تحریر: جاوید چودھری۔۔
یہ ق لیگ کا زمانہ تھا‘ جنرل پرویز مشرف یونیفارم میں صدر تھے اور شوکت عزیز وزیراعظم تھے‘ میں اس دور کے ایک تگڑے وزیر کے پاس بیٹھا تھا‘ چائے کا کپ اور گپ دونوں گرم تھیں‘ اچانک چپڑاسی اندر داخل ہوا اور صاحب کو ایک چٹ پکڑا دی‘ وزیر نے چٹ دیکھی‘ کرسی سے اٹھا‘ دوڑ کر پی اے کے کمرے میں گیا اور تھوڑی دیر بعد ن لیگ کے ایک سابق وزیر کو ساتھ لے کر واپس آ گیا۔میں بھی مہمان کے احترام میں کھڑا ہو گیا‘ وہ صاحب جتنی دیر وزیرصاحب کے دفتر میں رہے وزیر اپنی کرسی پر نہیں بیٹھا‘ اپنے ہاتھ سے انھیں چائے بھی بنا کر دی اور پھر آخر میں انھیں باہر گیٹ تک بھی چھوڑکر آیا‘میں نے وزیر سے پوچھا‘ کیا یہ آپ کے پرانے جاننے والے ہیں؟اس نے ہنس کر جواب دیا ’’بالکل نہیں‘ میری ان کے ساتھ تیسری ملاقات تھی‘‘ میں نے کہا ’’آپ نے انھیں جتنی عزت دی مجھے محسوس ہوا آپ ان کے پرانے جاننے والے ہیں‘‘ وہ دوبارہ ہنسا اور بولا ’’میں نے یہ عزت اسے نہیں اس کے کریکٹر کو دی‘ میں اس سے جیل میں ملا تھا‘ مجھے اسے ق لیگ میں شامل کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔
میں اس سے دو مرتبہ ملا اور دونوں مرتبہ اسے وزارت کی آفر کی مگر اس شخص نے صاف انکار کر دیا‘ اس کا کہنا تھا کیا گارنٹی ہے میں کمپرومائز کر کے باہر آؤں اور زندہ رہوں‘ میرے بعد میرے بچے اور میرے دوست میرے بارے میں کیا کہیں گے؟‘‘ وزیر صاحب کا کہنا تھا میں نے اس سے کہا ’’اور اس کی کیا گارنٹی ہے آپ فوت نہ ہوں اور آپ وزارت کوبھرپور انجوائے کریں‘‘ اس کا جواب تھا ’’مجھے اگر وزارت مل جائے تو بھی میں اپنے خاندان اور لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ یہ لوگ ہو سکتا ہے میرے کمپرومائز پر کچھ نہ کہیں لیکن میں روزانہ آئینہ دیکھوں گا اور آئینہ مجھ سے روز پوچھے گا یہ تم نے کیا کیا؟ میں اپنے آپ کو کیا جواب دوں گا چناں چہ میری طرف سے معذرت‘‘ میں نے اس سے کہا ’’ آپ اس انکار کے نتائج سے واقف ہیں۔
آپ کو لمبی سزا بھی ہو سکتی ہے‘ جائیداد بھی ضبط ہو سکتی ہے اور آپ ڈس کوالی فائی بھی ہو سکتے ہیں‘ کیا آپ یہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہیں‘‘ یہ ہنس کر بولا ’’میرے بھائی ضمیر کی آواز سننے کی سزا ہوتی ہے اور میں یہ سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں‘‘ وزیر صاحب خاموش ہو گئے‘ میں نے اس سے پوچھا ’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘ وہ شرمندہ ہو کر بولا ’’میں وزیر بن گیا اور یہ جیل میں رہا‘ یہ تین سال بعد رہا ہوا تو اسے جیل میں رکھنے والے بھی اس کی عزت کررہے ہیں اور میں بھی‘ میں خود کو اس کے سامنے چھوٹا محسوس کرتا ہوں اور اس فیلنگ نے مجھے اس کے سامنے کرسی پر نہیں بیٹھنے دیا‘‘ وزیر صاحب خاموش ہو گئے۔
