات، کا کھیل ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور صحافتی تاریخ، بد کرداروں سے بھری پڑی ہے۔ دوہزار سات میں میڈیا پر پابندی تھی۔ نگران وزیراطلاعات نے ایک فہرست بنائی۔ پہلے کس چینل کو کھولنا ہے۔ ٹی۔ وی مالکان کی حالت دیکھنے والی تھی۔ نثار۔ اے میمن کے اشارے پر سیٹھ ناچنے لگے۔ سب سے پہلے۔ اے۔ آر۔ وائی کھلا تھا۔اُس سے پہلے نعرے لگتے تھے جیو اور جینے دو، رہنے دو باخبر، شام سے پہلے میرے دوست کاشف عباسی سے لیکر اے۔ آر۔ وائی کے سب لوگ غائب ہوچکے تھے۔ نعرے بدل چکے تھے۔
میرے خیال میں پرویز مشرف، شریف آدمی تھے۔ وہ میڈیا کو کچھ زیادہ ہی عزت دے گئے۔آج میڈیا کی جو عزت افزائی ہورہی ہے۔ وہ بالکل ٹھیک ہورہی ہے۔نئے وزیراعظم بلاول بھٹو کو میڈیا اور عوام پر اس سے بھی سخت ہاتھ رکھنا چاہئے۔ کچھ بھی نہیں ہوگا۔اسلام آباد، نیشنل پریس کلب کی گرانٹ بڑھا دیں۔ ’’روٹی‘‘ فری کردیں۔ وائن شاپ کا پریس کلب کو لائسنس دے دیں۔ انھیں بے روزگاری الائونس آفر کردیں۔ اشتہارات کا ٹنٹہ ختم کرکے وہ پیسے صحافیوں کو براہ راست کسی سکیم کے ذریعے دے دیں۔ سیٹھ کیا کرلیں گے۔ اُن کو دو، موچڑے ماریں۔ حلق سے سانس نہیں نکلے گا۔
البتہ، ہم جیسے پاگلوں کو بولنے اور لکھنے دیں۔ قوم نے کونسا، سننا اور پڑھنا ہے۔ نحیف آواز کو زندہ رہنے دیں۔ فرق نہیں پڑے گا۔ سکون سے حکومت کریں۔(ناصر جمال)۔۔