crime free city 2

کراچی میں طالبان کے لواحقین کی اربوں کی سرمایہ کاری

تحریر: جاوید چودھری۔۔

پاکستان 1971 میں دو حصوں میں تقسیم ہوگیا‘ پراجیکٹ بریک پاکستان کی ’’آرکی ٹیکٹ‘‘ اندرا گاندھی تھی‘ آج کا بنگلادیش آج کے پاکستان سے 2200کلو میٹر دور تھا جب کہ بھارت کے ساتھ اس کی 4096کلو میٹر کی سرحد تھی‘دونوں سائیڈز پر بنگالی رہتے تھے اور مشرقی پاکستان کی آبادی کا 20فیصد ہندوئوں پر مشتمل تھا اور بنگالی قیادت بھی مغربی پاکستان کی بیورو کریسی اور لیڈر شپ سے خوش نہیں تھی۔انڈیا نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا‘ مغربی پاکستان کے خلاف فضا ہموار کی‘بنگالی لیڈر شپ کو ساتھ ملایا‘ مکتی باہنی کے نام سے علیحدگی پسند تنظیم بنائی‘ اسے عسکری ٹریننگ اور اسلحہ دیا اور مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی‘ جنرل یحییٰ خان اس وقت صدر اور کمانڈر انچیف تھے‘ جنرل نے سیاسی مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی بجائے فوجی آپریشن شروع کر دیا اوراس کے نتیجے میں پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا‘پاک فوج کے سینے میں زخم لگ گیا۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں فوج نے انڈیا سے بدلہ لینے کے لیے بھارتی پنجاب میں بنگالی ماڈل پر کام شروع کر دیا‘ ہم نے سکھ علیحدگی پسندوں کو اکٹھا کیا اور پنجاب میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا کر دیے‘ اندرا گاندھی بھی سیاسی مسئلے کے سیاسی حل کے بجائے جنرل یحییٰ خان جیسی غلطی کربیٹھی‘ اس نے’’گولڈن ٹمپل‘‘ پر فوج چڑھا دی اور یہ بعدازاں اپنے دو سکھ گارڈزستونت سنگھ اور بینت سنگھ کے ہاتھوں قتل ہو گئی‘ اس کے بعد انڈیا میں ہندو سکھ فسادات پھوٹ پڑے اور یہ1970 کا مشرقی پاکستان بن گیا‘ لاشوں کے انبار لگ گئے۔

یہ انڈیا کی تاریخ کے خوف ناک ترین لمحات تھے‘بھارت نے اس کا بدلہ لینے کے لیے بلوچستان کا رخ کر لیا‘ ذوالفقار علی بھٹو 1973 کے ملٹری آپریشن کی وجہ سے بلوچ لیڈرز کو ناراض کر چکے تھے‘ یہ ناراضگی جنرل ضیاء الحق کے دور میں فوج اور پنجاب کے خلاف نفرت میں تبدیل ہو گئی تھی اور یہ حقیقت ہے نفرت ملکوں اور قوموں کو توڑنے کے لیے ہمیشہ کھاد ثابت ہوتی ہے‘ انڈیا نے بلوچ لیڈروں کی ناراضگی کا فائدہ اٹھایا‘ افغانستان اور ایران کو اپنا مرکز بنایا‘ بلوچستان کے نوجوانوں کو بھرتی کیا‘ ٹریننگ دی‘ اسلحہ اور پیسہ دیا اور بلوچستان میں بدامنی شروع ہو گئی۔

یہ بدامنی اور نفرت آج تک موجود ہے‘ آج بھی بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے چھ گروپس کام کر رہے ہیں‘ یہ پہاڑوں میں پناہ گزین ہیں‘ بھارت سے اسلحہ‘ ٹریننگ اور رقم لیتے ہیں اور انڈین پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں‘ یہ گروپس طالبان اور داعش کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اور لشکر جھنگوی کے ساتھ مل کر بھی کارروائیاں کرتے ہیں‘ کلبھوشن یادیو جیسے بھارتی جاسوس ان کی مدد کرتے ہیں‘ یہ فوجی قافلوں‘ جوانوں اور افسروں کو بھی نشانہ بناتے ہیں‘سویلین آبادیوں میں بھی بم پھاڑتے ہیں‘ سی پیک کے چینی انجینئرز کو بھی ہدف بناتے ہیں اور ہزارہ برادری پر بھی حملے کرتے ہیں۔

