علی عمران جونیئر
دوستو،تازہ خبر کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑے شہر کراچی رہائش کے اعتبار سے دنیا کے بدترین شہروں میں شامل ہوگیا۔عالمی جریدے دی اکانومسٹ کے اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) کی شہروں کے حوالے سے جاری انڈیکس 2023 کے مطابق کراچی کا شمار رہائش کے اعتبار سے دنیا کے بدترین شہروں میں ہوتا ہے۔ کراچی کے بعد فہرست میں صرف الجزائر، لاگوس، لیبیا کا دارالحکومت تریپولی اور شام کا دارالحکومت دمشق شامل ہیں۔ای آئی یو کے گلوبل لیوایبلٹی انڈیکس 2023 میں 173 شہروں میں کراچی کا نمبر 169 ہے۔ کراچی انڈیکس میں شامل پاکستان کا واحد شہر ہے۔شہروں کی رینکنگ استحکام، نظام صحت، کلچر، ماحولیات، تعلیم اور انفراسٹکچرکی بنیاد پر کی جاتی ہے اورشہروں کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک سے 100 تک کا اسکور دیا جاتا ہے۔ ایک کو ناقابل برداشت جبکہ 100 کو مثالی سمجھا جاتا ہے۔شہروں میں رہنے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سے 100 تک کا اسکور دیا جاتا ہے۔ ایک کو ناقابل برداشت سمجھا جاتا ہے اور 100 کو مثالی سمجھا جاتا ہے۔کراچی کا 100 میں سے مجموعی اسکور 42.5 رہا جو ایک مثالی ا سکور سے کم ہے۔ کراچی کو سب سے کم 20 نمبر استحکام کے ملے جبکہ نظام صحت کے حوالے سے 50، کلچر اور ماحولیات پر 38.7، تعلیم پر 75 اور انفرا اسٹرکچر پر 51.8 اسکور ملا ہے۔دنیا کے سب سے زیادہ رہائش کے قابل شہروں میں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کا پہلا نمبر ہے جبکہ ڈنمارک کا دارالحکومت کوپن ہیگن دوسرے اور آسٹریلیا کا شہر میلبرن تیسرے نمبر پر ہے۔
ہمیں لگتا ہے یہ سروے والے گھر بیٹھے جو مرضی چاہے چھاپ دیتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے ایک جرمن ادارے کی ریسرچ نے پاکستانی قوم کو چونکا کررکھ دیا۔لیکن ہمیں اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی دنیا میں سب سے زیادہ چرس استعمال کرنے والے شہروں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ اس فہرست میں امریکہ کا شہر نیو یارک پہلے نمبر پر ہے۔جرمن کمپنی اے بی سی ڈی کی تحقیق کے مطابق نیو یارک میں سالانہ 77 ٹن سے زائد چرس استعمال کی جاتی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر کراچی آتا ہے جہاں 42 ٹن چرس پھونکی جاتی ہے۔ انڈین دارالحکومت نئی دہلی میں 38 ٹن سے زائد چرس پی جاتی ہے۔اے بی سی ڈی، دنیا میں چرس کو قانونی حیثیت دلانے کے حوالے سے جاری ایک مہم کا حصہ ہے۔کینابس درحقیقت پودوں کی ایک قسم ہے جسے دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں اس کے پتوں کو جلا کر پھونکا جاتا ہے جبکہ برِصغیر میں اس کے پتوں سے چرس بنا کر استعمال کی جاتی ہے۔
کراچی، دلی کی طرح کئی بار اجڑا، اور بدستور اجاڑا جا رہا ہے۔ گو کہ کراچی کو بجا طور پر منی پاکستان کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ منی پاکستان اس قدر لاوارث ہے کہ اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کراچی کے قدیم باشندوں کی باتیں سنو تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ ہمارا شہر تو پاکستان کے ابتدائی برسوں ہی سے کمائوپوت رہا ہے، قومی آمدنی میں سب سے زیادہ پیسہ کراچی سے آتا ہے، بقول معاشی تجزیہ کاروں کے کہ، کراچی چلتا ہے تو پاکستان پلتا ہے۔