خصوصی رپورٹ۔۔
کراچی یونین آف جنرلسٹ (دستور) کی طرف سے روزنامہ ‘‘ امت ’’ کے انتظامی معاملات کے حوالے سے جاری کئے جانے والے بیان تمام خدوخال کا جائزہ لینے کے بعد میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ یہ بیان صحافتی اقدار کے خلاف جانبدارانہ اور زرد صحافت کی مثال ہے اس کو کسی صورت غیر جانبدار نہیں کہا جا سکتا۔ یہ صحافتی اقدار کا تقاضا ہے کہ اس طرح کا بیان جاری کرنے سے پہلے دوسرے فریق کا بھی موقف سنا جاتا اور اس کو بھی اس بیان کا حصہ بنایا جاتا لیکن افسوس کہ نہ صرف ایسا نہیں کیا گیا بلکہ قابض انتظامیہ کے موقف کو شد و مد کے ساتھ پیش کر کے بھرپور جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ بیان جاری کرنے کے بعد رات گئے کے یُوجے کے سیکریٹری موسیٰ کلیم نے مجھے کال کی جنہیں اصل حقائق سے آگاہ کیا گیا اور انہیں دعوت بھی دی گئی کہ وہ بنک چلیں اور حقائق معلوم کریں کہ کون اکاؤنٹس کھلوانا چاہتا ہے اور کون بند کرانا چاہتا ہے، اس حوالے سےوہ بنک منیجر کا چل موقف بھی سن لیں۔ اصل حقائق جاننے کے بعد انہوں نےتشویش کا اظہار کیا اور یقین دہانی کروائی کہ وہ اس حوالے سے دیگر عہدیداران سے بات کریں گے جس کے بعد اس بیان کا شائع ہونا بددیانتی پر مبنی ہے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ قابض انتظامیہ نے آپ کی ٹیم کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کی اس پر آپ خاموش رہے، قابض انتظامیہ کچھ ورکرز کو سخت انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا رہی ہے اس پر بجائے لب کشائی کرنے کے آپ محض اس لئے خاموش ہیں قابض ٹولے کے کچھ افراد آپ کے ساتھی ہیں۔ آپ نے اپنے بیان میں فرمایا ہے کہ آپ نے علی حمزہ افغان سے ملاقات کی لیکن افسوس کہ جس پر آپ نے الزامات عائد کئے ہیں اور قانونی چارہ جوئی کی دھکمیاں دی ہیں ان کا موقف جاننے کی کوئی کوشش نہیں کی، نہ تو آپ نے ناصر افغان صاحب سے بات کی، نہ مجھ سے اور نہ ہی سی ای او سے موقف لینے کی ضرورت محسوس کی۔ اگر میں جان کی امان پاؤں تو کیا میں یہ کہنے میں حق بجانب نہیں ہوں کہ اس کو ہی ‘‘ زرد صحافت ’’ کہتے ہیں۔
بنک اکاؤنٹس کی حقیقت: مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ماہ رمضان کی آمد کے موقع پر اکاؤنٹس فریز ہوئے ہیں جس کو سازش قرار دیا جا رہا ہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ہمیں بھی موجودہ صورتحال پر تشویش ہے اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ تمام معاملات جلد از جلد حل ہو جائیں اور اس حوالے سے بروز پیر سے میں بینک کے چکر کاٹ رہی ہوں۔ اس مسئلے کے حل کے حوالے سے میں خود بمعہ سی ای او آصف سعود ایچ بی ایل اور الائیڈ بینک کے اکاؤنٹس کھلوانے کی غرض سے بروز منگل جب ہم اکاؤنٹس کھلوانے کے حوالے سے بینکس پہنچے تو مسٹر 95 پرسنٹ (اصل میں مسٹر 17% ) اور ٹرمینیٹیڈ شدہ عمران بٹ پہلے ہی وہاں پہنچ کر بینک حکام کو بلاوجہ اور دستاویزات نہ ہونے کے باوجود نہ صرف ان کا وقت ضائع کر چکے تھے بلکہ وہ ان کو برہم کر چکے تھے تاہم معاملہ حل نہ ہو سکا جس کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے دستختط کے اختیارات کو تبدیل کرنے کی غرض سے بینک کو خط ارسال کیا تھا اس لئے کچھ دنوں کے لئے اکاؤنٹس فریز ہو گئے ہیں اگر مسٹر 95 پرسنٹ (اصل میں مسٹر 17% ) اور ان کے نو رتن بینک میں جا کر طوفان بدتمیزی نہ مچائیں تو اکاؤنٹس جلد بحال ہو جائیں گے۔
