تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
سماجی ، تہذیبی اور اخلاقی انحطاط کے باعث اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین بیک وقت اسلام اور جمہور دونوں کی اخلاقیات سے بہت دور دکھائی دیتی ہے جہاں ہر کوئی من مانی پر اترا ہوا ہے جس سے سب سے زیادہ ذہنی نقصان نئی نسل اور نفسیاتی نقصان گذشتہ نسل اٹھارہی ہے جبکہ قومی اور معاشی نقصانات اس کے علاوہ ہیں جو ہر کوئی دیکھنا اور پرکھنا نہیں چاہتا ، بحثیتِ مجموعی اس کا سب سے زیادہ نقصان میڈیاانڈسٹری کو پہنچا ہے جس انڈسٹری میں اخلاقیات بطور خاص ملحوظ رکھا جاتا تھا اور اس کے تحفظ کی بقدراستطاعت و استعداد کوشش کی جاتی تھی لیکن اب سوشل میڈیا پر ’کمائی‘ کے عنصر اور میڈیا پر ’ مفادات ‘ کے زیر اثر اختلاقیات کاقتلِ عام جاری ہے اور سب سے زیادہ قتلِ عام میڈیا کارکنوں کا ہوا ہے ، اس کا فائدہ بلاشبہ سماجی بگاڑ کے لئے کام کرنے والوں اور معاشرے میں انتشار سے استفادہ کرنے والوں کو ہوا ہے۔ جس میں کسی نہ کسی حد تک ریاستی ایلمنٹ بھی شامل ہیں اور دیگر گروہ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں بس ”’معمولی“ نقصان صرف یہ ہے کہ موجودہ دور میں بد تہذیبی اور من مانی نے جس قدر فیک نیوز اور منفی پراپیگنڈا کو فروغ دیا ہے اس سے تاریخ کسی اور رنگ اور مزاج میں مرتب ہورہی ہے ۔
سماج میں ہر سمت بے یقینی اور بداعتمادی پھیلی ہوئی ہے اور درست خبر پر جھوٹی خبر غالب ہوچکی ہے ۔ ان حالات میں کسی نہ کسی حد تک معاملات بہتر بنانے کی کوشش بلاشبہ ریاست کی ذمہ داری ہے جوقانون سازی اور عملی اقدامات سے یقینی بناسکتی ہے ، یہ الگ بات کہ درست خبر کی راہ میں حائل اور کئی خرابیوں کی جڑ خودریاست بھی ہے لیکن غیر ریاستی عناصر اب اس معاملے میں ریاست کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں ، ہر حکومت نے میڈیا کوکنٹرول کرنے اور حقائق توڑ مروڑ کر ’بک بک ‘ کرنے والوں کو نہ صرف فوقیت دی بلکہ اپنے ماتھے کا جھومر سرکاری وسائل سے بنایا ، یہ کسی ایک دورِ حکومت کا المیہ نہیں بلکہ برائی کا مسلسل جلنے والا الاﺅ ہے جسے پیشہ ور صحافی اور لکھاری بھی اپنی منافقت اور خاموشی کی وجہ سے ان دیکھا ایندھن فراہم کرتے ہیں۔ حکومت نے ایک بار پھر فیک نیوز اور بک بک بند کرنے کیلئے سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کا قانون متعارف کروایا ہے ۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور اس کی مخالفت میڈیا کارکنوں کے ذریعے کرائی جاتی رہی ہے جس میں میڈیا مالکان کا بھی کلیدی کردار ہے ، ایک زمانہ ایسا گذرا ہے جب میڈیا کارکنان حق گویائی کے جائز استعمال پر قدغن کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں اور اس جہد میں اذیتناک صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے ہیں ، بعد میں صورتحال یکسر بدل چکی ہے اور میڈیا کارکنوں کی ہر تنظیم مخصوس مفادات کے تابع ہوکر صرف ”پریس ریلیز یونین ‘ بن چکی ہے ، اب درخشاں جمہوری روایات اور انتخابی عمل کی مثال کہلانے والی تنظیمیں ٹکڑوں میں بٹ چکی ہیں اور ان کے انتخابات یعنی عہدیداروں کا اعلان بس پریس ریلیز میں ہوتا ہے ، تو وہ کس ساکھ کے ساتھ کیا جائز مزاحمت ، مخالفت یا درست حمایت کرسکتی ہیں ؟ اور ان کی حیثیت کیا ہے ؟ جی ہاں بے وقعت‘ اور قطعی طور پر بے اثر ۔۔۔ خیر انفرادی مزاحمت اور آرا ءالگ اہمیت رکھتی ہیں ۔ قومی اسمبلی میں متعارف کروائے جانے والا پیکا ترمیمی ایکٹ پروفیشنل صحافیوں کے لئے اطمینان کا باعث ہے یا اضطراب کا ، اس پر آرا آنا شروع ہوگئی ہیں لیکن یہ خوش آئند ہے ک اس فیک نیوز کے تدارک کی جانب ایک پیش رفت ہوئی ہے جس سے پروفیشنل صحافی سب سے زیادہ پریشان ہیں اور انڈسٹری میں ان کی جگہ تقریبا! ختم ہوچکی ہے ۔ میڈیا انڈسٹری بھی بنیادی طور پر ان لوگوں ایک پارٹ ٹائم دھندہ اور فل ٹائم شیلٹر بن چکی ہے جنہیں صحافت سے زیادہ اپنے دیگر دھندوں کی پروٹیکشن درکار ہے،میڈیا ہاﺅسز میں ملازم رکھے جانے والے ایسے عناصر کی ضرورت ہے جو انہیں غیر صحافتی خدمات فراہم کریں ، یہی عناصرنیوز پر فیک نیوز کو ترجیح دیتے ہیں ، صحافی تو فیک نیوز دے ہی نہیں سکتا ، فیک نیوز تو صحافی کو کافر بنانے والا اضافی کلمہ ( جملہ) ہوتا ہے ۔ اب جبکہ پیکا بل اسمبلی میں پیش کیا گیا تو اس میں سب سے زیادہ توجہ طلب نکات میں ” امن عامہ، غیرشائستگی، توہین عدالت، غیر اخلاقی مواد بھی شامل ہوگا اور غیرقانونی مواد میں کسی جرم پر اکسانا‘ ہیں مزید یہ کہ بل میں واضح کیا گیا ہے کہ ” غیرقانونی مواد کی تعریف میں اسلام مخالف، ملکی سلامتی یا دفاع کے خلاف مواد اور جعلی یا جھوٹی رپورٹس شامل ہوں گی، غیرقانونی مواد میں آئینی اداروں بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف مواد شامل ہوگا“
سوال یہ ہے کہ خبر درست یا غیر درست ہونے کا تعین کس نے کیسے کرنا ہے ؟ اور کیا سو فیصد درست خبر شائع یا نشر کرنا کیسے ممکن ہے ؟ مثال کے طور پر دفاعی بجٹ ، اس کے استعمال یا عسکری اداروں کی غیر جنگی یا غیر پیشہ رانہ شمول دیگر اداروں میں تعیناتی کے دوران ان پر لب کشائی دفاع یا دفاعی اداروں اور ملکی سلامتی کے خلاف عمل قراردیا جاسکتا ہے ؟ جی ہاں ، طاقتور بااختیار کے سامنے صرف وہی قانون ہے جو طاقت کا ہمیشہ ہوتا ہے ۔ صحافی کو خبر تلاش کرنا ہے خواہ وہ کہیں سے کسی فائل سے مواد چوری کرکے خبر نشر کرے تو کیا فائل چوری کروانے ( کاپی) سے اس کی خبر کو غیر قانونی خبر کہا جائے گا ؟ قانونی خبر کیا ہے ؟ کیا صرف کسی ادارے ، جماعت یا گروہ کی اپنی جاری کی جانے والی خبر ، بیان وضاحت یا اعلامئییہ ہی قانونی خبر ہوگا ؟ عدلیہ کے بارے میں خبر سے کیا مراد ہوسکتی ہے ؟ کیا کسی جج کی معاشرتی سطح پر یا کوڈ آف کنڈکٹ کے منافی عمل پر لب لشائی یا جنبشِ قلم عدلیہ کیخلاف خبر ہوگی ؟ کیا عدلیہ کے تمام اجزاء و عناصر کلی طور پر فرشتے ہیں ؟