اس شہر کی مردم شماری ہی ایمانداری سے نہیں کی گئی تو وسائل کی منصفانہ تقسیم کس طرح ممکن ہے۔ہمارا دعویٰ ہے کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ سے کم نہیں، لیکن 2017کی آخری مردم شماری میں کراچی کی آبادی صرف 14.97ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ کے قریب ظاہر کی گئی ہے۔ اب ظاہر ہے وفاق سے کراچی کو جو حصہ ملتا ہے وہ ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے لیے ہی ہوتا ہے، جسے تین کروڑ لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اسی لیے کراچی کے شہریوں کو بجلی پوری ملتی ہے، نہ پانی اور نہ گیس۔یہاں کے شہری پینے کا پینے خریدتے ہیں، ویسے ہی جیسے دودھ خریدتے ہیں، سارا سارا دن باہر جان مار کر گھر کو لوٹنے والے طویل راستوں سے ہو کر گزرتے ہیں تو یونہی ان کا سفر اتنا طے ہوجاتا ہے جتنا عموماً ایک سے دوسرے شہر تک کے لیے کوئی کرے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں پورے ملک سے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں اور کہنے والے کہتے ہیں اس غریب پرور شہر میں کوئی بھوکا نہیں سوتا، یہاں کی ہوا مہربان ہے اور یہاں کے مکین کشادہ دل۔ملک میں بڑے خیراتی اداروں کی ابتدا کراچی سے ہوئی۔مولانا ایدھی نے کراچی سے ہی دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کا آغاز کیا،پھر رمضان چھیپا میدان میں آئے، شہر میں کوئی حادثہ یا واقعہ ہوجائے، دس ایمبولینس موقع پر موجود ہوتی ہیں۔ سیلانی سمیت کئی مخیر اداروں کے دسترخوان روزانہ لاکھوں غریبوں کا پیٹ بھرتے ہیں، تین ٹائم کا کھانا بلاجھجک ان دسترخوانوں پر بغیر کسی روک ٹوک مل جاتا ہے۔رمضان المبارک میں مجال ہے کسی کا روزہ مکروہ ہوجائے، سڑکوں،چوراہوں پر دنیا بھر کی چیزیں افطار میں دستیاب ہوتی ہیںاور نوجوان لڑکے زبردستی افطار کی دعوت دے کر روکتے ہیں۔
کراچی میں کوئی سرکاری ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں،جو بسیں،وین یا کوچز چلتی ہیں سب نجی بنیادوں پر۔اسی لیے ماضی میں جب بھی کوئی تنظیم ہڑتال کا اعلان کرتی ہے تو سب سے پہلے ٹرانسپورٹرز کو دھمکایاجاتا ہے کہ گاڑیاں سڑکوں پر نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔اعلیٰ عدلیہ نے چنگ چی چلانے کی اجازت بھی دے دی ہے، جس سے جہاں بہت سے لوگوں کو شکایت ہے وہیں یہ سواری اکثریت کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ چنگ چی کے حوالے سے ایک واقعہ بھی سن لیجیے۔چنگ چی ایسی سواری ہے جس میں آگے موٹرسائیکل لگی ہوتی ہے پیچھے کیبن نما ڈھانچے میں چھ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے، چنگ چی کا ڈرائیور ساتویں سواری کو اپنے پیچھے بٹھالیتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوٹ کماسکے۔چنگ چی والے گاڑی کو بھگاتے بھی ”نائٹ رائیڈر” کی کار کی طرح ہوتے ہیں۔اندھادھند تیزرفتاری میں جب وہ کسی کھڈے میں چنگ چی کو مارتے ہیں تو پیچھے بیٹھی سواریوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں، اور کبھی غلطی سے اچانک ڈرائیور بریک ماردے تو پھر ڈرائیور کی ”چیخ ” نکل جاتی ہے۔کیونکہ ساتویں سواری بالکل اس سے جڑ کے جو بیٹھی ہوتی ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔شکر ہے جانوروں میں کھانا پکانے کا رواج نہیں، ورنہ ہاتھیوں کے خاندان کی بہو تو روٹیاں پکا پکا کر مر جاتی۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