دوستو،جرمن سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ کوّے صرف چالاک نہیں ہوتے بلکہ وہ بھی انسانوں کی طرح اپنے وجود کا احساس رکھتے ہیں، یعنی ”باشعور“ ہوتے ہیں۔یہ دریافت بہت اہم ہے کیونکہ اب تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ پرندوں کا دماغ اتنا ترقی یافتہ/ ارتقاء یافتہ نہیں ہوتا کہ انہیں اپنے وجود کا احساس ہوسکے۔آج یہ خیال عام ہے کہ اپنے وجود سے آگاہ ہونا اور ”میں جانتا ہوں کہ میں جانتا ہوں“ کا احساس رکھنا صرف انسانوں یا بن مانسوں جیسے ترقی یافتہ جانوروں ہی سے مخصوص ہے۔ لیکن کوّوں پر کی گئی اس تازہ تحقیق نے یہ خیال غلط ثابت کردیا ہے۔
ریسرچ جرنل ”سائنس“ کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں یونیورسٹی آف توبنجن، جرمنی کے ماہرین نے پنجرے میں رکھے گئے دو کوّوں کو کچھ کام سکھائے اور پھر ان میں ”شعوری سوچ“ معلوم کی۔پہلے مرحلے میں کوّوں کے سامنے رکھی گئی ایک اسکرین وقفے وقفے سے روشن کرکے انہیں یہ تربیت دی گئی کہ کس طرح سر ہلا کر اسکرین روشن ہونے پر ”ہاں“ کا اشارہ کرنا ہے، جبکہ اس دوران کوّوں کے دماغوں میں اعصابی سرگرمیاں نوٹ کی جاتی رہیں۔تربیت مکمل ہوجانے کے بعد مختلف اوقات میں 20 ہزار سے زیادہ مرتبہ ان کی آزمائشیں کی گئیں۔ بیشتر مواقع پر اسکرین یا تو روشن کی گئی یا پھر بالکل تاریک رکھی گئی، جبکہ بعض مواقع پر اسکرین یا تو بہت تیزی سے روشن کرکے فوراً تاریک کردی گئی یا پھر اسکرین پر بہت ہی مدھم روشنی ڈالی گئی۔اس دوران کوّوں کے دماغوں میں پیدا ہونے والی اعصابی سرگرمیوں (نیورل ایکٹیویٹیز) سے ثابت ہوا کہ جیسے ہی کوّوں نے اسکرین پر واضح روشنی دیکھی، فوراً ان کے دماغی اعصاب میں سرگرمیاں تیز ہوگئیں اور جیسے ہی انہوں نے روشنی دیکھنے کے ردِعمل میں ”ہاں“ کا اشارہ کیا، اس کے فوراً بعد یہ سرگرمیاں بھی ختم ہوگئیں۔علاوہ ازیں، جب کوّوں کو یہ یقین تھا کہ انہوں نے واقعی میں اسکرین پر روشنی دیکھی ہے، تو ان کے دماغوں میں پیدا ہونے والی سرگرمی نہ صرف زیادہ تھی بلکہ یکساں نوعیت کی تھی۔تاہم، جب اسکرین پر بہت کم وقت کیلیے یا بہت مدھم روشنی دکھائی دی تو اس کے ردِ عمل میں دماغی سرگرمیوں کا انداز خاصا مختلف رہا، جیسے وہ سوچ میں پڑ گئے ہوں کہ انہوں نے روشنی دیکھی ہے یا نہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوّے نہ صرف یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ انہوں نے کیا دیکھا، بلکہ منظر غیر واضح ہونے پر بھی ان میں شعوری سوچ نے جنم لیا کہ آخر انہوں نے کیا دیکھا ہے۔یہ تجربات اگرچہ ثابت کرتے ہیں کہ کوّوں میں ”شعوری سوچ“ موجود ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ شعور کے معاملے میں ہمارے اب تک کے خیالات پر بھی نئے سرے سے غور کی ضرورت بھی بڑھاتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کوا اتنا ذہین پرندہ ہے کہ محض تصویر دیکھ کر سوفی صد درستگی کے ساتھ بتاسکتا ہے کہ یہ عورت ہے یا مرد۔ آپ تصویر میں بھیس یا حلیہ بدل کر بھی کوے کو جل نہیں دے سکتے۔آپ نے اس پیاسے کوے کی قدیم چینی کہانی بھی پڑھ رکھی ہوگی جسے ایک گھڑے کے پیندے میں تھوڑا سا پانی تو مل گیا، مگر پانی تک اس کی چونچ نہیں پہنچ رہی تھی۔ پانی کی سطح بلند کرنے کے لیے اس نے گھڑے میں کچھ کنکریاں ڈالیں اور پیاس بجھاکر چلاگیا۔ پچھلے سال کیمبرج یونیورسٹی کے کرسٹوفر برڈ اور اس کی ٹیم نے اپنے ایک سائنسی تجربے میں اس کہانی کو کوے پر آزمایا تو وہ سوفی صد درست ثابت ہوئی۔اسی طرح برمنگھم یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک ٹیم کوجنگلی کوؤں پر 1800 گھنٹوں سے زیادہ کی وڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ وہ درختوں کے تنوں اور چھوٹے سوراخوں سے اپنی خوراک نکالنے کے لیے کئی طرح کے اوزار استعمال کرتا ہے۔ اس کے اوزار نوکدار تنکے اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ہوتی ہیں اور وہ خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ کس جگہ کے لیے کس سائز کا اوزار مناسب رہے گا۔بچوں کے ہاتھ سے کھانے کی چیزیں چھین کر اڑ جانا، اور کسی تنہاشخص پر غول کی شکل میں حملہ کرنا کووں کے لیے ایک عام سی بات ہے۔کوے کا ذکر ہر معاشرے کے قصے کہانیوں میں اکثر ملتا ہے۔کئی شاعروں نے اسے اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے،اور ہمارے ہاں کئی لوگ گیتوں اور فلمی گانوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔انہونی کی مثال دینی ہو تو کوا سفید کر دیتے ہیں اور اسی طرح بی فاختہ کا دکھ سہنا برداشت نہ ہو تو بھی کوے ہی برے بنتے ہیں کہ وہ انڈے کھا گئے۔ لیکن کوے شاعری میں پیار محبت کے سفیر کہلائے جاتے ہیں۔ کوا منڈیر پر بیٹھتا نہیں تومہمان کی آمد کا پتہ چل جاتا ہے۔۔
دنیا میں پرندوں کی 18 ہزاراقسام ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے قابیل کو سمجھانے کیلئے صرف کوا بھجوایا تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ کوا پرندوں میں طویل العمر ہوتا ہے‘ یہ عموماً تین سو سال تک زندہ رہتا ہے‘ آپ کو کووں کی بہت کم لاشیں ملیں گی‘ کوے دشمن سے بچنے کا فن بھی جانتے ہیں‘ یہ ہمیشہ کالونی بنا کر گروپ میں رہتے ہیں۔یہ خوراک کیلئے پہلے ایک کوے کو بھجواتے ہیں‘ وہ تمام چیزوں کو ٹھونگیں مار کر چیک کرتا ہے‘ دوسرے کوے دور بیٹھ کر مشاہدہ کرتے رہتے ہیں‘ پہلا کوا اطمینان کے بعد سگنل دیتا ہے اور پھر پہلے آدھے کوے زمین پر اتر کر دانا چگتے ہیں اور دوسرے درختوں پر بیٹھ کر ان کی حفاظت کرتے ہیں‘ وہ جوں ہی خطرہ محسوس کرتے ہیں‘ وہ چیخنا شروع کر دیتے ہیں اور دانا چگنے والے کوے خطرے سے مخالف سمت میں اڑ جاتے ہیں‘ پہلے بیچ کے سیر ہونے کے بعد وہ درختوں کی چوٹی پر بیٹھ کر نگرانی کا کام شروع کر دیتا ہے اور پھر دوسرا بیچ دانا چگنے لگتا ہے۔یہ خطرے میں اس قدر زور سے چیختے ہیں کہ پورے علاقے میں موجود کووں تک خطرے کی خبر پہنچ جاتی ہے‘ آپ کسی کوے پر ایک بار گولی چلادیں پانچ سال کوئی کوا اس علاقے میں نہیں آئے گا۔ بغداد پر جب ہلاکو خان نے حملہ کیا تھا تو وہاں مسلمان کوا حلال ہے یا حرام کی بحث میں الجھے ہوئے تھے، ایک لمحہ کے لئے سوچئے اگر کوا حلال ہوتا تو آپ چھٹی والے دن، کوا بریانی، کوا کڑھائی، کوا تکے، کواملائی بوٹی، کوا بادامی قورمہ، کواہانڈی، کواتکہ مصالحہ اور پتہ نہیں کون کون سی ڈشیں بنا کر کھارہے ہوتے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ ڈراموں میں دکھ دیکھ کر رونے والے جب اصل زندگی میں کسی دکھی سے ملتے ہیں تو ڈرامے نہ کرو کہہ کر منہ موڑ لیتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