وہ دور ختم ہو گیا‘ جنرل پرویز مشرف کی یونیفارم بھی اتر گئی اور ق لیگ بھی تتر بتر ہو گئی‘ حکومت کے ساتھ ہی اس وزیر کا سیاسی کیریئر بھی ختم ہو گیا‘ وہ ملک سے باہرشفٹ ہوگیاتاہم جیل برداشت کرنے والا ایم این اے دوبارہ منتخب ہوا‘ وزیر بنا اور مسلسل بنتا رہا‘ میں آج جب وہ واقعہ یاد کرتا ہوں تو میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں فائدے میں کون رہا؟ وہ جس نے کمپرومائز سے انکار کر دیا تھا یا پھر وہ جو اڑھائی برس کی وزارت کے ہاتھوں بک گیا ؟ میں آج بھی یہ سوال پوچھتا ہوں تو مجھے بے اختیار پی ٹی آئی یاد آ جاتی ہے۔
یہ جماعت طویل عرصے بعد عوام کی جڑوں سے پھوٹی تھی اور یہ آہستہ آہستہ عوام کی امنگوں کا مرکز بن گئی تھی لیکن پھر عمران خان بھٹک گئے اور انھوں نے اپنے دروازے ان لوگوں کے لیے کھول دیے جن سے نجات کے لیے عوام نے خان صاحب کو اپنا لیڈربنایا تھا‘ وہ لوگ آئے اور پھر پی ٹی آئی اور دوسری جماعتوں میں کوئی فرق نہ رہا اور اس کا نتیجہ وہی نکلا جو ایسے حالات میں نکلتا ہے‘ پارٹی اور لیڈر دونوں فارغ ہو گئے۔
خان صاحب مانے یا نہ مانے لیکن ان کے ساتھ وہی ہوا جو کرکٹ میچ کے دوران ہوتا ہے‘ ہزاروں تماشائی اسٹیڈیم میں بیٹھے ہوتے ہیں‘ یہ نعروں کے ساتھ بیٹسمین کو آسمان پر چڑھاتے ہیں‘ بیٹسمین ان کی تالیوں اور نعروں سے گرم ہو کر کریز سے باہر نکلتا ہے‘ چھکا مارنے کی کوشش کرتا ہے‘ آؤٹ ہوتا ہے اور پھر پورا سٹیڈیم اسے جم کر گالیاں دیتا ہے‘ خان صاحب بھی ایک ایسے ہی بیٹسمین تھے‘ یہ کریز سے باہر نکلتے رہے‘ چھکے مارتے رہے۔
تماشائی تالیاں بجاتے رہے اور آخر میں یہ مکمل طور پر فارغ ہو گئے اور اب تماشائی گھر پر بیٹھ کر انھیں بے وقوفی کے طعنے دے رہے ہیں‘ یہ ایک پہلو ہے‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے‘ خان صاحب کن لوگوں کے ساتھ مل کر ریاست مدینہ بنانا چاہتے تھے‘کیا ریاست مدینہ اس عامر کیانی‘ عمران اسماعیل‘ علی زیدی‘ فواد چوہدری‘ پرویز خٹک‘ فیاض الحسن چوہان‘ جمشید چیمہ‘ ملیکہ بخاری‘اسد عمر‘ شیریں مزاری‘ عثمان بزدار اور محمود خان نے بنانی تھی جو جیلوں اور مقدموں کا ایک ہفتہ بھی برداشت نہیں کر سکے۔
یہ جیل سے نکلے‘ پریس کانفرنس کی اور استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو گئے یا پھر انھوں نے پرویز خٹک کی پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز جوائن کر لی یا پھر تحریک انصاف اور خان صاحب سے اعلان لاتعلقی کر لیا‘ یہ وہ لوگ تھے جو ریاست مدینہ بھی تخلیق کر رہے تھے اور پھٹے پرانے پاکستان کو نیا پاکستان بھی بنا رہے تھے۔
یہ لوگ خان صاحب کی وہ انقلابی ٹیم تھی جس نے غلامی کی زنجیریں توڑنی تھیں اور جس نے اقوام عالم میں ملک کا سر فخر سے بلند کرنا تھا‘ یہ لوگ سیاست کا اصل کریکٹر ہیں‘ آپ اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی کا پاکستان پیپلز پارٹی‘ ن لیگ اور جے یو آئی سے تقابل کر لیں‘ ہم صحافی ان پارٹیوں کو کیا کیا نہیں کہتے رہے اور ان کے ساتھ ریاست‘ میڈیا اور حکومت نے کیا کیا نہیں کیا مگر ان لوگوں کو جیلیں توڑ سکیں اور نہ ہی سزائیں اورنہ پروپیگنڈا‘ نواز شریف کے گھر کے سامنے آج بھی آوازیں لگائی جاتی ہیں اور ان کی فیملی کو شاپنگ کے دوران برا بھلا کہا جاتا ہے مگر یہ لوگ اس کے باوجود زمین سے جڑ کر کھڑے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے محمود غزنوی میدان میں لیٹ کر نعرے لگا رہے ہیں۔
یہ صلاح الدین ایوبی زمین پر بیٹھ کر اپنے لیڈر کے خلاف تقریریں کر رہے ہیں اور مجال ہے جو انھیں اس پر ذرا بھی شرمندگی ہو اور یہ لوگ اس معاملے میں اکیلے نہیں ہیں‘ ہم اجتماعی طور پر ایسے ہی ہیں‘ طوطا چشم‘ ضمیر سے فارغ اور اپنی ناک اور جیب تک محدود لوگ ہیں‘ ہم سب اس ملک کا اجتماعی چہرہ ہیں۔
میں خان صاحب کا مخالف سمجھا جاتا ہوں‘ میں نے 2014میں سب سے پہلے پی ٹی آئی کے گالی اسکواڈ سے گالیاں کھانا شروع کی تھیں اور آج تک کھا رہا ہوں مگر اس کے باوجود مجھے آج خان صاحب سے ہمدردی ہو رہی ہے‘ یہ بے چارہ مغالطے میں مارا گیا‘ یہ کاغذی شیروں کو اصل شیر اور گتے کی تلواروں کو ضرب مومن سمجھ بیٹھا تھا چناں چہ یہ سیاسی موت مارا گیا‘ اس کے لیے اگلا وقت آج سے زیادہ مشکل اور ناقابل برداشت ہو گا۔
آج صرف اعظم خان جیسے لوگوں نے اس کا ساتھ چھوڑا ہے‘ کل جب وہ لوگ اس کا ساتھ چھوڑیں گے جن کو بچاتے بچاتے یہ اس حال کو پہنچا تو اس وقت اس کے ساتھ کیا ہو گا؟ کاش یہ 2021میں جنرل باجوہ کی بات مان لیتا اور اپنی پارٹی پر توجہ دے لیتا‘ یہ جینوئن ورکرز کو آگے لے آتا‘ یہ انھیں ٹکٹ دیتا‘ ان کی سیاسی پرورش کرتا‘ یہ 2022میں قومی اسمبلی توڑ کر الیکشن کرا دیتا یا یہ تحریک عدم اعتماد کو مردوں کی طرح برداشت کر لیتا اور اپوزیشن لیڈر بن جاتا تو آج دو صوبوں میں اس کی حکومت ہوتی۔
سینیٹ میں اس کی اکثریت ہوتی اور صدر بھی اس کا ہوتا تو آج کیا سیناریو ہوتا؟ میرا خیال ہے یہ اب تک اقتدار میں واپس بھی آ چکا ہوتا اور پی ٹی آئی سیاسی جماعت بھی بن چکی ہوتی مگر یہ حقائق سے آنکھیں موند کر کشف پر یقین کر بیٹھا اور اس کشف کے بارے میں بھی آخر میں پتا چلا یہ جنرل فیض حمید کا فیض تھا‘ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔
خان صاحب کو اب بھی عقل کے ناخن لے لینے چاہییں‘ یہ جیل سے بچنے کے بجائے مردوں کی طرح اس کا مقابلہ کرے اور ان لوگوں کی عزت کرے جو اس عالم میں بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑ رہے‘ یہ علی محمد خان‘ شہریار آفریدی‘ عمر ایوب ‘حماد اظہر‘ عاطف خان‘مراد سعید‘ اسد قیصر‘ صداقت عباسی‘ عثمان ڈار اور اعظم سواتی کی عزت کرے‘ یہ واقعی شان دار لوگ ہیں‘ مین آف پرنسپلز ہیں‘ یہ شاید اسی لیے اقتدار کے زمانے میں خان صاحب سے دور تھے اور وہ لوگ اس کے کان اور آنکھیں بنے رہے جن کی جیب میں ضمیر تک نہیں تھا چناں چہ آپ آج نتیجہ دیکھ لیں۔
خان صاحب کے لیے آج بھی ایک لائف لائن باقی ہے اور وہ ہیں عوام‘ یہ اگر جیل چلا جائے‘ مشکل وقت کاٹ لے تو یہ زیادہ فورس کے ساتھ واپس آئے گا‘ یہ شاید یہ کر بھی گزرے مگر بشریٰ بی بی کے موکلات اجازت نہیں دے رہے لہٰذا سیاست کا گلیشیئر بے وقوفیوں کے سمندر میں پگھلتا چلا جا رہا ہے اور تبدیلی کے خواب روزانہ کی بنیاد پر ٹوٹتے چلے جا رہے ہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)