تحریر: اویس عارف۔۔
روشنیوں کا شہر کراچی موجودہ وقت میں مافیاز کی زدمیں اچکا ہے قبضہ مافیا، بلڈر مافیا، ٹینکرز مافیا، پتھارے مافیاز اور گداگر مافیاز کے عین مطابق یہ اپنے عروج پر ہے اور کوئی بھی ادارہ ان کیخلاف کارروائی سے گریزاں ہے،شہر کراچی کے بیشتر علاقوں میں ان کا راج ہے اگر کوئی کھانے کیلیے باہر جائے تو ہر فوڈ اسٹریٹ بوٹ بیسن، برنس روڈ، اور کریم آباد پر ہر دوکان، چوراہے اور ہوٹل پر ڈیرے جمائے بیٹھے ہیں اس کے ساتھ ساتھ دیگر جگہوں کی بات کی جائے تو ان میں مصروف ترین شاہراہ ایم اے جناح روڈ، طارق روڈ، صدر ریڈ زون اور تمام مساجد کے داخلی دروازے پر ہر عمر کے لوگ مختلف قسم کے اشتہار سمیت جعلی ادویات اور اسپتالوں کی رپورٹس ساتھ لیے نظر اتے ہیں۔اگر ہم بات کریں شہر کراچی کی مشہور ڈسٹرکٹ ضلع شمال کی جہاں اہم عمارتیں، دفاتر اور شاپنگ مال سمیت کئی اور مشہور بلند و بالا عمارتیں موجودہیں مگر پھر بھی ضلع ساؤتھ مختلف جگہیں جیسے کہ تین تلوار، پی ائی ڈی سی ٹریفک سنگنلز، بلاول ہاؤس اور عبداللہ شاہ غازی ٹریفک سنگنلز بھی ان کے قبضے میں نظر اتے ہیں۔ گداگر مافیا نے آہستہ آہستہ شہر کراچی میں اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں اور صبح ہوتے ہی یہ لوگ کم عمر کے بچوں کو بے ہوش کیے اپنے اپنے ٹریفک سنگنلز سمیت دیگر چوراہوں پر پہنچ جاتے ہیں اور جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے زرائع کے مطابق ہر جگہ کے مختلف ریٹس مقرر کیے گئے ہیں مثلآ مصروف ترین فوڈ اسٹریٹ،شاہراہ، شاپنگ مال، جہاں پر عوام کا رش باقی جگہوں کی مناسبت سےزیادہ ہوتا ہے اس جگہ کے پیسے بھی دیگر جگہوں کے مقابلے میں دوگنا ہوجاتے ہیں اور کم سے کم ایک گداگر کی دن کی امدنی 1500 سے شروع ہوجاتی ہےاور زیادہ سے زیادہ 4000 تک یہ لوگ دن میں بااسانی عوام کو لوٹ کر اور ان کو مختلف نوعیت کی بد دعائیں دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ مصروف ترین شاہراہ کے حساب سے ٹریفک سنگنلز اور دیگر جگہیں ان مافیاز کے کارندے چلا رہے ہیں جبکہ متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا پھر نجی اخبار یا ٹی وی چینلز پر خبروں میں نشاندہی کے بعد پولیس دکھاوے کی کارروائی کرتی نظر اتی ہے جس کے تقریباً کچھ دنوں بعد یہ مافیاز دوبارہ اسی جگہ یا پھر دوسری جگہ منتقل ہو کر اپنے دندے کو جاری رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ شہر کراچی کی کسی بھی سڑک، اسپتال، کالج، گراونڈ،فیملی پارک،حتی کہ شادی ہال کا بھی جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی درجن بھر گداگر ہر عمر کے موجود نظر اتے ہیں، گزشتہ ماہ قبل پوش علاقے میں گھر میں کام کرنے والی ملازمہ نے گھر کے مالک اور مالکن کے غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئےکم سن عمر کے بچے کو بے ہوش کر کے ٹریفک سنگنلز پر بھیک مانگتے ہوئے پکڑی گئی تھی مگر پولیس، ٹریفک پولیس کے سامنے یہ مافیاز کھلے عام اپنے کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں مگر متعلقہ پولیس ابھی تک خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے عوام کو یہ تاثر جاتا ہے کہ یہ پولیس بھی ان کے ساتھ ملوث ہے اگر پولیس ان کے ساتھ ملوث نہیں ہے تو پھر گداگر مافیاز کے خلاف کارروائی کرنے سے کیوں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ کیا بڑھتی ہوئی پیشہ ور گداگر کی وجہ سے حقدار کی حق تلفی ہو رہی ہے ؟ کیا اس گنہونے دندے کو ختم کرنے کیلیے حکومت کو کوئی حکمت عملی کرنی چاہیے یا اس وجہ سے حلقہ احباب میں یہ تاثر جاتا ہے کہ حکومت عوام کو بنیادی سہولیات دینے میں مکمل ناکام نظر اتی ہے۔ کیا اس کی وجہ سے پاکستان کے مستقبل نوجوانوں پر کس طرح کا اثر پڑے گا؟. اب دیکھنا یہ ہے کہ شہر کراچی سے منتخب نمائندے جو اپنے اپ کو کراچی کا بیٹا کہتے ہیں کیا وہ حقیقت میں کراچی کے بیٹے کا کردار ادا کرینگے یا ایک مرتبہ پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر چلتے بنیں گے ۔۔(اویس عارف)