shartiya meetha | Imran Junior

کراچی کا نوحہ

علی عمران جونیئر

دوستو،ہمارے حساب سے تو کراچی کی آبادی تین کروڑ سے زائد ہے لیکن تازہ مردم شماری کرنے والوں نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی کی آبادی ایک کروڑ اکسٹھ لاکھ ہے، یعنی حیدرآباد سے صرف تیس لاکھ زائد، کراچی اور حیدرآباد کا رقبہ دیکھ لیں، آبادیاں دیکھ لیں، معلوم نہیں ، مردم شماری کرنے والوں نے کون سے کراچی کی مردم شماری کرڈالی؟؟کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ اور منی پاکستان ہے، اس شہر سے پاکستان کا 70 فیصد ریونیو اکٹھا ہوتا ہے، اور سندھ کا پچانوے فیصدخرچہ یہی شہر اٹھاتا ہے، ایک لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کراچی ہی پاکستان ہے اور کراچی کے بغیر پاکستان کی ریاست کا پہیہ نہیں چل سکتا۔ باباجی فرماتے ہیں کہ کراچی چلتا ہے تو پاکستان پلتا ہے۔ کراچی کا دل سمندر کی طرح وسیع ہے جو بھی آیا جہاں سے بھی آیا کراچی نے اپنی بانہیں کھول کر اس کا استقبال کیا۔ کراچی میں تمام صوبوں اور قوموں کے لوگ آباد ہیں۔ اس شہر سے کروڑوں پاکستانیوں کی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔کم و بیش ہر حکمران نے کراچی کو اپنے ذاتی سیاسی گروہی اور جماعتی مفادات کے لیے استعمال کیا جبکہ اس شہر کی منصوبہ بندی اور ماسٹر پلان پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ کراچی میں آج بھی 7000 کچی آبادیاں ہیں جو سابق حکمرانوں کی نااہلی اور بدنیتی کا ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت ہیں۔کراچی شہرا سٹریٹ کرائمز ،بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ ،بوری بند لاشوں کی وجہ سے جانا اور پہچانا جانے لگا تھا۔ہمیں پنجاب میں دوست دہشت گرد ہونے کا طعنہ دیا کرتے تھے۔

اس شہر کی بے بسی ایدھی سینٹر والوں کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتی ہے۔ سال 2022 کے دوران کراچی میں 780شہری ٹریفک حادثات میں جاں بحق اور 9ہزار 725شہری ٹریفک حادثات میں زخمی ہوئے۔رپورٹ کے مطابق سال گزشتہ 540شہری فائرنگ کے واقعات میں مارے گئے جبکہ فائرنگ کے مختلف واقعات میں 2465افراد زخمی بھی ہوئے۔ایدھی ویلفیئر کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال2022میں شہر بھر سے 220شہریوں کی تشدد زدہ لاشیں ملیں،260افراد ندی نالوں اور سمندر میں ڈوبنے سے جاں بحق ہوئے۔ترجمان کے مطابق مختلف علاقوں سے 290نومولود بچوں کی لاوارث لاشیں ملیں، اس کے علاوہ 124شہری کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوئے۔

کراچی روشنیوں کا شہر تھا یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں چند دہائیاں پیچھے کی بات ہے۔ وسائل کم تھے لیکن امن و امان تھا، سکون تھا۔ لیکن چند دہائیوں سے کراچی پیچھے کی طرف جارہا ہے، یہ اب روشنیوں کا شہر نہیں رہا، لوڈشیڈنگ نے سردیوں میں بھی کراچی والوں کا پیچھا نہیں چھوڑا، بجلی کے بلوں میں رقوم اور ٹیکس بڑھتے جارہے ہیں جبکہ ہر وقت آدھا شہر اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے،گیس کا بحران بھی ایسا ہے کہ رمضان المبارک میں سحرو افطار کے وقت گیس ناپید ہوتی تھی۔اسے پاکستان کا دل کہا جاتا ہے آج لاوارث ہے، کراچی جو پاکستان کا ایک بڑا شہر ہے اس کے لیے کوئی ’’سرپرست‘‘ نہیں جو جیسا چاہتا ہے اپنے مفاد کے مطابق کام چلا رہا ہے ۔یہ شہر جو اپنے اندر تمام قومیتوں اور زبانوں کو سمیٹے ہوئے ہے، اس کے لیے بلاتعصب و بغض کے کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا اور اس کے امن و امان اور یہاں کے رہنے والوں کے تحفظ کے لیے کوئی تو نگہبان اور سرپرست ہو، یہی وجوہات ہیں جو کراچی اور کراچی والے مسائل کا شکار ہیں اور دن بدن اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔یوں لگتا ہے کہ لاقانونیت کا راج ہے،شہر کی کوئی گلی، محلہ، سڑک اسٹریٹ کرمنلز سے محفوظ نہیں رہا، آپ گھر کے دروازے پر لوٹ لیے جاتے ہیں۔ جرائم میں اضافہ مسلسل ہورہا ہے، تمام محکمے من مانی کررہے ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے گاڑیوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی مریض بنادیا ہے۔ بچوں بڑوں ہرایک کا گھر سے نکلنا دشوار ہوگیا ہے ۔ آئے دن کے پیش آنے والے ان ناگوار واقعات نے عوام الناس کو نفسیاتی عارضوں میں مبتلا کردیا ہے۔

ہمارے پیارے دوست نے کراچی کے حوالے سے یہ ایک تحریر بھیجی ہے۔۔کراچی وحشتوں کا شہر ہے، یہاں اب ون وے ڈرائیونگ کوئی جرم نہیں، ملک بھر سے گداگر ہر گلی، ہر سڑک، ہربازار پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔سارے فٹ پاتھ پر ایک چھوٹی سی دکان کا مالک پچاس کرسیاں رکھ کے دیسی بن کباب اور چائے پراٹھا بیچتا ہے۔یہاں لاکھوں بغیر رجسٹریشن کے رکشے بھتہ دے کر روڈ پر دس دس مسافروں کو منی بس کی طرح چلاتے ہیں۔پچاس ساٹھ لاکھ لوگوں نے بغیر زمین خریدے مکان بنا لیے ہیں اور اس میں کرائے پر چلانے کے لیے دکانیں بنا لی ہیں۔یہاں اب کمرشل گاڑیوں کی کوئی فٹنس نہیں ہوتی۔اس شہر میں پانچ ہزار ایسے ڈمپر چلتے ہیں جن پر کوئی رجسٹریشن نمبر نہیں ہوتا ان ڈمپرز کو کبھی ٹریفک پولیس اہلکار نہیں روکتے۔کار اور موٹر سائیکل والوں پر چالان اور بھتہ دونوں نافذ ہیں۔یہاں دس لاکھ سے زیادہ افغانی گلی گلی ٹرائی وہیلر پر کچرا اٹھاتے ہیں اور پیسے ہر گھر سے لیتے ہیں کیونکہ بلدیہ اب مین روڈ سے کچرا اٹھاتی ہے جہاں یہ افغانی ڈمپ کرتے ہیں۔یہاں مقامی اور غیر مقامی ہزاروں لوگ اسلحہ لے کر عورتوں اور مردوں سے موبائل فون اور نقدی چھینتے ہیں کبھی پکڑے جائیں تو جلد ضمانت پر واپس آکر پھر لوٹتے ہیں۔یہاں ہر روڈ پر مغرب سے پہلے موبائل آتی ہیں اور ہر ٹھیلے والے سے روزانہ ایک طے شدہ رقم وصول کرتی ہے اور اس کے عوض انہیں آدھا روڈ کور کرکے ٹھیلا لگانے کی اجازت ہوتی ہے۔آپ کو غیر قانونی روڈ کٹنگ کروانی ہو پانی کا ناجائز کنکشن چاہئے تو آپ ایسے لوگوں سے آسانی سے کرواسکتے ہیں جو متعلقہ محکموں کی اجازت کے بغیر یہ کام کرتے ہیں۔ اگر آپ نے مکان کی تعمیر شروع کی ہے تو علاقے کی موبائل اتنی جلدی آپ کے پلاٹ پر آتی ہے کہ آپ کی تعمیر سے گلی میں گاڑیوں کو گزرنے میں تکلیف ہوگی لہٰذا آپ ان کا خیال رکھیں وہ آپ کو تنگ نہیں کریں گے۔یہ ہے ہمارا شہر، جس کی سڑکیں ہمارے بچپن میں دھلا کرتی تھیں، لیکن اب کچرے اور بہتے خون نے ان سڑکوں کو بھی اپنے اندر سمولیا ہے۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔نیچے گرنا ایک حادثہ ہے ، نیچے رہنا ایک مرضی ہے۔ خوش رہیں،خوشیاں بانٹیں۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں