تحریر: علی حسن۔۔
پانی جب سر سے اونچا ہونے کو ہے تو وزیر آعظم، سندھ اور خیبر پختون خوا کے وزرائے آعلی نے پیٹرول کے استعمال کے معاملہ پر کفایت شعاری کے اقدامات کئے ہیں۔ پنجاب کو تو ہوش ہی نہیں آیا ہے۔ وزیر آعظم کے صاحبزادے وزیراعلی حمزہ جب دورے پر جانے کے لئے نکلتے ہیں تو پروٹوکول کے نام پر درجنوں گاڑیاں ان کے پیچھے ہوتی ہیں۔ اسی طرح مریم نواز جب نکلتی ہیں تو ان کا لشکر بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔ شائد ان کے ساتھ جو گاڑیاں چلتی ہیں وہ کسی ہایڈرنٹ سے اپنی اپنی ٹنکیوں میں پانی بھروا کر نکلتی ہیں۔ نا معلوم ان لوگوں کو کیا خطرہ ہے؟ جو بھی ہوں جہاں بھی ہوں، وزراءاور اعلی افسران کو ابھی تک ادراک نہیں ہوا ہے کہ حالات سنگینی کی انتہاکو چھو رہی ہیں۔ یہ اسی طرح ہے کہ جیسے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو اپنی بربادی کا اندازہ نہیں تھا اور محل میں رات گئے تک مشاعرے جاری رہتے تھے ۔ مغل اسی طرح برباد ہوئے تھے ۔ صرف بادشاہت ہی نہیں گئی بلکہ خاندان کے خاندان بربادی سے دوچار ہو گئے۔ افسران کے معاملے پر بھی بہت ہی تاخیر سے پیٹرول کی کٹوتی کی کارروائی کی گئی ۔ اعلی افسران کی اولادیں بھی بر صغیر کے بادشاہوں کی اولادوں کی طرح رویہ کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ان کوتاہ نظر رہنماؤں کو اندازہ کیوں نہیں ہو رہا تھا کہ ”قرض “ کی مہ پی رہے ہیں جب آئی ایم ایف نے قرضہ دینے پر شرائط لگائیں تو سب کی آنکھیں جب کھلی جب پیٹرول کی قیمتیں میں اضافہ کیا گیا ۔ اس کے باوجود وفاقی وزراءاور صوبائی وزرا، اعلی سرکاری افسران کے لچھن ختم نہیں ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وزراءاور افسران کا پیٹرول کوٹہ 40 فیصد کم کردیا ہے۔ وزیراعلیٰ کا خیال ہے کہ پیٹرول کی بڑھتی قیمت کا بوجھ سرکاری خزانے پر مزید نہیں پڑنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ خزانے پر بوجھ پڑنے کا مطلب عوام پر بوجھ بڑھانا ہے۔ ابھی تو ابتداءہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ جنرل ضیاءکے دور میں کفایت شعاری مہم چلائی گئی تھی تو تمام سرکاری محکموں کا بجٹ کم کر دیا گیا تھا۔ عقل کے اندھے سرکاری افسران نے جیل اور اسپتالوں میں کھانے پر بھی کٹوتی لگا دی تھی۔ یہ بھی ایسی ہے کفایت شعاری نہ کر بیٹھیں۔
پٹرول، ڈیزل، بجلی یا گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد مہنگائی سا تویں اسمان پر پہنچ گئی ہے۔ یہ تو سوشل میڈیا کا دباﺅ ہے جس کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ”معمولی“ قسم کے اقدامات اٹھائے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ چین نے 2.3 ارب ڈالر قرض کی واپسی موخرکر دی ۔ اس رقم پر سود تو ادا کرنا ہوگا۔ بے شک ہم اسے آسان شرائط ہی کیوں نہ سمجھتے رہیں۔ سعودی عرب نے بھی اپنی رقم میں واپسی کی مدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ بغلیں بجا رہے ہیں کہ سعودی عرب نے اپنی رقم کی واپسی کی مدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ چین نے ایک نیا قرضہ منظور کر لیا ہے۔ کیا یہ سب کچھ اس طرح ہے کہ واپسی تو معاف نہیں ہوئی ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ اضافے کی وجہ آئی ایم ایف سے عمران حکومت کے معاہدے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ 10فیصد اخراجات کم کردیں تو 4 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ صرف دس فیصد ہی کیوں کم کئے جائیں گے۔ اور زیادہ اور زیاد ہ خرچے کیوں کم نہیں ہو سکتے کریں۔ کفایت شعاری کے بہت زیادہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے بعد بھی اگر معاشی حالات قابو میں آجائیں تو ہماری خوش قسمتی ہوگی۔ جن جن ممالک میں معیشت بے قابو ہو جاتی ہے یا حادثات سے دوچار ہوتی رہی ہے وہاں فوری طور پر حالات قابو میں نہیں آتے ہیں۔ اپنے پیسے بچاﺅ۔ وزراءاور سرکاری افسران کو کہیں کہ بسوں میں سفر کریں،۔ زیادہ پیٹرول خرچ کرنے والی گاڑیوں کو گیراجوں میں کھڑا کر دیا جائے۔ سرکاری گاڑیوں افسران کے حوالے کر دی جائیں، ان سے ہر ماہ قسط وصول کر کے گاڑی ان کے نام منتقل کر دی جائے۔ حکومت ان کی گاڑیوں کی مرمت، دیکھ بھال کی ذمہ داری سے بری الزمہ ہو جائے۔ دفتر آنے اور جانے کے لئے افسران اپنی گاڑیوں میں پیٹرول اپنی جیب سے بھروائیں گے۔ چھوٹے گریڈ کے ملازم اور افسران اپنے خرچ پر ہی تو دفاتر آتے ہیں۔ بڑے افسروں کے ساتھ بڑی رعایت کیوں ؟ افسران دفاتر میں اے سی سرے سے بند کریں۔ بجلی کا استعمال کم سے کم کریں۔ ملک بھی کے بازاروں میں دکانیں مغرب سے قبل بند کر ادی جائیں۔ جو دوکاندار مغرب کے بعد جنریٹر استعمال کر کے کاروبار کریں ان کے جنریٹر ضبط کر لئے جائیں اور ان پر بھاری جرمانے عائد کئے جائیں۔ من مانی بہت ہو چکی۔ راقم نے اپنے کئی کالموں میں عمران حکومت کے وقت سے بار بار لکھا کہ پیٹرول کی راشنگ کریں۔
وزرا، آراکین قومی اور صوبائی اسمبلیاں اور سینٹ اور افسران کے اللے تللے خرچوں پر پابندی لگائی جائے لیکن کوئی قدم اس لئے نہیں اٹھایا گیا کہ آوے کا آوا ہی بے جا ، غیر ضروری، فضول اخراجات کے مرض میں مبتلا ہے۔ اراکین سے سرکاری گاڑیوں واپس لی جائیں۔ ان تما م لوگوں کو کس مقصد کے لئے مراعات اور سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق عام تاثر کے برعکس پاکستان میں سرکاری افسران کی تنخواہیں اگر مراعات سمیت شمار کی جائیں تو نہ صرف پرائیویٹ سیکٹر سے بھی زیادہ ہیں بلکہ گریڈ 21 کے پاکستانی افسر پر کل خرچ ہونے والی رقم اقوام متحدہ کے افسران پر خرچ ہونے والی رقم سے بھی 12 فیصد زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کو عام طور پر ایک بہت فیاضانہ تنخواہ دینے والا ادارہ گردانا جاتا ہے۔ پائیڈ نے یہ تحقیق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے اشتراک سے کی ہے۔ اسی طرح ورلڈ بینک کے ورلڈ بیوروکریسی انڈیکیٹر کے مطابق پاکستان میں سرکاری شعبے میں تنخواہیں پرائیویٹ شعبے سے 53 فیصد زیادہ ہیں۔ جبکہ سرکاری ملازمین کے زیر استعمال رہائش گاہوں کی کل قیمت تقریباً ساڑھے 14 کھرب یا ڈیڑھ ٹریلین روپے کے برابر ہے۔ (ایک کھرب میں 1000 ارب ہوتے ہیں) ان مکانات کا کرایہ سالانہ11 ارب روپے بنتا ہے۔ جبکہ سرکاری گاڑیوں کے ذاتی استعمال سے افسران کے اوپر خرچ ہونے والی رقم ان کی بنیادی تنخواہ سے بھی ایک اعشاریہ دو گنا بڑھ جاتی ہے۔ سرکاری افسران کی عیاشی کے حوالے سے دنیا میں ایک ہی ملک پاکستان سے زیادہ سخی ہے۔ آئی ایم ایف معیشت کا بغور جائزہ ضرور لیتا ہے لیکن اس نے کبھی بھی پاکستانی حکمرانوں کو پابند نہیں کیا کہ وہ اپنے اور افسران کے خرچوں کو خم کریں۔ کیا اس ملک کے عوام کو بھی ان کے ہی ہم پلہ سہولتیں میسر ہیں؟ اب قیمتیں اس لئے بڑھائی گئی ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر اخراجات پورے کرنے ہیں لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اپنے اخراجات کم کرنے پر کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ پیٹرولیم ڈویزن کے اعلیٰ عہدیداران کا کہنا ہے کہ پیٹرول پر اب بھی 9.32 روپے، ڈیزل پر 23.05 روپے کی حکومتی سبسڈی برقرار ہے، قیمتیں مستقبل میں پھر بڑھنے کا خدشہ ہے کیوں کہ آئی ایم ایف تو پاکستان کے گرد معاشی گھیرا تنگ کرنا چاہتا ہے۔ اسے قرض دینے لیکن اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اس کے قرض پر پاکستان سود کی رقم دینے کے قابل رہے۔ ہمارے ملک میں تو ہمارے حکمرانوں اور افسران کے رویہ ہی نرالے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے سیاست داں ہوں یا بڑے افسران، ان کی بھاری اکثریت کے پیسے بیرون ملک ہیں، ان کی جائیدادیں باہر ہیں، ان کی اولادیں بیرون ملک ہیں۔ ان کے پاسپورٹوں پر امریکہ ، کنیڈا کے ویزے لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ انہیں تو ملک سے فرار ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ کرپشن میں ملوث درجنوں افسران کس طرح دیکھتے دیکھتے ملک سے فرار ہو نے میں کامیاب ہوئے ۔ اچھے وقتوں میں انہیں واپس نہیں لایا جا سکا ہے تو غیر معمولی حالات میں وہ کیسے لائے جائیں گے۔ (بہ شکریہ جہان پاکستان)