پاکستان یہ کارروائیاں برداشت کر رہا تھا اور یہ شاید مزید بھی بھگت لیتا لیکن افغانستان میں یکم مئی کو بہت بڑی پیش رفت ہوگئی‘ امریکا نے نیٹو فورسز کا انخلاء شروع کر دیا‘ یہ انخلاء 11 ستمبر تک مکمل ہو جائے گا‘امریکی فوجیوں کی روانگی کے ساتھ ہی طالبان ایکٹو ہوگئے اور یہ دو ماہ میں 421اضلاع میں سے 149 پرقابض ہو گئے‘طالبان کی رفتار سے یوں محسوس ہو رہا ہے شاید امریکا جان بوجھ کر انھیں موقع دے رہا ہے‘ یہ اگر نہ چاہتا تو طالبان کبھی تین ساڑھے تین لاکھ فوج بنا پاتے اور نہ ایک تہائی ملک پر قابض ہو سکتے چناں چہ ماہرین کا خیال ہے امریکا خطے میں روس‘ چین اور پاکستان تینوں کے لیے آتش فشاں چھوڑ کر جا رہا ہے۔

یہ چاہتا ہے طالبان کابل پر قابض بھی ہو جائیں‘ طالبان نائن الیون کے بعد پاکستان سے ناراض ہیں‘ یہ ہم پر اعتماد نہیں کرتے‘ یہ صورت حال بھارت کے لیے آئیڈیل ہے‘ یہ طالبان اور بلوچستان کے عسکریت پسندوں کے ذریعے پاکستان کو مزید کم زور کرسکتا ہے چناں چہ ہمارے پاس اس صورت حال میں دو آپشن بچتے ہیں‘ ہم1971کی غلطی دہرائیں اور بلوچ عسکریت پسندوں کے خلاف اوپن ملٹری آپریشن شروع کر دیں یا پھر ہم اس کا کوئی سیاسی حل نکالیں‘ میری اطلاعات کے مطابق حکومت نے سیاسی حل کا فیصلہ کر لیا ہے۔

حکومت عنقریب بلوچ عسکریت پسندوں کے لیے ایمنسٹی کا اعلان کردے گی‘ عسکریت پسندوں میں سے جو ہتھیار ڈال دے گا اسے عام معافی دے دی جائے گی اور جو ضد پر قائم رہیں گے ان کے خلاف فوری آپریشن شروع کر دیا جائے گا تاکہ ریاست افغانستان میں تبدیلی سے پہلے پہلے اپنا ہائوس ان آرڈر کر لے‘ وزیراعظم نے 5 جولائی کوگوادر میںعمائدین اور طلباء سے اپنے خطاب کے دوران اس کا اشارہ بھی دے دیا۔

وزیراعظم کے الفاظ تھے ’’بلوچستان میں عسکریت پسندوں سے بھی بات کرنے کا سوچ رہا ہوں‘‘ یہ پیش رفت بروقت اور درست ہے‘ بلوچستان کے ناراض لوگ بھی ہمارے جسم کا حصہ ہیں‘ ہمیں انھیں موقع دینا چاہیے اور ریاست یہ موقع دے کر عقل مندی کرے گی‘ یہ کوشش جنرل راحیل شریف کے دور میں 2015 میں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور کورکمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ کے ذریعے بھی ہوئی تھی۔

ڈاکٹر عبدالمالک نے لندن میں خان آف قلات آغا سلیمان دائود سے ملاقات کی اور براہمداغ بگٹی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا لیکن یہ کوشش بارآور نہیں ہو سکی تھی‘ اللہ کرے یہ اس بار کام یاب ہو جائے‘ یہ ایشو یکم جولائی کی سیکیورٹی بریفنگ میں بھی ڈسکس ہوا تھا اور سب نے اس پر اتفاق رائے کیا تھا۔سیکیورٹی بریفنگ کے دوران اس کے علاوہ چند دل چسپ واقعات بھی پیش آئے‘ مثلاًخواجہ آصف جیل سے رہائی کے بعد پہلی بڑی میٹنگ میں شریک ہوئے تھے‘ آرمی چیف نے انھیں دیکھ کر کہا ’’خواجہ صاحب آپ ماشاء اللہ فریش اور جوان دکھائی دے رہے ہیں‘ آپ اگر ایک دو مرتبہ مزید جیل سے ہو آئے تو آپ اٹھارہ سال کے ہو جائیں گے‘‘ خواجہ آصف نے فوراً دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔

میٹنگ میں چاروں وزراء اعلیٰ بھی شامل تھے لیکن وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے علاوہ تین وزراء اعلیٰ پوری میٹنگ کے دوران خاموش رہے‘ جام کمال نے بہت اچھی اور مدلل گفتگو کی‘ بریفنگ کے دوران فاٹا کا ذکر آیا تو عسکری قیادت نے کہا‘ آپ وزیراعلیٰ محمود خان سے پوچھیں فاٹا کا بجٹ ریلیز ہو چکا ہے تو پھر وہاں کام کیوں نہیں ہو رہا؟ شرکاء نے کے پی کے وزیراعلیٰ کی کرسی کی طرف دیکھا تو وہ خالی تھی‘ وزیراعلیٰ میٹنگ کے دوران خاموشی سے کھسک گئے تھے اور یہ اس کے بعد واپس نہیں آئے تھے۔

