کراچی کے مختلف علاقوں قائد آباد میں گلستان سینماء، کورنگی میں زینت اور نسیم سینماء، لیاقت آباد میں وینس سینماء، ناظم آباد میں مسرت سینماء، گارڈن کے اطراف میں نشیمن افشاں اور رینو سینماء، لی مارکیٹ کے اطراف راکسی و کمار سینماء، الیکٹرونک مارکیٹ صدر کے قریب اسکا لا سینماء، نیو کراچی میں صباء سینماء سمیت اسمارٹ سینماء گھروں کے سینکڑوں ملازمین فاقہ کشی کا شکار ہو گئے۔ سینکڑوں ملازمین کے ہزاروں اہل خانہ بھوک سے بلبلا اٹھے۔ لاک ڈاؤن صرف اور صرف سینماء گھروں میں باقی تمام دنیا کا کاروبار دن بھر جاری ہے۔ گاڑیاں مسافروں سے بھری پڑی ہیں۔ صرف کراچی کے بچے کچے سینماء گھر لاک ڈاؤن کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔ حکومت فوری نظر ثانی کرنے اور سینماء گھروں کو بھی رات 8بجے تک دو شو چلانے کی اجازت دے۔ غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے سینماء ملازمین کو جینے کا حق دیا جائے۔ کیا سینماء ملازمین پتھر کے بنے انسان ہیں۔ جب ہر قسم کا کاروبار ہو سکتا ہے۔ تمام ٹرانسپورٹ چل سکتی ہیں۔ شادی ہالز میں ہزار اور پانچ سو، تین سو افراد کی تقریبات ہو سکتی ہیں۔ تو سینماء گھر جہاں بمشکل 100، ڈیڑھ سو شائقین ہوتے ہیں۔ 900سیٹوں کا سینماء گھر ویران نظر آتا ہے تو سینماء گھر کیوں نہیں کھل سکتے؟ کراچی میں سینماء گھر دن بدن ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ 20سال سے نائٹ شو نہ ہو سکے، سینماء کاروبار پہلے ہی تباہی کا شکار ہے۔ اب لاک ڈاؤن سے سینماء گھر ملازمین بھوک سے مرنے جا رہے ہیں۔ حکومت سندھ فوری توجہ دے اور سینماء ملازمین کو فاقہ کشی، بھوک اور اجتماعی خود کشی کی سوچ سے بچائے۔ سینماء گھر مالکان اور سینماء ملازمین کو بھی جینے کا اور روزگار کمانے کا حق دیا جائے۔ سینماء گھروں کو فوری طور پر دو شو چلانے کی اجازت دے کر سینماء ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو بھوک اور فاقہ کشی سے بچایا جائے۔
