karkoon giraftaar qayadat faraar

کارکن گرفتار۔۔۔۔قیادت فرار۔۔

تحریر: امجد عثمانی۔۔

جماعت اسلامی کے سابق امیر جناب سراج الحق نے کمال جملہ کہا۔۔۔۔یہ کسی “سیر شکم آدمی” کا نکتہ خیال  ہی ہو سکتا کہ معدے سے سوچنے والا  کوئی “بھوکا شخص”ایسا فکر انگیز  جملہ ہرگز ہرگز نہیں کہہ سکتا۔۔۔مجھے منفرد اخبارنویس جناب تنویر عباس نقوی یاد آگئے۔۔۔کوئی ڈیڑھ دہائی پہلے انہوں نے بھی من و عن یہی دل بھاتی بات کہی تھی کہ کیا ہے یہ گاڑی۔۔۔بنگلہ اور بینک بیلنس۔۔۔۔۔؟؟؟؟شاید بڑے لوگ ایک ایسا ہی سوچتے ہیں۔۔۔یہ دو ہزار سات کی بات ہے کہ جناب نجم سیٹھی کی زیر ادارت ڈیلی ٹائمز گروپ کے اردو اخبار روزنامہ آج کل کا خاکہ تیار جا رہا تھا۔۔۔۔لارنس روڈ پر سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے پڑوس عارضی دفتر میں بھرتی کے بعد ٹریننگ چل رہی تھے ۔۔۔۔۔لاہور کے ڈیڈ آنسٹ ایڈیٹر جناب خالد چودھری نے ایڈیٹر کوارڈی نیشن کے لیے جناب تنویر عباس نقوی کا انتخاب کیا اور یہ کیا ہی حسن انتخاب تھا۔۔۔۔نقوی صاحب رکشے پر دفتر آیا کرتے۔۔۔۔میں نے ایک دن کہہ ہی دیا کہ حضور آپ ایک بار پھر  ایڈیٹر ہوگئے ہیں۔۔۔دکشے پر آنا عجیب لگتا ہے۔۔۔۔اب گاڑی لے لیں۔۔۔۔کہنے لگے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔میں پیدل بھی ایڈیٹر ہی ہوں۔۔۔نجی ٹی وی ایک نیوز پر برادرم طارق خان کے ساتھ پوڈ کاسٹ میں جناب سراج الحق نے بھی کچھ ایسی ہی بات کہہ کر دل کے تار چھیڑ دیے۔۔۔۔جماعت اسلامی کے سابق امیر نے کہا کہ میں کے پی کا سنئیر وزیر بنا ۔۔۔وزیر خزانہ بنا۔۔۔۔۔سینیٹر بھی بنا ۔۔۔لیکن میرے گھر کے کمرے بڑھے نہ گھر محل میں تبدیل ہوا۔۔۔۔۔میں نے اپنے آپ کو وزارت کے پروٹوکول کا عادی نہیں بنایا۔۔۔۔جب وزرات چھوڑی تو بس پر اپنے گھر چل دیا ۔۔۔ماموں کہنے لگے اپنی گاڑی ہوتی تو اس پر آتے۔۔۔۔ میں نے کہا اس سے فرق نہیں پڑتا ۔۔۔میں جہاز پر سفر کروں تو بھی سراج الحق ہوں ۔۔۔گاڑی پر سفر ہو تب بھی سراج الحق ۔۔۔میں رکشے پر سفر کروں  تو بھی سراج الحق ۔۔۔۔پیدل بھی چلوں تب بھی سراج الحق ہی ہوں ۔۔۔۔۔۔لوگ میرے ساتھ امیر اور ناظم اعلی کا سابقہ بھی لگاتے تھے میں تب بھی سراج الحق  تھا۔۔۔۔میں کچھ بھی بن جائوں مگر میں ہوں سراج الحق ۔۔۔۔۔سراج الحق نے درست کہا کہ عہدہ عادت نہ بن جائے تو یہ کرسی دو ٹکے کی ہوتی ہے۔۔۔۔۔جماعت اسلامی کی خوش بختی کہ اسے درویش مزاج امیر ملے۔۔۔۔قاضی حسین احمد ہوں یا سید منور حسن۔۔۔سراج الحق ہوں یا حافظ نعیم الرحمان سب ایک ہی فکر کے آدمی ٹھہرے۔۔یہ علیحدہ باب کہ کچھ “غریب”جماعت کی وجہ سے باقاعدہ “امیر “بھی ہوئے اور خوب ہوئے۔۔۔۔جماعت اسلامی کے باب میں جناب تنویر عباس نقوی کی ایک شہ سرخی یاد آگئی۔۔۔۔نقوی صاحب تب جناب علی احمد ڈھلوں کی زیر ادارت شام کے اخبار روزنامہ مقابلہ کے جوائنٹ ایڈیٹر اور میں چیف نیوز ایڈیٹر تھا۔۔۔۔دو ہزار دو تین کی بات ہے کہ جماعت اسلامی نے ٹرین مارچ کا اعلان کیا۔۔۔لاہور سے ٹرین مارچ سے پہلے ہی کریک ڈائون ہو گیا اور بیسیوں “جماعتی کارکن” پکڑے گئے۔۔۔نقوی صاحب نے سرخی جمائی۔۔۔۔

جماعت اسلامی کا ٹرین مارچ۔۔۔۔کارکن گرفتار۔۔۔۔قیادت فرار۔۔۔۔۔!!!

تب قاضی صاحب امیر جماعت  تھے۔۔۔وہ تو ٹھہرے مرد میدان۔۔۔۔رہی بات دنیادار  امیروں کی تو وہ بھاگ ہی جاتے ہیں۔۔۔۔(امجد عثمانی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں