alu timatar lelo sahafi lelo

 کارکنوں کا مقدمہ اور امیدیں

تحریر: محمد نوازطاہر

صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کیلئے وزیرقانون کی سربراہی میں تشکیل دی جانے والی پنجاب اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کی ورکنگ شروع ہوگئی۔اسے قواعدو ضوابط اور دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا کام کرنا ہے جبکہ میڈیاکے کارکنوں نے اپنی ضرورت ، خواہش کے مطابق اس کمیٹی سے کئی طرح کی امیدیں باندھ لیں ہیں ۔ کمیٹی صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کی بڑے پیمانے پر چھانٹیوں ، اداروں کی بندش ، کارکنوں کی تنخواہوں میں کٹوتیوں اور تنخواہیں بروقت ادا نہ کیے جانے کے خلاف مسلسل احتجاج پر قائم کی گئی ہے ۔

میڈیا کارکنوں کا موقف ہے کہ میڈیا مالکان مصنوعی بحران کے بہانے کارکنوں کا رزق چھین رہے ہیں ، خاص طور پر پرنٹ میڈیا کے کارکنوں کو ویج ایوارڈ دینے سے گریز کرنے کیلئے بھی یہ قدم اٹھایا جارہا ہے اور میڈیا مالکان تجربہ کار سٹاف کی بجائے ٹرینی اور کم تجربے والے کارکنوں سے کم اجرت پر اپنا” ڈنگ ٹپانا“ چاہتے ہیں ، ایک موقف یہ بھی ہے کہ اگر میڈیا مالکان کو وقتی طور پر کسی بحران کا سامنا ہے بھی تو انہوں نے ماضی میں جتنی کمائی کی ہے اور ایمپائر کھڑی کی ہیں یا اپنے میڈیا ہاوسز کی بنیاد پر سرکار سے مرعات لیکر دوسرے کاروبار سے جوفائدہ اٹھایا ہے ، اور کمائی کی ہے اس کے نفع سے بھی کارکنوں کو تنخواہیں ادا کرکے بیروزگاری سے بچایا جاسکتا ہے ۔ اس کے برعکس میڈیا مالکان کا یہ موقف ہے کہ وہ اس بحران سے نمٹنے کی معاشی سکت نہیں رکھتے۔ اس پر کارکنوں کا استدلال ہے کہ فرض کرلیا کہ میڈیا مالکان کا یہ موقف درست ہو تو پھر وہ ایپنک اور پی ایف یوجے کے ایک پرانے مطالبے سے کیوں گھبراتے ہیں کہ میڈیا ہاوسز کے مالکان کا فرانزک آڈٹ کیا جائے اور ان سے منی ٹریل طلب کی جائے ، حکومت بھی اس طرف قدم نہیں اٹھا رہی اور ساتھ ہی ساتھ بلا امتیاز شفاف احتساب کے دعوے بھی کررہی ہے ۔

بے روزگار ہونے والے کارکن پنجاب اسمبلی پارلیمانی کمیٹی سے توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ اس کمیٹی کے اقدامات کے نتیجے میں وہ بحال ہوجائیں گے ، ان کے واجبات مل جائیں گے اور تنخواہوں میں کٹوتی ختم کردی جائے گی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کمیٹی ان توقعات پر پورا اتر سکتی ہے ؟ اگر پورا اتر سکتی ہے تو کس طرح ؟ اس ضمن میں صحافیوں کے نمائندوں نے یقینی طور پر پارلیمانی کمیٹی کو تحریری موقف پیش کیا ہوگا یا کسی وقت بھی پیش کر دیں گے ۔ برسبیلِ تذکرہ یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ اگر پارلیمانی کمیٹی میڈیا کارکنوں کو ریاست کا حقیقی شہری تسلیم کرکے ان سے ہمدردی کا عملی ثبوت دے تو کارکنوں کی توقعات پر پورا اترنا کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ ادارے اس بنیاد پر بند کیے گئے ہیں کہ ان کو چلانا مالکان کیلئے معاشی طور پرقابلِ عمل نہیں رہا ، اگر ایسدا ہی ہے تو ان اداروں کے ڈیکلریشن اور لائسنس نیلام کردیے جائیں ، جو خریدار سامنے آئے اسے ان کارکنوں کو ملازمت پر رکھنے کی شرط  پر یہ لائسنس یا ڈیکلریشن منتقل کردیے جائیں ۔ میڈیا ہوسز کو کارکنوں کی تنخواہوں کے اکاؤنٹ کھول کر بروقت ادائیگی کا پابند بنایاجائے جبکہ بینک میڈیا ہاوسز سے مطلوبہ زرِ ضمانت پیشگی یا کسی بھی صورت میں ڈپازٹ کریں جبکہ سرکاری اشتہارات کے چیک اسی اکاؤنٹ میں جمع کرانے کی بھی پابندی لگائی جائے ۔  اس سارے عمل کی نگرانی محکمہ اطلاعات اور محنت کو سونپی جائے اور نگرانوں میں کارکنوں کے نمائندے بھی شامل کیا جائے ، ویج ایوارڈ کا نفاذ اور تنخواہوں کی بروقت ادائیگی یقینی بنانے کے اقدامات کیلئے پارلیمانی کمیٹی حکومت کو انتظامی نوٹیفکیشن جاری کرنے کی سفارش بھی کرسکتی ہے اور قانون

سازی کی سفارش بھی کرسکتی ہے جبکہ قانون سازی ایسی نہیں ہونا چاہئے کہ وہ کسی طور بھی نیوزپیپرز ایمپلائیز کنڈیشنز آف سروس ایکٹ  ( نکوسا) کو متاثر کرے یا اس کی روح کے منافی ہو۔ نکوسا میں صرف ایک لفظ ” بشمول الیکٹرانک و ڈیجیٹل میڈیا“ ہی شامل کرنے کی ضرورت ہے جبکہ اس ضمن میں پنجاب اسمبلی ہی کی ایک قرارداد اسمبلی کے ریکارڈ پر موجود ہے جس میں اسمبلی نے سفارش کرکھی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے کارکنوں کو بھی پرنٹ میڈیا کے کارکنوں کی طرح قانونی تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کا سروس سٹرکچر بنانے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں ۔ کمیٹی نے جن امور پر غور کرنا ہے ان میں سرفہرست یہ ہونا چاہئے کہ جب میڈیا ہاوسز میں روزانہ کی بنیاد پر کام ہونا ہے تو پھر وہاں جزوقتی یا کنٹریکٹ پر ملازمت کا جواز کیا ہے ؟ ہر ادارے کے کارکنوں کی محکمہ محنت میں رجسٹریشن یقینی بنانے کے اقدامات اٹھانا ہونگے ،اس سے کارکنوں کو سوشل سیکیورٹی اور اولڈایج بینیفٹس بھی مل سکیں گے جو تمام کارکنوں کا بنیادی قانونی حق ہے ، ہر ادارے میں ورکرز یونین لازم قراردیدی جائے وغیرہ وغیرہ ، یہ سارے کے سارے اقدامات ملک کے آئین کی روح کے مطابق ہیں جہاں تک یہ سوال ہے کہ پنجاب کی پارلیمانی کمیٹی ایسی سفارش یا قانون سازی کرسکتی ہے تو اسے یہ راستہ آئین میں کی جانے والی اٹھارہویں ترمیم فراہم کرتی ہے ۔ اس سے تمام اشاعتی و نشریاتی اور اور خبررساں اداروں کے تمام صوبوں کے دفاتر میں کام کرنے والے کارکنوں کو تحفظ مل جائے گا اور ایسے میڈیا ہاؤسز جو ایک کمرے میں ایک سے زائد بلکہ بعض تو دس سے بھی زائد اسٹیشنوں کے ڈیکلریشن محفوظ اور اشتہارات تمام اسٹیشنوں کے اجتماعی نرخ پر حاصل کررہے ہیں ، وہ بھی مانیٹر ہوجائیں گے جبکہ حکومتی ادارے ایسے میڈیا ہاوسز کے بارے میں مکمل تفصیلات رکھتے ہیں بلکہ بعض اہلکار تو ایسے میڈیا ہاوسز کے بینیفشری بھی ہیں ۔

میڈیا کارکنوں کے نمائندے ماضی میں بہت سی کوتاہیوں کے مرتکب ہوئے ہیں جس میں ان کی باہمی تقسیم بنیادی کردار اور اہمیت کی حامل ہے اور اسی وجہ سے کارکن دل جلنے پر اپنے رہنماﺅں کو میڈیا مالکان کا ایجنٹ تک قراردیدیتے ہیں، اس سخت گیر رویے پر نظرثانی اور رہنماﺅں کو بھی خود احتسابی کی ضرورت ہے ۔یہ بات ذہن میں رکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ اگر اس پارلیمانی کمیٹی سے بھی میڈیا کارکن کوئی ریلیف لینے میں ( خدا نخواستہ ) ناکام رہتے ہیں تو یہ تاریخی ناکامی ہوگی جس کے منفی اثرات نہ صرف موجودہ بلکہ اگلی نسلوں پر بھی پڑیں گے۔ حاضر دماغ اور چوکنا رہنے کی ضرورت بھی ہو گی ۔ لازم ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے تحریری موقف پیش کیا جائے جس کے حق میں مظبوط دلائل پیش کیے جائیں جبکہ اس موقف پر کارکنوں سے مشاورت باعثِ برکت اور اچھے نتائج کی ضامن ہوگی۔ کمیٹی کے سامنے میڈیا ہاوسز کے بقایا جات میں سے کارکنوں کے بقایاجات کی بات اپنی جگہ بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور اس سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ بیمار اور موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا مریض کے مقابلے میں اگر تیماردار کی میڈیکیشن پر ہی توجہ دی گئی تو بہت سے بیماروں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہونگے ۔ یہی بات کمیٹی کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ اگر اس نے کارکنوں کو مایوس کیا تو اس کے نتائج کیا ہونگے۔۔(محمدنوازطاہر)

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں