aik tabah saath | Imran Junior

خاں صاحب

تحریر: علی عمران جونیئر

دوستو، خان صاحب اور خاں صاحب میں بڑا باریک سا فرق ہوتا ہے۔۔ کسی بھی پشتو اسپیکنگ کو ہم خان صاحب کہہ سکتے ہیں جب کہ کسی بھی ’’سارے گاما پا‘‘ اسپیکنگ کو خاں صاحب کہتے ہیں۔۔لیکن باباجی نے ایک عجیب سا انکشاف اور معصومانہ سوال کیا ہے کہ  ۔۔ہمارے کپتان صاحب کا تعلق تو میانوالی سے ہے اور وہ پشتو اسپیکنگ بھی نہیں پھر انہیں خان صاحب کیوں کہاجاتا ہے؟؟ہم خود ’’خان صاحب‘‘ ہیں ہمارے کئی قریبی احباب اور اسکول فیلوز ہمیں ہمارے نام کے بجائے ’’خان صاحب‘‘ ہی کہتے ہیں، ہمارے والد محترم کو بھی پورا محلہ خان صاحب ہی کہتا تھا۔۔اس لئے ہمیں خان صاحب اور خان صاحبوں سے ایک الگ قسم کا پیار ہے۔۔ خا ن صاحب جتنے معصوم ہوتے ہیں اتنے ہی ذہین اور جفاکش بھی ہوتے ہیں۔۔ محنت سے قطعی جی نہیں چراتے اور وفاداری ،دیانتداری میں اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔۔ چلیں پھر آج خان صاحبوں کے حوالے سے کچھ اوٹ پٹانگ باتیں کرلیتے ہیں۔۔ خاں صاحبوں سے متعلق پھر کسی وقت بات کریں گے۔۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ خان صاحبوں کی اکثریت صوبہ خیبرپختونخوا میں رہتی ہے،ویسے تو کچھ سیاست دان یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ پشاور سے زیادہ تعداد پختونوں کی پشاور میں رہتی ہے۔۔ لیکن ہم بات صوبہ کے پی کی کررہے ہیں ، یہ صوبہ اپنی ’’گرینری‘‘ یعنی سبزے کے حوالے سے کافی ہرابھلا ہے، اب تو حکومت بھی یہاں ٹورازم کو فروغ دینے کے لئے انقلابی اقدامات کررہی ہے۔۔سبزے کے حوالے سے بیلجیم کے سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں سبزے اور بچوں کی ذہانت کے درمیان ایک انتہائی دلچسپ تعلق کا انکشاف کر دیا ہے۔ بیلجیم کی ہیسل یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے 600سے زائد بچوں کے آئی کیو لیول ٹیسٹ کرنے اور ان کی رہائش کی جگہ کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا ہے کہ جو بچے جتنے زیادہ سرسبزو شاداب علاقے میں رہتے ہیں ان کا آئی کیو لیول اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔رپورٹ کے مطابق اس تحقیق میں جن بچوں پر تجربات کیے گئے ان کی عمریں 10سے 15سال کے درمیان تھیں۔ سائنسدانوں نے نتائج میں حتمی طور پر بتایا ہے کہ جس بچے کے ماحول میں سبزہ 3فیصد زیادہ ہوتا ہے اس کا آئی کیو لیول 2.6پوائنٹ زیادہ ہوتا ہے اور یہ شرح اسی تناسب سے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ سائنسدانوں نے نتائج میں یہ بھی بتایا ہے کہ زیادہ سبزے والے علاقوں میں رہنے والے بچے روئیے کے مسائل سے بھی اتنے ہی کم دوچار ہوتے ہیں۔ ایسے بچے کم غصیلے اور کم ضدی ہوتے ہیں۔اب خود اندازہ کرلیں کہ کے پی کے رہنے والے خان صاحبوں کے بچوں کا آئی کیولیول کیا ہوگا؟؟

باباجی فرماتے ہیں کہ پٹھانوں نے انگریزی نہیں سیکھا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ پٹھانوں نے انگریزوں کو سبق سکھایا ہے۔۔ہم اے این پی کے ایک سیاسی جلسے میں کسی زمانے میں رپورٹنگ کی غرض سے گئے تھے، وہاں جب کھانا کھلا توایک خان صاحب کوکوئی پلیٹ نہیں ملی، اس نے اپنی جھولی میں بریانی بھرلی، ہم نے جب اسے اس حالت میں دیکھا تو حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔۔ یہ کیا ؟؟ خان صاحب مسکرا کر بولے۔۔داغ تو چلا جائیگا ، یہ وقت پھر نہیں آئیگا۔۔ایک خان صاحب نے اپنی بیوی کے انتقال کے بعد اس کی قبر پر یہ لکھوایا’’میری روشنی بجھ گئی۔‘‘کچھ عرصہ بعد ان صاحب نے دوسری شادی کر لی۔ دوست نے کہا۔۔اب تو اپنی پہلی بیوی کی قبر سے یہ الفاظ صاف کروا دو۔۔۔خان صاحب نے جواب دیا ۔۔نہیں اس کی ضرورت نہیں، بس نیچے یہ لکھوا دوں گا کہ میں نے دوسری شمع روشن کر لی۔۔ایک اور خان صاحب کا واقعہ ہے کہ جراسک پارک فلم پاکستان میں نئی نئی ریلیز ہوئی تھی، اس کا بڑا چرچا تھا، فلم چونکہ تھری ڈی تھی،یعنی خاص قسم کا چشمہ پہن کر فلم دیکھنے سے لگتا تھا کہ آپ بھی فلم کا ہی حصہ ہیں۔۔ خان صاحب نے بھی ٹکٹ لیااور دوستوں کے ساتھ چشمہ پہن کر فلم دیکھنا شروع کی۔۔اچانک ڈائنوسارز نے اسکرین پردوڑنا شروع کردیا۔۔خان صاحب نے چیخ ماری، چشمہ اتار کر ایک طرف پھینکا اور سینما ہال سے باہر کی طرف دوڑ لگادی۔۔دوست پیچھے بھاگے ، وجہ پوچھی۔۔پھر اسے سمجھانے لگے۔۔بے وقوف ڈرکیوں رہے ہو؟؟ یہ تو صرف فلم ہے۔۔ خان صاحب کہنے لگے۔۔ یارا ، ام کو بھی مالوم اے، یہ پھلم اے مگر اسے کیا مالوم وہ تو جناور ہے۔۔۔

ہمارے آفس کا پیون خان صاحب ہے، ایک بار اپنے چھوٹے بھائی کو بھی آفس لے آیا، ہم چونکہ اس سے مذاق بھی کرتے رہتے تھے اور اس کی معصومانہ باتوں کا لطف بھی لیتے تھے، اس لئے اسے چھیڑتے ہوئے کہا کہ۔۔ اوئے خاناں خرابا،تمہارا چھوٹے بھائی کا مونچھیں ہیں ، تمہارا نہیں۔۔پھر یہ بڑا ہے کہ تم بڑا ہے؟؟ اس نے ایک نظر اپنے چھوٹے بھائی پر ڈالی اور بڑے بھولپن سے جواب دیا۔۔ اس میں چھوٹا بڑا کا کوئی بات نہیں۔۔ہمارا چھوٹا بھائی باپ پر گیا ہے ہم اپنی ماں پر گیا ہے۔۔ہم بھی چونکہ خان صاحب ہیں اس لئے ہم سے بھی ایسی ’’معصومیت‘‘ اکثر سرزد ہوتی رہتی ہے۔۔ایک بار تیسری کلاس میں ہماری ٹیچر نے کہا، سب بچے مختصر سی کہانی سنائیں گے اور اس کا ’’خلاصہ‘‘ یا ’’مورال‘‘ بھی بتائیں گے۔۔ہماری باری آئی تو ہم نے مختصر سی کہانی جلدی سے سناڈالی۔۔ہم نے کہانی کچھ یوں شروع کی۔۔ ایک دن ہم ان کے گھر گئے تو وہ سوئے ہوئے تھے، پھر وہ ایک دن ہمارے گھر آئے تو ہم سوئے ہوئے تھے۔۔ کہانی کا مورال۔۔جیسا کروگے ویسا بھروگے۔۔

خان صاحب کو اس کی گرل فرینڈ نے کہا۔۔ میں اندرسے ٹوٹ چکی ہوں۔۔ وہ بولا۔۔ پانی میں ایلفی ملا کر پی لو۔۔ اب سنا ہے کہ دونوں میں بات چیت بند ہے۔۔ ایک شخص کی بیوی کا انتقال ہوگیا۔تعزیت کرنے والوں میں خان صاحب بھی شامل تھے ، شوہر سے پوچھ بیٹھا۔۔ آپ کی بیوی کیسے انتقال کر گئی؟اس شخص نے جواب دیا۔۔بیچاری نے چائے پی اور اس کا انتقال ہوگیا۔کچھ دیر خاموشی رہی پھر خان صاحب نے سر سے ٹوپی ہٹا کر بالوں کو کھجاتے ہوئے دھیرے سے پوچھا!!!!چائے کی پتی بچی ہے کیا؟؟ ایک خان صاحب عیدپر سسرا ل گئے۔۔ساس نے مرغی پکا کر سامنے رکھ دی۔۔داماد صاحب نے ازراہ تکلف کہا کہ اس کی کیا ضرورت تھی۔ساس نے کہا کوئی بات نہیں بیٹا ہم نے دس مرغیاں پالی ہوئی ہیں۔ہم یوں سجھیں گے کہ ایک مرغی کو کُتا کھا گیا۔خان صاحب تو خان صاحب، خان صاحب کی ساس بھی خان صاحبہ۔۔باپ نے جب غصے سے کہا۔۔تمہارا رزلٹ اتنا براکیوں آیا ہے۔۔بچہ بھی خان صاحب ہی تھا، آئی کیولیول انتہا کا تھا، فوری بولا۔۔اباجی، اچھے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ بْرا ہی تو ہوتا ہے۔۔ایک خان صاحب کا رات کو سگریٹ پینے کا دل چاہ رہا تھا،ہر طرف ماچس ڈھونڈلی پر کہیں نہیں ملی،آخر ناامید ہوکر موم بتی بجھا کر سو گیا۔۔ایک خان صاحب کو اپنا گدھا فروخت کرنا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے دوست کو خط لکھا۔۔اگر تمہیں کبھی کسی گدھے کی ضرورت ہو تو مجھے یاد کر لینا۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔الفاظ ہی سب کچھ ہوتے ہیں، دل جیت بھی لیتے ہیں اور دل چیر بھی دیتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں