(تحریر : آغاخالد)
کراچی پریس کلب کے انتخابات20 /2019 قریب ہیں اور ایک بارپھر تمام دوست احباب لنگوٹ کس کر میدان کارزار میں کود پڑے ہیں ہمیشہ کے برعکس اس مرتبہ مقابلہ دوبدو ہے ، سامنے دو پینل ہیں ایک ہمارے دوست ، جماعت کے پینل سے اشتراق کرکے کئی برسوں سے جاری پریکٹس دوھرارہے ہیں جبکہ دوسری طرف ٹکڑیوں میں بٹی کے، یو، جے برنا کے مختلف دھڑے عرصہ بعد اتحادی پینل بناکر میدان میں کودے ہیں جیت کس کا مقدر ہوگی یہ تقدیر نے نہیں ،آپ نے فیصلہ کرنا ہے؟اور وقت کم مقابلہ سخت ہے ۔۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ الیکشن کفر و اسلام کی جنگ یا دشمنوں کی شکست سے تعبیر نہیں ، یہ بہتر دوستوں کا انتخاب کرنے کا ایک مشکل مرحلہ ہے ایسے دوست جن کی خدمات برادری کے لئے قابل ستائیش ہوں جن کا ماضی متقاضی ہو کلب کے مسائیل کے حل اور وہ اس کا ادراک بھی رکھتے ہوں ؟ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ ہم سب ایک برادری بن چکے ہیں اور برادری کے کچھ ساتھیوں کی جیت پر جہاں خوشی ہوتی ہے وہیں کچھ کی ہار پر دکھ بھی ہوتا ہے،
مگر کلب کی بھلائی ہی مقدم روایت رہی تھی،جسے ہم گزشتہ کچھ عرصہ سے بھلاکر ٹکڑیوں میں بٹ گئے ہیں نیلے ، پیلے ، برنا جاعتی رانا ، بٹ اور دیگر گروپوں میں ہماری حیا ، انا ، شرم ڈوب چکے ہیں اور ہم پورےڈوب کر صرف ہاتھ بچاکر بھی نازاں ہیں کہ ۔۔۔ابھی پورے ڈوبے تو نہیں ہیں؟
اور اب ہم مایوسی کی اس انتہاپر ہیں کہ یہ سوچنے کو بھی تیار نہیں کہ ہماری اس تقسیم نے ہمیں کہاں لاکھڑا کیا ہے اب ہم ہرسو ذلیل ہورہے ہیں رسوائی ہماری روزانہ کی خوراک بنادی گئی ہے حکومت ہمیں نسوار ڈالنے کو بھی تیار نہیں ہمارے چھوٹے بڑے صحافتی ادارے جب چاہتے ہیں ہماری تقسیم کا فائیدہ اٹھاکر یکمشت سینکڑوں کی تعداد میں ہمارے ساتھیوں کو بے روزگار کردیتے ہیں ذرا سنجیدگی سے سوچیں یہ کھیل کب تک جاری رہے گا اور ہمیں اب یہ بھی لکیر کھینچنی ہوگی کہ ہماری اس حالت اور تقسیم کاذمہ دار کون ہے؟حکومت سے زیادہ خود ہمارے یہ عہدوں کے شوقین لیڈر یاواقعی حکومت ،اس امر کا سنجیدگی سے بیٹھ کر تجزیہ کریں یہ بہت ضروری ہے وقت کم ہے ورنہ ہم مٹ جائیں گے ایک ایک کرکے سب ، مٹادئیے جائیں گے اور پھر پچھتاوے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا یہ آخری گھڑیاں ہیں ہمارے پاس سوچنے اور فیصلہ کرنے کو ۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل ایوب کے دور سے صحافت پر پڑنے والے ہںنٹر ہماری کمر پر مسلسل برس رہے ہیں اذہان کو طابع کرنے کی روش ضیاء کے دور میں عروج پر تھی مگر موجودہ دور کی فسطائیت نے تو سب کو گہنادیا ، جب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لفظ کو بے توقیر کیا گیا صحافت کو بدنام اور صحافی کو گالی بنادیا گیا خبر کے مفہوم کمیں گاہوں میں تراش کر صنم زدہ زبانوں سے اتنی بار دھرائے گئے کہ اصل خبر دیوانے کی بڑ بن گئی اور تراشیدہ سچ کو عقل کی کسوٹی پر قلمکار منوایا گیا اور جھوٹوں ، میراثیوں کی ایک فوج تیار کی گئی کہ عزت دار صحافیوں کو یونس علہ کی طرح جنگلوں میں پناہ لینا پڑی فسطائیت کی یہ نئی شکل تھی جس سے ہم سب نا آشنا تھے ہمارے رہنما یاتو سونے میں تول دئے گئے یا سنگینوں کے خوف سے دبک گئے اور یوں سچ کا جنازہ نکلتا رہا اورہم سب ا سے کاندھا دینے والوں میں شامل ہونے میں عافیت تلاش کرتے رہے اورپھر جب ہم نڈھال ہوگئے مدافعت کی امید موہوم بھی جاتی رہی تو بونے صحافیوں کو ہم پر مسلط کردیا گیا اور پھرہم سب اپنے سر بچانے کے لئے ان کا کردار ، افعال ، ادراک ، اختیار جانتے ہوئے بھی تعمیل پر مجبور ہوئے۔ ضروری نہیں کہ آپ میری رائے سے متفق ہوں یا میرا کہا صائیب ہو مگر جو کہا اس میں خلوص نیت شامل ہے اور اللہ نیتوں کا حال خوب جانتا ہے ،
بات بہت طویل ہوگئی الغرض کہنا یہ چاہ رہاتھا کہ مزید غلطیوں سے بچنے اور سابقہ کوتاہیوں کی تلافی کے لئے دوستو اس مرتبہ سوچ سمجھ کر کراچی پریس کلب کے انتخابات میں ووٹ کا اپنا حق استعمال کرنا ، ماضی کی کار کردگی اور شخصیت کے کردار کو کسوٹی بنانا؟ دوستی یا دشمنی کسوٹی نہیں ہونی چاہئے دونوں پینلز میں اچھے برے امیدوار ہونگے اور سب ہی ہمارے دوست اور کردار میں ہم سے سب بہتر ہونگے مگر گزشتہ برسوں کی صدارت کے امیدوار ملک احمد خان کی صحافی برادری کے لئے خدمات شاندار رہی ہیں اور وہ اس وقت سے میڈیا ٹائون کے لئے سرگرم ہیں جب وہ ہماری طرح کلب کے محض ایک رکن تھے اور ہاکس بے میں صحافی سوسائیٹی ایک مردہ گھوڑا تھا جس میں جان ڈالنا ملک صاحب کا مثالی کارنامہ رہا ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہ لیا جائے کہ ان کے مقابل امتیاز خان فاران نااہل ہیں وہ بھی بڑے سرگرم کردار کے مالک اور ہمارے لیڈر ہیں مگر ملک صاحب کی خدمات اور ان کا اخلاق ان کا کردار ہم سب پر بھاری ہے اسی طرح سیکریٹری کے امیدوار فاران کے پینلز سے ارمان صابر بہتر انتخاب ہو نگے چہ جائیکہ ان کی خدمات اپنے پیشرو مقصود یوسفی اے ایچ خانزادہ اور عامر لطیف کی طرح شاندار تو نہیں رہیں مگر منا سب کار کردگی تسلیم نہ کرنا زیادتی ہوگی البتہ ان کے پیشرو مقصود یوسفی کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنوں پرایوں کو ساتھ لے کر چلتے تھے اور کلب کے مفاد میں ہر ایک کے تعلقات کو استعمال کرنے کا فن ان کا جوہریوں والاتھا وہ جب2017 میں کامیاب ہوئے تو کلب 70 لاکھ کا مقروض تھا اور عملے کی تنخواہیں کئی ماہ سے واجب الاادا تھیں اور مایوسیوں نے کلب کو اس طرح گھیرا ہوا تھا جیسے ڈوبتی کشتی کے مسافر،
مگر ان کا کمال یہ تھا کہ دوبرس بعد جب انہوں نے اقتدار چھوڑا تو کلب کا خزانہ بھرا ہوا تھا اور ایک عرصہ بعد کلب میں ترقیاتی تعمیرات مکمل ہوئیں تھیں جن میں انتہائی خوبصورت اسپورٹس کمپلیکس اور کانفرسنگ ہال کی تکمیل شامل ہے اسی طرح 2014 میں عامر لطیف کے دور میں شروع کئے گئے کلب کی تاریخی عمارت کے پتھر کی تبدیلی بھی مقصود یوسفی کے دور میں مکمل ہوئی جس پر کروڑوں روپیہ لاگت آئی ، بہر صورت دوستو ملک احمد خان کے متعلق اتنا جانتا ہوں کہ گزشتہ انتخاب میں ناکامی کے باوجود میڈیا ٹائون جیسی مردہ سوسائیٹی میں جان ڈالنے کا انکا سفر جاری رہا وہ محض اس لئے پیچھے نہیں ہٹے کہ دوستوں نے انہیں مایوس کیاتھا اور ایسا شخص اگر کامیاب ہوجاتا ہے تو امید واثق ہے کہ انشااللہ وہ میڈیا ٹائوں میں پریس کلب کی انیکسی بھی جلد بنوانے اور نئے ممبران کے لئے پلاٹس کی منظوری حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوجائے گا اور وہ نئے آنے والے ممبران کے لئے کراچی جیسے مہنگے شہر میں سرچھپانے کا ٹھکانہ پریس کلب کے تعاون سے دلوانے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے اس کے علاوہ انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں جو پرکشش دعوے کئے ہیں ان کے ماضی کو سامنے رکھ کر یقین کیا جاسکتا ہے کہ وہ ضرور ان کے دور میں پایہ تکمیل کو پہنچائیں گے انشااللہ۔۔(آغاخالد)۔۔