تحریر : محمد امنان
فائن آٹا مت کھائیں اس سے بیماریاں پھیلتی ہیں ایسا کہنا تھا پی ٹی آئی کے ایک سینئیر راہنما کا جو کے پی کے سے ہیں نام ہے شوکت یوسفزئی موصوف ہیلتھ اینڈ انفارمیشن منسٹر رہ چکے ہیں اور یہ معلومات بھی ہیں کہ موصوف سینئیر جرنلسٹ بھی کہلائے جاتے ہیں فائن آٹا تک تو بات فائن تھی۔۔
وزیر اعظم صاحب کہتے ہیں سکون صرف قبر میں ہے اور حکومت نوکریاں نہیں دے سکتی بہت ہی مشکل وقت سے گذر رہے ہیں لیکن معیشت فل آن تیزی سے ترقی کر رہی ہے بس عوام تھوڑا عرصہ صبر کر لیں تھوڑا عرصہ صبر کا مطب ہوتا ہے فی زمانہ کہ ہمیں خود نہیں پتہ کہ ہم نے کیا کرنا ہے البتہ یہ باتیں تو روزانہ کی بنیاد پہ آتی رہتی ہیں یہ حکومت جب سے آئی ہے سوشل میڈیا کی رونقیں بحال رہتی ہیں۔۔
روز کوئی نہ کوئی وزیر کوئی نا کوئی نیا شوشہ چھوڑتا ہے اور دن ختم ہو جاتا ہے جب وزرا کے ہاس کچھ نہ ہو تو وزیر اعظم پارلیمنٹ کا راستہ بھول کے اپنے سکیورٹی آفیسر سے ہوچھ لیتے ہیں بھئی کہاں لے جا رہے ہو مجھے یہ کونسی جگہ ہے۔۔غرضیکہ روزانہ کی بنیاد پہ ان افراد کو اچھی انٹرٹینمنٹ میسر ہے جنہیں سوشل میڈیا تک رسائی حاصل ہے اور جو میڈیا وغیرہ جس کی حالت انتہائی پتلی ہو رکھی ہے کو دیکھ سن پڑھ لیتے ہیں لیکن یہاں ایک مسلہ ہے جو شاید معاشرتی لحاظ سے روٹین کا معاملہ سمجھا جاتا ہے عرف عام میں اسے ہونا تو ہارڈ نیوز چاہئیے لیکن ہم چونکہ ہجوم ہیں اوپر بھی ہم جیسے مسلط ہیں اسلئیے ہم اسے لائٹ انداز میں لیتے ہیں۔۔
خبر تھی کراچی سے کہ میر حسن نے خود سوزی کر لی گدھا گاڑی چلاتا تھا تین ماہ سے بیرزگار تھا بیوی بچوں نے دبے الفاظ میں موسم کی مناسبت سے گرم کپڑوں کی خواہش ظاہر کی تو میر حسن سے برداشت نہ ہوا اور اس نے زندگی کا خاتمہ کر لیا سوشل میڈیا پہ یہ خبر گرد میں رہی بہت سے ایسے لوگ جو یقینی طور پہ سرمایہ دار ہیں اور پیٹ بھر کھانا کھاتے ہیں گرم کپڑے پہنتے ہیں ان افراد نے بھی گرم بستروں میں بیٹھ کے سوشل میڈیا ہہ اس خبر کو لائیک کمنٹس کے لئے پوسٹ کیا۔۔۔ لیکن کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ اسکے گھر جا کے اس کے تین بیٹوں دو بیٹیوں اور اسکی بیوہ کو دلاسا دیں میں بھی نہیں جا سکا کیونکہ ایک تو میں روزگار کی تلاش میں ہوں اور دوسرا کراچی فیصل آباد سے دور بہت ہے ہاں مگر وہاں کے حکمرانوں انتظامیہ وغیرہ وغیرہ کو بھی اس سب سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔۔
تو اس معاشرے کا میر حسن جو زندگی اور روزمرہ کی فکروں سے آزاد ہو گیا اور وہ ہزاروں لاکھوں میر حسن جو اچھے دنوں کی آس میں ہیں نے مجھ سے کہا کہ یار اور کوئی تو ہماری طرف دیکھ نہیں رہا تم ہی خدا تک ہمارا خط پہنچا دو کہ اس اذیت سے یا تو ہمیں چھٹکارا دے دے یا پھر اس کو جھیلنے کا حوصلہ دے دے۔۔ایک تقریب سے خطاب کے دوران ہمارے ہینڈسم وزیر اعظم نے کہا کہ سکون صرف قبر میں ہے یعنی سکون کے لئے سب کو مر جانا چاہئیے ؟؟؟ زندگی تو عام آدمی کی ویسے بھی بد ترین ہو رکھی ہے جو روزگار والے تھے انہیں بھی دھڑکا لگا رہتا ہے آج روزگار چھن جائے گا
اسی صوبے میں جہاں کراچی واقع ہے وہاں کے گریڈ انیس بیس اٹھارہ ستارہ کے سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد اپنی بیویوں کے نام پہ بینظیر انکم سپورٹ کے فنڈز حاصل کرتے رہے اور بڑے عرصے سے کھا رہے تھے کہ سازشی عناصر یعنی میڈیا نے انکا بھانڈہ پھوڑ دیا اگر یہ غریب مسکین گریڈ بیس وغیرہ کے افسر بینظیر انکم سپورٹ سے امداد حاصل نہ کرتے تو شاید میر حسن کو اسکا حصہ مل جاتا یا کم از کم اسکی موت اگر طے تھی تو اسکے بچے کو گرم کپڑے میسر آ سکتے تھے
لیکن خیر ہے کوئی مسلہ نہیں اصل مسلہ تو حل ہو گیا نا ترمیم والے تینوں بل بارہ منٹ میں پاس کر لئے پارلیمینٹ نے واہ کیا ہی یکجہتی کا روح پرور منظر تھا جب مفاد پرستوں نے ایک دوسرے پہ پھینکے ہوئے کیچڑ کے ساتھ شرماتی آنکھوں سے اسمبلی میں گلے ملیں ہوں گے مبارکبادیں دی ہوں گی لیکن اسی اسمبلی میں بے شمار بل جن کا ڈائریکٹ تعلق عوامی مسائل سے ہے زیر التوا پڑے ہیں
پڑے رہنے دو کونسا کسی کے باپ کا کچھ جا رہا ہے جن کا ملک ہے جو مالکان ہیں وہ سکھی رہیں رعایا بے چاری تو بس ووٹ ڈالنے کو رکھی ہے ہم نے تاکہ جمہوری عمل کا خودساختہ تسلسل چلتا رہے اور سب کو انکی باری پہ کھیلنے کا موقع پانچ سال بعد ملتا رہے میں سوچ رہا تھا کہ کیا ہی زندہ دل ہوا کرتا تھا میں آج سے آٹھ نو سال قبل بہت خوش تھا چوروں کی حکومت تھی تب بھی (یہ میں نہیں سیاستدان ایک دوسرے کو کہتے ہیں ) اور حقیقت کا ادراک نہیں تھا
پھر آیا بھی تو صحافت میں جس کا سر پیر ہی کوئی نہیں نظر آرہا بچپنا اور وہ فرصت کے دن اچھے تھے لیکن میں اور مجھ جیسے تب بھی غریب تھے تب بھی طاقتوروں کا کھیل جاری تھا آج بھی جاری ہے تب ہھی میر حسن جیسے آئے روز اپنی زندگی کی قید سے چھٹکارا پاتے تھے اب بھی ایسا ہے
لیکن میر حسن اور مجھ جیسوں کی آہ و بکا اور فریادوں میں اضافہ ہو گیا ہے سسکیاں گھٹی ہوئی ہیں آنسو آنکھوں سے سوکھ چکے اور خدا کی طرف دیکھ کر اس اذیت اور ظلم سے بس پناہ مانگ سکتے ہیں میر حسن دفن ہو گیا اسکی فکریں بھی لیکن اسکے بچوں پہ کیا بیتے گی جب انہیں سن بلوغت میں پتہ چلے گا کہ انکے باپ کو اس نظام کی بے دردی نے مارا اسکا اپنا کوئی ارادہ نہیں تھا خودکشی کا وہ تو دو وقت کی روکھی سوکھی کھا کر گذارہ کرنے پر بھی راضی تھا مگر بلند و بانگ نعروں والے حکمرانوں نے اسکی قوت برداشت ختم کر دی اس نظام نے اسکی جان لے لی
بے روزگاری کا مسلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے لیکن وزیر اعظم اربوں روپے کے یوٹیلٹی پیکجز پہ فوٹو بازی کروا کر تالیاں بجا رہا ہے کہ یہ مارا چھکا بڑی مشکل حل کر لی اور مصاحبین شاہ بھی مطمئین ہیں اور معاشرے کے افراد بشمول میڈیا سب اپنی اپنی دوڑ میں بھاگے چلے جا رہے ہیں دم بھر کی فرصت نہیں ہم میں کہ رک کر حالات کا جائزہ لیا جائے اور مسلوں کی جڑوں تک پہنچ کر انہیں حل کیا جائے
لیکن ایسا میں یا مجھ جیسے غریب سوچتے ہیں جن کا کام چل رہا ہے جو وزراتوں کے جھولے جھول رہے ہیں وہ ہم سے زیادہ سمجھدار ہیں ہم تو یوں ہی بات بے بات تنقید کا پہلو نکال کر بادشاہ وقت اسکی کابینہ یا سیاسی پارٹیوں کو کوستے رہتے ہیں ہم بہت غلط کرتے ہیں یہ یقینی طور پہ جرم ہے کہ ہم میر حسن ہیں اس ملک کے نوزائیدہ باسی ہیں اصل میں تو جن کا حق ہے وہ وصول رہے ہیں اور آئیندہ بھی وصولتے رہیں گے
لیکن مجھے تو میر حسن نے کہا کہ میں خدا کے پاس بخیریت پہنچ چکا ہوں لیکن مجھ جیسوں کا خط خدا تک ضرور پہنچا دینا کہ اے خدائے بزرگ و برتر مملکت خداداد کے حکمرانوں کی شکایت تیری بارگاہ میں عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں زمین و آسماں کے مالک ہم پہ رحم کر ہمارے ان گناہوں کو معاف فرما جن کے سبب یہ حکمران ہم پر مسلط ہوئے خدایا ہم رحم کی بھیک مانگتے ہیں کہ تیرے سوا ہمارا کوئی نہیں
بلکتے بھوکے بچوں کی فریاد سن لے خدایا کہ ہم کمزور و ناتواں ہیں ہمیں یا تو صبر عطا کر دے یا ان حکمرانوں کو ہدایت عطا فرما کہ یہ ترقی کے جھوٹے ڈھکوسلوں سے نکل کر رعایا کی اصل صورت کو دیکھ سکیں وہ صورت جس پر غربت و افلاس روز طمانچے رسید کرتے ہیں وہ صورت جس میں تندگستی اور تنگ دامانی ہے الٰہی ہمارے حال پہ رحم فرما کہ دوبارہ کوئی میر حسن بھوکے پیٹ خودکشی نہ کرے
اس سے قبل ایک خط میر حسن نے وزیر اعظم کو بھی لکھا تھا لیکن یہ خط پہنچ نہ پایا کہ میر حسن خدا کے پاس پہنچ گیا اور معاشرے میں رہنے والے ہجوم کے حکمرانوں ، وزیروں مشیروں ، امیروں سے کہہ گیا کہ
کل شب ہم نے دیواروں سے باتیں کیں
وہ باتیں ! جو تجھ سے کرنے والی تھیں
اور کوئی شوکت یوسفزئی کو بتا دے کہ فائن آٹا ملک کے اس طبقے کی دسترس میں نہیں ہے جن پہ آنجناب اور تمام کابینہ اور اپوزیشن کی کبھی نظر ہی نہیں پڑی۔۔(محمد امنان)۔۔