الحمزہ کا اکاؤنٹ کیسے کھلا: ہم آپ کو ذہن نشین کروانا چاہتے ہیں کہ کہ الحمزہ کا اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے جب آپ کو ہماری مدد درکار تھی تو ہم نے اپنے ظرف کے مطابق اپنا کردار ادا کیا اور اکاؤنٹ کھل گیا کیوں کہ ہمیں اپنے ورکرز کی بہت فکر تھی اور ہم واجبات کی ادائیگی میں مزید تاخیر نہیں چاہتے تھے۔ اس اکاؤنٹ کو کھلوانے کے حوالے سے جناب ناصر افغان صاحب نے جو اقدامات کئے اس سے کے یو جے اچھی طرح باخبر ہے۔ اب الحمزہ کا اکاؤنٹ بند کروانا یا کھلا رکھنا ان کی اپنی صوابدید پر ہے اس میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے اگر اس پر بھی کوئی سیاست یا سازش کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کو منہ کی کھانی پڑے گی۔
ملازمین کو ہراساں کرنا: روزنامہ امت کی طرف سے کسی بھی ملازم کو ہراساں نہیں کیا جا رہا نا کیا گیا ہے ہاں البتہ چند ایسے ملازمین کے خلاف اقدامات کئے گئے ہیں جو خالص انتظامی معاملہ تھا۔ ہم پہلے بھی آپ سمیت پوری صحافتی برادری کو آگاہ کر چکے ہیں کہ ‘‘ امت ’’ کے جی ایم فنانس کو کرپشن ثابت ہونے کی بنا پر ملازمت سے برخاست کیا گیا تھا جو ‘‘ امت ’’ کے ملازمین کے حق میں بہتر تھا۔ جی ایم فنانس جہاں کرپشن میں ملوث تھے وہاں وہ اضافی مراعات بھی حاصل کر رہے تھے جبکہ وہ جانتے تھے کہ ادارا بحران کا شکار ہے۔ ایڈیٹر رپورٹنگ امجد ارشاد کے خلاف کارروائی سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد اور کراچی بنچ کے فیصلوں کی روشنی میں کی گئی تھی ان فیصلوں میں کہا گیا تھا کہ:
Order came following a petition by the journalists, Margoob Ahmed Rizwan, and others in 2017 at SHC divisional bench Hyderabad against the government employees, working as journalists. Government servants, working as journalists, are violating Sindh Civil Servants Conduct Rules 21, 22 and 23, as no government employee can work as reporter or as the editorial staffer or director news in any news organization..
Despite the Sindh High Court’s (SHC) Karachi Division bench orders, more than 500 government employees, especially teachers, are still working as journalists in violation of the Sindh Civil Servant (Conduct) Rules, 2008..
سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد اور کراچی بنچ کے فیصلے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کوئی بھی سرکاری ملازم کسی بھی اخبار یا میڈیا ہاﺅس میں ملازمت نہیں کر سکتا نہ ہی شعبہ صحافت سے منسلک ہو سکتا ہے جبکہ سندھ سول سرونٹس کنڈکٹ رولز 21,22, اور 23 کے تحت بھی کوئی سرکاری ملازم رپورٹر ،ایڈیٹوریل اسٹاف، ڈائریکٹر نیوز یا کسی بھی نیوز آرگنائزیشن میں ملازمت اختیار نہیں کر سکتا۔ ان فیصلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر کل ‘‘ امت ’’ کے خلاف کوئی توہین عدالت کی درخواست دائر کر دیتا تو کو کون ذمہ دار ہوتا۔ ان کے سرکاری ملازم ہونے کے ثبوت کے طور پر ان کی تنخواہ کی سلپ منسلک کی جا رہی ہے جس کی آپ خود بھی تصدیق کر سکتے ہیں۔
چیف رپورٹر سید نبیل اختر کے خلاف ان کی کارکردگی کی بنیاد پر کارروائی کرتے ہوئے ان سے چیف رپورٹرشپ واپس لی گئی۔ یہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ چیف رپورٹر کی ذمہ داری انتہائی اہم ذمہ داری ہے جس کا مقصد بطور چیف رپورٹر ایکریڈٹیشن کارڈ، اس کی بنیاد پر ریلوے کے کارڈ سمیت دیگر مراعات کا حصول قطعی طور پر نہیں ہوتا۔ ایک سال سے زائد وہ اس عہدے پر فائز ہیں لیکن انہوں نے رپورٹنگ ڈیسک کی بہتری کے لئے کسی قسم کا کوئی قدم نہیں اٹھایا، ان کو چیف رپورٹر کے عہدے سے ہٹائے جانے تک اس نے کبھی نہ رپورٹرس کی میٹنگ کال کی نہ ہی ان کی بیٹس کے حوالے سے اقدامات اٹھائے۔ حال ہی میں وفاق میں تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کے فیصلے سے لیکر تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے اور سیاسی جوڑتوڑ تک کسی بھی اسٹوری پر کام نہیں کیا جبکہ بطور چیف رپورٹر یہ ان کی اہم ذمہ داری تھی، ہاں البتہ ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے کچھ رپورٹرز کو ان کے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کے لئے بھرپور کردار ادا کیا۔ میرے خیال میں یہ انتظامی امور ہیں جن کا کے یُوجے کا کسی اور یُوجے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کراچی یونین آف جنرلسٹ (دستور) کے موسیٰ کلیم صاحب آپ کے علم میں ہوگا کہ اس وقت امت مبینہ طور پر بحران کا شکار ہے۔ جب بحران کا رونا رویا جا رہا تھا اس وقت ورکرز تو سخت تکلیف میں مبتلا تھے تاہم ایک مخصوص طبقا خاص مراعات حاصل کر رہا تھا تھا۔ موجودہ صورتحال کے باوجود ہم روزنامہ امت میں اصلاحات لانے کے خواہاں ہیں، اس کو اس کی اصل حالت میں بحال کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری ترجیحات میں ملازمین کے واجبات کی مکمل ادائیگی کے بعد تنخواہوں کی بروقت ادائیگی، ورکرز کی تنخواہوں میں خاطرخواہ اضافے، ہر ورکر کو جوبلی ہیلتھ انشورنس کارڈ کے اجرا، ورکرز کے بچوں یا ان کی اپنی شادیوں کے حوالے سے خصوصی گرانٹ، ورکرز کے مالی مسائل کے حل کے آسان اقساط پر قرض کی ادائیگی، ورکرز کی بیٹیوں کی شادی پر خصوصی امداد، سندھ حکومت کے لیبر ڈپارٹمنٹ میں ورکرز کی رجسٹریشن کروانا، دفتر کی حالت کو بہتر بنانا، اہم عہدوں پر فائض افراد کے کیبنس کی حالت بہتر کرنا، دفتر بالخصوص اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ کو پیپر فری ٹیکنالوجی فراہم کرنا، غیر ضروری اخراجات میں کمی لانا، امت کے اکاؤنٹس کی تھرڈ پارٹی آڈٹ سمیت دیگر اقدامات کی کوشش کر رہے ہیں۔ کے یو جے سمیت تمام صحافتی تنظیموں کے علم میں ہوگا ایک طرف تو ہمارے خلاف عدالتوں میں مقدمات دائر کئے گئے ہیں اور دوسری طرف ہمارے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے جس کا نقصان امت کو ہی ہوگا۔
ہم چاہتے ہیں کہ امت کے حالات کو بہتر بنانے اور اس بحران کے خاتمے کے لئے آپ اپنا کردار ادا کریں اور قابض مافیا کو مذاکرات کی ٹیبل پر لے آئیں اور ثالثی کریں تاکہ مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے اور ہمیں پوری امید ہے کہ اس پر آپ غور سے سوچیں گے اور اپنے مثبت جواب سے ہمیں آگاہ کریں گے۔ آپ سے التماس ہے کہ آئندہ اس طرح کا کوئی بھی بیان جاری کرنے سے پہلے صحافتی اقدار کا مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا موقف بھی لیا جائے گا۔ والسلام۔۔۔(صائمہ رفیق افغان،ڈائریکٹر)۔۔
(ڈائریکٹر امت صائمہ رفیق افغان کے اس کھلے خط کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ کے یوجے دستور کی جانب سے اگر اس خط کاجواب دیا جائے گا تو ہم اسے بھی ضرور شائع کریں گے۔۔علی عمران جونیئر)۔۔