تحریر۔احسان شوکت
ملیرکے علاقے تھانہ اسٹیل ٹاؤن میں گورنمنٹ پرائمری سکول عیدو گوٹھ کے ہیڈ ماسٹر محمد سلیمان کے بیان پر درج ایف آئی آر کے مطابق اس کی 16 سالہ بیٹی فرسٹ ائیر کی طالبہ بشری سلیمان 9 فروری2021 کو گھر سے گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج گلشن حدید پڑھنے کے لیے گئی،مگر کالج سے چھٹی کے وقت گھر واپس نہیں آئی۔جس پر میں اسے اپنے طور پر تلاش کرتا رہا۔10 فروری کو تھانہ ڈیفنس سے فون آیا کہ ان کی بیٹی نیم بے ہوشی کی حالت میں لاوارث ملی ہے۔وہ بیٹی کو گھر لے آیا اور پرائیویٹ ڈاکٹر سے دوائی لی۔اب طبعیت بہتر ہونے پر بیٹی نے بتایا کہ کالج سے چھٹی پر وہ باہرنکلی تو ایک کار آکر رکی۔جس میں ایک لڑکے سمیع نے اسے ورغلا، بہلاپھسلا اور زبردستی کار میں بٹھایا۔کار میں ایک اور لڑکا فواد بھی موجود تھا۔اس کے بعد مجھے کوئی ہوش نہ رہا۔انہوں نےاسے ایک گھر میں لے جا کر جہاں دو تین اور لڑکے بھی تھے،اسے اجتماعی زیادتی نشانہ بنایا اور حالت خراب ہونے پرگلشن کےعلاقے میں کہیں چھوڑ دیا گیا۔
پولیس نے مقدمے میں نامزد دونوں ملزمان سمیع،فواداوران کے ایک ساتھی عادل کو بھی گرفتارلیا ہے اور ان سے پولیس کی اعلی سطحی ٹیم تفتیش کررہی ہے۔پولیس کی میڈیکل رپورٹ میں زیادتی ثابت ہوئی ہے اور اب ملزمان کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے جارہے ہیں۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ لڑکی سے ذیادتی کے مرتکب ملزمان کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے اور انہیں سرعام پھانسی دے کرنشان عبرت بنا دیں،تاکہ آئندہ کسی درندے کو ایسی گھناؤنی حرکت کرنے تو کیا سوچنے کی بھی جرات نہ ہو۔
مگر یہاں ایک اور پہلو بھی ہے۔ (ہوشربا حقائق)
ذرائع کے مطابق لڑکی کو اغواء نہیں کیا گیا،بلکہ وہ خود اپنے دوست کے ساتھ (ڈیٹ )کار پر گئی۔
اوباش نوجوانوں نے منصوبہ بندی کے تحت لڑکی کو نشہ آور شے کھلا کر بے ہوش کردیا اور اسے”ریپ “کا نشانہ بنا ڈالا۔
اس کیس میں دو تین اور بھی تحقیق طلب پہلو ہیں کہ لڑکی 9 تاریخ کو گھر نہ پہنچی،تو اس کے باپ نے اس دن اس کے اغواء کا مقدمہ درج کیوں نہ کرایا جبکہ بچی دن گزرنے کے بعدرات کو بھی گھر نہیں پہنچی تھی۔
اگلے دن10 تاریخ کو بچی نیم بے ہوشی کی حالت میں ملی۔تھانے والوں نے باپ کو اطلاع کر کے بچی اس کے حوالے کی،مگر تب بھی باپ یا پولیس نے وقوعہ کی کوئی کارروائی کیوں نہ کی۔اس میں پولیس کی مجرمانہ غفلت کو بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اگر بچی کی حالت خراب تھی تو پولیس بچی کے لاوارث ملنے پر اسے طبی امداد کے لئے ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس کیوں لے کر نہیں گئی۔
بچی کے باپ نے مقدمہ درج کرانے کے لئے اغواء کے تیسرے روز 11تاریج کوشام 6بجے اتنی تاخیر سے پولیس سے کیوں رابطہ کیا۔
بچی کا باپ مقامی سکول میں ہیڈ ماسٹر ہے۔مگر اس نے وقوعہ کے تین دن بعد بھی پولیس کو درخواست لکھ کردینے کی بجائے ذبانی بیان کیوں دیا۔پڑھا لکھا مدعی ہمیشہ تحریری درخواست دیتا ہے۔
قانون کے مطابق بچی کے اغواء کا مقدمہ اسی روز درج ہونا چاہیے تھا۔بعد میں میڈیکل میں زیادتی ثابت ہونے پر تتیمہ بیان میں اس جرم کی دفعات بھی شامل کرلی جاتیں۔
نوجوان لڑکیوں سے گزارش ہے کہ خدارا لڑکوں کے چکروں میں نہ آئیں ۔اگر کوئی لڑکا انہیں پسند کرتا ہے تو اسے کہیں اپنے والدین کو رشتے کے لئے گھر بھیجے جبکہ معاشرے کو بھی ڈیٹ جیسی بے حیائی کے سیلاب کے آگے بند باندھنا ہوگا۔
انجام سب کے سامنے ہے۔ورنہ اب پچھتائے کیا ہوت۔جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔۔(احسان شوکت)۔۔
(یہ تحریر احسان شوکت کی وال سے لی گئی ہے، جس کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ علی عمران جونیئر)۔۔