تحریر: سہیل وڑائچ۔۔
سوشل میڈیا بُرا نہیں بلکہ ابلاغیات کی نئی اور جدید تکنیک ہے، تاہم ہر نئی ایجاد کی طرح سوشل میڈیا اپنے آغاز سے ہی جھوٹوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے جس سے اسکی ساکھ اپنے آغاز سے ہی خراب سے خراب ترہوتی جا رہی ہے۔ مغربی دنیا میں شروع سے ہی ناقدین نے اسے ’’گٹر میڈیا‘‘ کہنا شروع کر دیا تھا مگر میری رائے اب بھی یہی ہے کہ نئی ایجاد میں یا نئی چیز میں خرابی نہیں ہوتی اس کے غلط استعمال میں خرابی ہے۔
بدقسمتی سے تضادستان کا سوشل میڈیا شروع سے جھوٹ کی وباء کا شکار ہے اس کا پہلا تجربہ اور ذکر اس وقت محسوس ہوا جب مختلف سوچوں اور متحارب اداروں میں کام کرنے والے تمام بڑے صحافیوں کی فہرست ایک گمنام ویب سائٹ پر لوڈ کی گئی۔ ایک مشہور تعمیراتی کمپنی کے لیٹر پیڈ پر اس فہرست میں ہر صحافی کو دیئے گئے لاکھوں روپے اور انکے اکائونٹس کی تفصیل درج تھی۔ سابق صدر عارف علوی کے صاحبزادے نے اپنے اکائونٹ سے اس فہرست کو ٹویٹ کر دیا۔ جھوٹوں کی اس دنیا میں کسی نے اس کی تحقیق کرنا مناسب نہ سمجھا ہر ایک نے فوراً یقین کر لیا حالانکہ وہ گمنام ویب سائٹ دوسرے ہی دن ختم ہو گئی۔ علوی صاحب کے صاحبزادے نے اپنی ٹویٹ کو ڈِس اون کر دیا ،سپریم کورٹ اور ایف آئی اے نے اسکی تحقیقات کیں اور اسے جعلی قرار دیا ،سپریم کورٹ نے تعمیراتی کمپنی کو طلب کیا۔ انہوں نے بیان دیا کہ ان کا پیڈ چرا کر یہ جعلی فہرست بنائی گئی جب دیئے گئے اکائونٹ نمبر چیک کروائے گئے تو وہ مکمل طور پر جعلی تھے مگر تضادستانی ماننے کو ہی تیار نہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس میں کچھ نہ کچھ تو ہو گا۔ ایف آئی اے ، سپریم کورٹ، بینک ،تعمیراتی کمپنی او رصحافی سب جھوٹے ہیں۔ اصل چیز وہ الزام ہے جو جعلی ویب سائٹ پر آیا اور وائرل ہو گیا۔ اس واقعے کو کئی سال گزر گئے مگر اب بھی ہر دو تین ماہ بعد سوشل میڈیا کا کوئی نہ کوئی نیا کھلاڑی دوبارہ سے اسی فہرست کو اپ لوڈ کرکے یہ ثابت کرتا ہے کہ اس ملک کی صحافت بکی ہوئی ہے اور سب صحافی لفافے ہیں، اب کون ہے جو اس جھوٹ کا تدارک کرے ہم تو سب پراپیگنڈے اور جھوٹ کے رسیا ہیں مرچ مسالہ ہو،کسی کی بے عزتی ہو تو کہانی جتنی بھی کمزور ہو وہ ہمیں اچھی لگتی ہے۔
یہ بیماری 2014ء میں تضادستان میں وباء کی شکل اختیار کر گئی اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے اس وباء کی پشت پناہی کی 300کے قریب سرکاری نوجوان اس کام پر مامور کئے گئے کہ سیاست دانوں، صحافیوں اور نامور لوگوں کو بدنام کرنا ہے،یہ وباء شروع کی گئی تو فضا بھی ہموار تھی۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ مقبولیت کھو رہی تھیں اسٹیبلشمنٹ ان جماعتوں کو گندا کر کے تحریک انصاف کو لانا چاہتی تھی اور اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو تہس نہس کرنا چاہتی تھی۔تضادستانی زمین شک وشبہ اور جھوٹ کیلئے زرخیز تھی اس لئے سکینڈل، گالیاں، الزام تراشی اور بہتان عام ہوئے ،بغیر تحقیق کے ہر چیز کو ثابت شدہ قرار دیا جانے لگا ۔جب جھو ٹ کاجن بوتل سے باہر نکل آیا تو ایک نہ ایک دن اس نے فرئنکسٹائن کی طرح اپنے ہی خالق کو کھانا تھا یہی ہوا کہ اب یہ جن جو جھوٹ کو مکمل آرٹ بنا چکا ہے اس نے اپنی توپوں کا رخ مقتدرہ اور ریاست کے ہر ادارے اور شخصیت کی طرف کر رکھا ہے تاکہ سب کا بھرم اور عزت خاک میں مل جائے۔ جس طرح زخم کو کریدنے، خون کو بہتا دیکھنے اور ایذا پہنچا کر لذت کا احساس نشاط انگیز ہوتا ہے وہی منفی احساس آج کے یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا میں کارفرما ہے انہیں علم ہے کہ جھوٹ کی رفتار تیز ہوتی ہے سچ بچارا تو کچھوا ہوتا ہے جھوٹ خرگوش کی طرح یہ آ اور وہ جا، اور پھر غائب جب کچھوا منزل پر پہنچتا ہے تو جھوٹ کا خرگوش اپنا کام دکھا کر گم ہو چکا ہوتا ہے۔
ایک نجی کالج کا واقعہ بھی اس وباء کا حصہ ہے کیونکہ تضادستان میں یہ احساس نہیں ہے کہ سچ کا تھپڑ جھوٹ کے بوسے سے کہیں بہتر ہے مگر چونکہ جھوٹ کا بوسہ بھلا لگتا ہے آپ سو دلائل دیں اور کہیں کہ لڑکی کون ہے؟ کدھر ہے؟ کوئی ثبوت؟ کوئی ایف آئی آر، کوئی فوٹیج، کوئی چشم دید گواہ؟ تو جواب ملے گا کچھ نہ کچھ تو ہے! جھوٹ کے عادی تضادستانی اس وبا سے خوراک پا رہے ہیں مگر جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، جھوٹ کا یہ خواب ٹوٹ کر رہے گا کیونکہ مشہور قول ہے کہ جھوٹ کی رفتار تیز ہوتی ہے مگر منزل پر ہمیشہ سچ ہی پہنچتا ہے۔
آج کی دنیا کا بڑا مسئلہ پراپیگنڈا، فیک نیوز اور جھوٹ بن چکے ہیں۔ ویسے تو تاریخ میں کئی عیاروں، کئی جھوٹوں اور کئی انتشاریوں کا ذکر ملتا ہے مگر جرمنی کے جوزف گوئبلز کو پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر اس خاص شعبے میں جو مہارت تھی اس کا کوئی ثانی نہیں ملتا۔ نازی جرمنی میں مقیم امریکی صحافی ولیم شررنے رائخ سوئم کا عروج و زوال بیسٹ سیلر تاریخ لکھی، شرر لکھتا ہے کہ پراپیگنڈا،جھوٹ اور فیک نیوز کا اثر اس قدر زیادہ تھا کہ نازی جرمنی کے پڑھے لکھے لوگوں نے بھی ان جھوٹوں کو سچ سمجھ کر ایمان کا حصہ بنا لیاتھااور اگر ان کی حقیقت پر کوئی سوال کیا جاتا تھا تو وہاں کے لوگوں کو ایسا لگتا تھا جیسے کوئی توہین مذہب کا مرتکب ہو رہا ہے۔ نازی جرمنی اور آج کے تضادستان کا احوال بالکل ایک جیسا ہے، نازی جرمنی اور گوئبلز کے جھوٹوں کا پردہ تو اس وقت چاک ہوا جب جرمنی جنگ ہار گیا اور برلن میں روسی فوجیں داخل ہو گئیں گوئبلز نے بھی ہٹلر کے بعد اپنے خاندان سمیت خودکشی کر لی۔ گوئبلز کی ڈائری میں لکھا ہے کہ ہٹلر آدھا انسان ، آدھا دیوتا تھا، گوئبلز اور آج کے سوشل میڈیا کے لوگ خود ہی جھوٹ کو تخلیق کرتے ہیں اور پھر اسی پر یقین بھی شروع کر دیتے ہیں جھوٹ کی عمر لمبی نہیں ہوتی اس لئے اب یہ عروج سے زوال کی طرف گامزن ہے، روز روز کے جھوٹ غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ ایک جھوٹ غلط ثابت ہوتا ہے تو دوسرا تراش لیا جاتا ہے افسوس یہ ہے کہ نہ فائر وال ان جھوٹوں کو روکنے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ ملکی قانون اس انتشار کو روکنے میں کامیاب ہوا ہے۔ برطانیہ کی عدالتوں نے فوری سماعت کرکے سوشل میڈیا کے ذریعے انتشار پھیلانے والوں کو سخت سزائیں دیکر مثال قائم کی ہے ،تضادستان کیوں ایسا نہیں کرتا؟ اگر جھوٹ کا یہ مسئلہ بڑھتا رہا فیک نیوز پھیلتی رہی اور دشنام طرازی چلتی رہی تو کسی دن کوئی بہت بڑا حادثہ رونما ہو جائے گا۔ وقت آ گیا ہے کہ سنجیدہ فکر طبقات اور سب سیاسی جماعتیں بیٹھ کر ایسا لائحہ عمل بنائیں کہ سوشل میڈیا کا یہ منفی کردار ختم ہو سکے۔ یاد رکھیں کہ جس طرح سوشل میڈیا اپنے خالق یعنی اسٹیبلشمنٹ کوپڑا ہوا ہے کل تحریک انصاف اور عمران خان کی باری ہے، آج بھی انکی پارٹی پالیسیاں سوشل میڈیا کی یرغمال ہیں کسی لیڈر کا عروج و زوال کارکردگی پر نہیں بلکہ سوشل میڈیا میں اسکی ساکھ پر ہے مگر یاد رکھیں جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، جھوٹ کی عمارت ایک نہ ایک دن گر جائیگی۔(بشکریہ جنگ)