پروفیشنل صحافیوں کو اس پر سوچنا ہوگا اور طویل مدلل اکیڈیمک بحث میں کچھ تعریفات کا تعین کرنا ہوگا اور انہیں اس بل کا حصہ بنانا ہوگا ، یہاں تو اشتہارات پر بندش بھی آزادی صحافت کا گلہ گھونٹناقرار پاتا ہے جبکہ سرکاری اشتہارات کا خالص میرٹ صرف حکومتی عہدیداروں کی خوشنودی اور رشوت ہے ، اس کے ماسوا اور کوئی معیار ہی نہیں ، آڈٹ بیورو سرکولیشن ( اے بی سی ) کا ریکارڈ اٹھائیں تو کوئی ایک اخبار ایسا نظر نہیں آئے گا جس کی تعداد اشاعت کم از کم بیس یا پچیس ہزار سے کم ہوگی اور اگر لاہور ، کراچی ، راولپنڈی اسلام آباد ، پشاور اور کوئٹہ کی اخبارا مارکیٹ کا سروے کریں تو اس وقت کوئی ایک اخبار بھی ایسا نہیں جس کی پچیس ، تیس ہزار کاپیاں وہاں فروخت کیلئے پہنچتی ہوں جبکہ وہاں ایک دو عشرہ پہلے تک انہیں اخباروں کی لاکھ لاکھ کاپیاں بھی پہنچتی رہی ہیں، ایک کمرے میں کاپی پیسٹ کے ساتھ تیار ہونے والے اخبارات کئی کئی شہروں سے صرف ڈیکلیریشن کے ساتھ شائع ہوتے ظاہر کیے جاتے ہیں اور اسی ریٹ پر سرکار سے اشتہار لئے جاتے ہیں لیکن ملازمین یا تو موجود نہیں اور جہان موجود ہیں انہیں ایک فیکٹری ورکر سے بھی کم اور غیر مقررہ وقت پر اجرت دی جاتی ہے ۔ بہت سے اخبارات ہیں جو صرف ڈیجٹل ورژن میں موجود ہیں ، وہاں کارکن وجود نہیں رکھتے لیکن اسے مراعات سرکار کی طرف سے جاری ہیں ۔ خیر یہ ایک الگ مگر جڑا ہوا ایشو ہے ، اصل بات ہے فیک نیوز کی ، درست خبر کی ، اور طاقت وروں کی مرضی کے میٹریل کی اشاعت و نشریات کی ، بھلے اسے کی اشاعت و نشریہات روکنا مقصود ہو یا اس کا اجرا درکار ہو۔ درحقیقت کسی پیکا شیکا کی کوئی ضرورت نہیں ، ایک ایسے قانون کی ضرورت ہے جس میں میڈیا بشمول سوشل میڈیا اور اسکے کارکنوں کی ملازمت ، تحفظ ، اجرت ، ذمہ داریوں کا تعین ان کی آراءسے کیا جائے اور ایک خصوصی جامع قانون سازی کی جائے جس کا اطلاق حکومت ، ریاست ، عوام اور جملہ اسٹیک ہولڈرز کے لئے یکساں اور منصفانہ ہو، ایک ایسا جامع جوڈیشل سسٹم ہو جس میں غلط خبرپر فوری غیر جانبدارانہ ایکشن اور سزا ہو ساتھ ہی قذف طرز پر درست خبر کو چیلنج کرنے والے پر بھی ویسی ہی سزا دی جائے جو غلط خبر دینے پر مقرر کی گئی ہو۔ بصورتِ دیگر معاشرے کو خبر کے ذریعے باخبر رکھنے والے کلی طور پر قتل ہوجائیں گے اور گمراہی پھیلانے والے دندناتے نظر آئیں گے ۔ اب فیصلہ سماج اور ریاست نے کرنا ہے کہ انہیں کس کی ضرورت ہے ؟(محمد نوازطاہر)۔۔