سندھ کے بارے میں بتایا گیا کراچی میں طالبان کے لواحقین اور دوستوں نے اڑھائی سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے‘ وزیراعلیٰ سندھ اس حقیقت سے واقف ہیں لیکن یہ کارروائی نہیں کر رہے‘ تمام شرکاء نے سید مراد علی شاہ کی طرف دیکھا‘یہ بھی خاموش رہے‘ مولانا فضل الرحمن کے صاحب زادے اسعد محمود اور اے این پی کے امیر حیدر خان ہوتی دونوں مکمل تیاری کر کے آئے تھے اور دونوں نے خوب صورت اور ٹو دی پوائنٹ گفتگو کی‘ اسعد محمود کا موقف پی ڈی ایم سے بالکل مختلف تھا۔

انھوں نے فوج کے کردار کو سراہا بھی اور یہ بھی کہا‘ ہماری نظر میں کوئی گڈ اور بیڈ نہیں ‘ آپ ملک کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائیں‘ بلاول بھٹو نے علی وزیر کی سفارش کی‘ عسکری قیادت نے جواب دیا‘ ہم روز سرحدوں سے دس شہداء کی لاشیں اٹھاتے ہیں‘ آپ بے شک ہمیں گالی دے دیں‘ ہم برداشت کرنا سیکھ گئے ہیں لیکن کوئی فوج کو گالی دے ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے‘ آپ لوگ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں‘ آپ حکومت سے بات کریں اور علی وزیر کے لیے رعایت لے لیں لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو علی وزیر وہیں کھڑے ہو کر اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور فوج سے معافی مانگے جہاں اس نے فوجی جوانوں کے بارے میں غلط الفاظ کہے تھے۔

محسن داوڑ نے ایک گھنٹہ تقریر کی‘ یہ خاموش ہوئے تو آرمی چیف نے کہا‘ آپ یہاں موجود تمام لوگوں کو بتائیں میں آپ اور منظور پشتین کو ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر لایا تھا‘ آپ ہم سے ملتے بھی رہتے ہیں اور میں نے آپ کو دعوت بھی دی تھی‘ آپ ہمارے پاس آتے رہا کریں‘ ہمارے ساتھ چائے پیا کریں‘ آپ ہمارا’’فلیش اینڈ بلڈ‘‘ ہیں‘ یہ بات سن کر محسن داوڑ خاموش رہے جب کہ شرکاء حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

افغانستان کی صورت حال بھی بتائی گئی اور اس کے بعد لیڈرز سے کہا گیا‘ آپ ہمیں گائیڈ کریں‘ آپ پالیسی بنائیں‘ ہمیں اس صورت حال میں کیا کرنا چاہیے لیکن 90 فیصد لیڈرز تیاری کے بغیر آئے تھے اور ان کے پاس کوئی سلوشن نہیں تھاتاہم سینیٹر مشاہد حسین سید نے آرمی چیف سے کہا ’’آپ ن لیگ پر ہتھ ہولا رکھیں‘‘ آرمی چیف کا جواب تھا’’ ہم اسٹیٹ کے نمایندے ہیں‘ ہم ہر وزیراعظم کا ساتھ دیتے ہیں‘ ہم میاں نواز شریف کے احکامات بھی مانتے تھے اور شاہد خاقان عباسی کے بھی اور آج عمران خان وزیراعظم ہیں‘ ہم ان کے ساتھ بھی ہیں‘کل کوئی اور ہوگا تو ہم اس کے ساتھ بھی ہوں گے‘ ہمارا رول بس اتنا ہے۔‘‘

مجھے کل میٹنگ میں موجود ایک خاتون ممبر نے بتایا ’’میں جنرلز کی تیاری اور ہوم ورک پر حیران رہ گئی جب کہ ہماری ساری سیاسی لیڈر شپ بے ربط اور لایعنی گفتگو کرتی رہی‘ مجھے ان حالات نے مکمل مایوس کر دیا‘ میں شدید ڈپریشن کے عالم میں وہاں سے اٹھی‘‘میں نے ان سے عرض کیا ’’ہمارا یہی المیہ ہے‘ ہمارے جنرلز ہمارے لیڈرز سے زیادہ پڑھتے اور زیادہ سوچتے ہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں