رپورٹ : آغاخالد
مفتی تقی عثمانی حملہ کیس میں تفتیشی افسران کو عمران اور عسکری کی تلا ش ہے جو حملہ کے ماسٹر مائنڈ بتائے جاتے ہیں اور امکان غالب یہی ہے کہ دونوں مفرور پڑوسی ملک میں پناہ لے چکے ہیں جبکہ اب تک سات سے زائد لوگ اس حملے کے شبہ میں گرفتار کئے جاچکے ہیں جن سے سنسنی خیز معلومات حاصل ہوئی ہیں گرفتار شدگان میں مفتی تقی حملہ کیس کے تین ملزمان بھی شامل ہیں گرفتار شدگان سے تفتیش کے دوران ملنے والی معلومات پر ملکی ادارے حیران رہ گئے ہیں اور اسی سلسلے میں ایک بڑے ہوٹل کے انگریز جنرل منیجر کی تلاش میں ہوٹل پر چھاپہ مارا گیا اور کمرے کی تلاشی کے دوران چونکا دینے والی اشیا برآمد ہوئیں اب تک ملنے والی تفصیلات کے مطابق مفتی تقی حملہ کیس میں دو پڑوسی ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں اور ایم کیو ایم لندن کے ملوث ہونے کے بھی ثبوت ملے ہیں جس سے ایک اہم ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ اہم مذہبی شخصیت پر حملے کا مقصد ملک میں فرقہ ورانہ فسادات کرانا اور افرا تفری پیدا کرنا تھا اس لئے یہ تین ملک دشمن قوتوں کا مشترکہ آپریشن تھا ذرائع کے مطابق پاکستان سے اب تک شام او ر عراق میں لڑنے کیلئے فرقہ ورانہ بنیادوں پر جانے والوں کی تعداد دو سے ڈھائی ہزار ہے جبکہ ستر سے زائد واپس آنے والوں کو حراست میں لیکر ان سے تفتیش کی گئی اور متعدد اب بھی زیر حراست ہیں شام میں پاکستان سے جاکر لڑنے والے گروپ کو زینبیوں کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے اور ڈھائی ہزار کے قریب اب بھی پاکستانی شام میں موجود ہیں جو فرقہ ورانہ بنیادوں پر لڑائی کی زبردست تربیت حاصل کرچکے ہیں انہیں جدید اسلحہ استعمال کرنے کی بھی تربیت دی گئی اور لوگوں کو قتل کرکے ان کے حوصلہ بھی بلند ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے ان کی واپسی ملکی امن کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ ملکی ادارے ان پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں ذرائع کے مطابق شام میں افغانستان سے بھی پانچ ہزار سے زائد جنگجوں لڑنے کیلئے شام گئے جنہیں فاطمیون کہا جاتا ہے جبکہ عراق سے جانے والوں کی تعداد بارہ ہزار سے زائد ہے اور انہیں حیدری کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے پاکستان سے جانے والوں کی زیادہ تعداد پارہ چنارسے ہے تاہم کراچی اور ملک کے دیگر حصوں سے بھی جانے والوں کی تعداد کم نہیں حکومت نے ایسے تمام فرقہ ورانہ گروپوں کی لگامیں کھیچنے کا فیصلہ کیا تو ان گروپوں کی طرف بھی خصوصی توجہ دی گئی تاہم رہی سہی کثر مفتی تقی عثمانی پر حملے نے پوری کردی کیونکہ اس کے بعد تفتیشی اداروں کے سامنے جو خطرناک انکشافات ہوئے اس کے نتیجے میں ایسے جرائم پیشہ جنگجوؤں سے رابطے رکھنے والوں کو بھی معاف نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اوریہی وجہ ہے کہ ایسے رابطوں کے تعلق پر دو صحافیوں مطلوب موسوی اور مبشر علی کی گرفتاری عمل میں آئی جبکہ ایسے مزید عناصر کو بھی حراست میں لیا جاسکتا ہے ذرائع کے مطابق ملک میں فرقہ ورانہ فسادات کیلئے جہاں ایک سامراجی قوت اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پڑوسی ملکوں کے تعاون سے دہشت گردی کروارہی تھی وہیں پاکستانیوں کو استعمال کرکے پڑوسی ملکوں کو ہم سے بدظن کرنا اس کا اہم مشن تھا جس کے تانے بانے فرار ہوجانے والے بڑے ہوٹل کے جی ایم کے کمرے کی تلاشی کے دوران ملے جبکہ یہ سامراجی قوت اس حد تک اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوگئی تھی کہ دو پڑوسی ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں نے بھی پاکستان میں جوابی وار کے لئے اپنے ایجنٹ اتار دیے تھے اور ایک مضبوط نیٹ ورک بھی قائم کرلیا تھا جسے ہمارے ملکی ادارے توڑنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں ۔
(کراچی کے سینئرصحافی آغاخالد کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن سے میں نے خبر بنانا سیکھی،ساتھ ہی انہیں صحافتی حلقوں میں ایک باخبر رپورٹر کے طور پر پہچانا جاتا ہے ۔۔ ہم پیار میں انہیں چیف صاحب کہتے ہیں۔۔ زیرنظر تحریر ان کی وال سے لی گئی ہے جس میں انہوں نے کراچی سے اغوا ہونے والے دو صحافیوں کے بارے میں بھی کچھ اہم اطلاعات شیئر کی گئی ہیں۔۔ اس تحریر سے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔قارئین کی دلچسپی کے لئے چیف صاحب کے شکریہ کے ساتھ اسے شائع کررہے ہیں۔۔علی عمران جونیئر)