تحریر: وسعت اللہ خان
بھارت اور پاکستان کے درمیان پینسٹھ کی جنگ کو پچپن برس بیت گئے۔مگر آج بھی کوئی نہ کوئی بوڑھا طعنہ دے ہی دیتا ہے ارے آپ اس بی بی سی کے لیے کام کرتے ہیں جس نے پینسٹھ میں خبر دی تھی کہ بھارتی ٹینک لاہور شہر میں داخل ہو گئے ہیںاور پھر میں صفائیاں پیش کرتا ہوں کہ جنابِ من دراصل اس زمانے میں بھول چوک اس لیے ہوجاتی تھی کیونکہ خبر کی فوراً تصدیق کے ذرایع اتنے تیز رفتار اور جدید نہیں تھے جتنے آج ہیں۔
مگر پھر میں خود ہی سوچ کر شرمندہ ہوجاتا ہوں کہ آج انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ہوتے ایک منٹ میں دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والے واقعہ کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے ایک سے زائد تصدیقی ذرایع کے علاوہ جعلی اور اصلی خبر اور تصویر میں فرق کرنے کی ویب سائٹس اور سافٹ وئیرز بھی دستیاب ہیں۔ مگر خبر کے نام پر جھوٹ پہلے سے کئی گنا تیزی سے پھیل رہا ہے۔آج اس کہاوت کا اصل مطلب سمجھ میں آ رہا ہے کہ اس سے پہلے کہ سچ گھر سے باہر قدم رکھے جھوٹ کرہِ ارض کے تین چکر لگا چکا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ سب کسی بھولپن میں نہیں بلکہ جان بوجھ کر سائنسی انداز میں ہو رہا ہے۔ مقصد خبر کی ترسیل نہیں بلکہ دماغوں پر قبضہ کرنا، آلودہ کرنا یا رائے عامہ کو کنفیوژن میں رکھ کر مخصوص اہداف اور مقاصد کا حصول ہے۔ جھوٹ ایک انفرادی فعل نہیں رہا بلکہ اربوں کھربوں کی صنعت بن چکا ہے اور صنعتی مقدار میں ہر روایتی و ڈجیٹل رسمی و غیر رسمی پلیٹ فارم سے بیچا اور خریدا جا رہا ہے۔
ہٹلر کے پروپیگنڈہ وزیر گوئبلز کا یہ قول اب فرسودہ ہو چکا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ کا گمان ہونے لگے۔اس قول کی جدید شکل و صورت یہ ہے کہ سچائی کو بھی جھوٹ کی پوشاک میں باہر بھیجو تاکہ لوگ یقین کر سکیں۔یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ دو ممالک کے درمیان جنگ چل رہی ہو تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے لمبی لمبی ہانکی جائیں تاکہ پروپیگنڈے کے ذریعے اپنے اپنے لوگوں کا حوصلہ بلند رہے۔مگر آج جھوٹ بولنے کے لیے کسی روایتی لڑائی کی بھی ضرورت نہیں رہی۔
میڈیا نے قاری و ناظر کے خلاف ایک مستقل دماغی جنگ چھیڑ رکھی ہے جس میں علاقے پر قبضے کی روایتی کوشش کے برعکس زیادہ سے زیادہ ریٹنگ ہتھیانے کے لیے ہر طرح کا ہتھیار اندھا دھند استعمال ہو رہا ہے۔آپ ہمیں بس ایک عدد چنگاری دے دیں۔ آگ ہم خود بنا لیں گے۔جیسے خبر صرف اتنی تھی کہ سندھ پولیس کے آئی جی کو رینجرز اور خفیہ کے لوگ زبردستی لے گئے اور ان سے ایک حکومت مخالف سیاسی شخصیت کی گرفتاری کے وارنٹ پر دستخط کروا لیے۔ ہر طرف سے اس واقعہ پر کڑی نکتہ چینی ہو رہی ہے۔واقعہ کی ایک سے زائد سطح پر تحقیقات بھی جاری ہیں اور حزبِ اختلاف اور حکومتی مشیر اس واقعہ کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بطور بارود بھی استعمال کر رہے ہیں۔
مگر اس کو لے کر انڈین میڈیا کے زی، انڈیا ٹوڈے ، نیوز ایٹین اور سی این این، آئی بی این جیسے عزت دار چینلوں سے لے کر چھٹ بھئیے چینلوں کی ویب سائٹس تک جس طرح کراچی میں فوج اور پولیس کے درمیان خانہ جنگی، لاشیں گرنے، تھانوں پر قبضے ، گورنر ہاؤس کے گھیراؤ اور صوبائی سرکار کی برطرفی کی خبریں پورا دن چلتی رہیں۔کراچی کے کسی فرضی علاقے گلشنِ باغ ( غالباً گلشن اقبال ) میں ایک عمارت میں حادثاتی دھماکے کو پولیس ٹھکانے پر راکٹ باری قرار دے دیا گیا۔ مگر اگلے دن کسی انڈین چینل نے کوئی فالو اپ نہیں دیا کہ بھیا اگر ایک دن پہلے کراچی میں اتنی ہی زبردست دھماچوکڑی مچی ہوئی تھی تو دوسرے دن کراچی کا کیا حال ہے۔پورا قصہ یوں غائب ہو گیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
افسانوی صحافت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔بھارتی میڈیا انتہائی ذمے داری کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر کئی بار سرجیکل اسٹرائکس کروا چکا ہے اور بالاکوٹ پر فضائی حملے میں تین سو دہشت گرد بھی مار چکا ہے اور اب تو اس جھوٹی سچائی پر بالی وڈ ایک فلم بھی بنا رہا ہے۔مگر ہم بھی کون سے دودھ کے دھلے ہیں۔ جب دو ہزار چودہ میں اسلام آباد میں عمران خان اور طاہر القادری کا دھرنا جاری تھا تو ایک معزز ٹی وی اینکر نے وزیرِ اعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ کے اوپر ماہرِ سرکاری نشانچی بٹھا کر کم ازکم دس لاشیں گروا دیں اور پھر ان خیالی لاشوں کا جنازہ پڑھنے بھی نہیں گئے۔
جب تین برس پہلے بھوٹان سے متصل دوکلام کی سرحد پر بھارت چائنا تناؤ بڑھ گیا تو ایک دن کئی پاکستانی چینلوں پر خبر چل گئی کہ چینی فوج نے تین سو سے اوپر بھارتی فوجی مار ڈالے۔چند گھنٹوں بعد خبر غائب ہو گئی مگر ایک بھی چینل نے ناظرین سے نہیں کہا کہ ہم معافی چاہتے ہیں یہ خبر درست نہیں تھی۔ابھی تین دن پہلے ہی ہمارے ہی ایک ہم پیشہ دوست اور ایک چینل کے معروف تجزیہ کار نے خبر پھوڑی کہ ایک برادر اسلامی ملک نے فیٹف کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔حالانکہ تب تک فیٹف میں اس مسئلے پر کوئی ووٹنگ ہی نہیں ہوئی تھی۔
البتہ ایسا ایک واقعہ دو ہزار اٹھارہ میں ہوا تھا جب ترکی نے فیٹف کے اجلاس میں پاکستان کے حق میں اور سعودی عرب نے مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔عین ممکن ہے کہ ہمارے معزز صحافی دوست کی نظر سے یہی پرانی خبر گزری ہو اور انھوں نے اسے تازہ ترین اسکوپ فرض کر کے ناظرین کے کان میں انڈیل دیا ہو۔مگر مجال ہے کہ انھوں نے تادمِ تحریر اپنی اس فاش غلطی کا اعتراف کیا ہو کہ جس کی تردید نہ صرف پاکستانی دفترِ خارجہ بلکہ سعودی سفارت خانے کو بھی کرنا پڑ گئی۔
المیہ یہ نہیں کہ جھوٹ کو سچ بتا کر ڈھٹائی سے بیچا جا رہا ہے۔المیہ یہ ہے کہ جیسے ہر شہری مسلسل شک میں مبتلا ہے کہ پیسے دینے کے باوجود ہر چیز ملاوٹی اور بناوٹی مل رہی ہے اور اس کا جسم اس ملاوٹ کی قیمت بیماریوں کی شکل میں بھوگ رہا ہے۔اسی طرح خالص خبر کے نام پر ملاوٹی اور جعلی خبر مل رہی ہے جس کی قیمت یہ خبر سننے ، پڑھنے یا دیکھنے والے کروڑوں لوگ اپنی ذہنی حالت پر شبہے اور اضافی ڈیپریشن کی شکل میں ادا کر رہے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں حقیقت یا سچائی سامنے آ بھی جائے تب بھی لوگ یقین کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔
ہم میڈیا والے دوسروں کے جھوٹ پکڑنے کی کھوج میں رہنے اور اسے عام آدمی تک پوری ایمان داری سے پہنچانے کا دعوی کرتے نہیں تھکتے آج خود خبر کے نام پر زہر بیچ رہے ہیں اور شرمندہ تک نہیں۔ہم شاید میڈیا نہیں رہے۔میڈیا سیل بن چکے ہیں۔اور یہ تک نہیں جانتے کہ ہماری ڈوریاں دراصل کس کے ہاتھ میں ہیں اور اس کی ڈوریاں کون ہلا رہا ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