کراچی کی سیاسی طاقت سبوتاژ کر دی گئی ،ایسے ’سافٹ ویئر‘ بنائے گئے کہ اس الیکشن میں کراچی سے وہ حساسیت اور مرکزیت وابستہ نظر نہیں آتی، اس شہر کے دل جیتنے کے مواقع کس جماعت کے پاس ہیں ۔۔؟سینئر صحافی و کالم نگار محمود شام نے بتا دیا ۔محمود شام نے “جنگ ” میں شائع ہونیوالے اپنے تازہ کالم میں لکھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اب تک مواقع گنوا رہی ہےسب سے زیادہ امکانات اس پارٹی کیلئے تھے اور ہیں لیکن اس کیلئے منظم کوششیں نہیں رہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ میں شگاف ڈالنے والوں نے شگاف بھرے ہیں لیکن بند پہلے کی طرح مضبوط نہیں ہے ۔ قومیں آگے بڑھتی ہیں۔لیکن ہمیں اپنے رہنماؤں کی تقریریں پیچھے لے جاتی ہیں۔مستقبل اتنے بے حساب امکانات لیے ہمیں قدم بڑھانے کی دعوت دے رہا ہے۔ لیکن ہمیں سردی کا اتنا خوف ہے کہ اپنے ماضی کے کمبلوں سے نکلنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ہمیں ریاست بھی ماضی میں لے جانے پر مصر ہے اور میڈیا بھی۔ ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہم نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ماضی میں ہی محصور رہنا چاہتے ہیں۔ سبق سیکھ کر تو ہمیں قدم بڑھانے ہوں گے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ آج 2024 کے الیکشن میں صرف 13دن رہ گئے ہیں۔ ہر الیکشن میں شہر قائد اور پاکستان کے پہلے دارُالحکومت کراچی کا ایک مرکزی کردار ہوتا تھا۔ قومی سیاسی جماعتوں کو ہی نہیں مقتدر قوتوں کو بھی کراچی سے اندیشہ ہائے دور دراز ہوتے تھے۔ اسی لیے گزشتہ 2دہائیوں میں مل جل کر ایسے منصوبے اور آج کی اصطلاح میں ایسے ’سافٹ ویئر‘ بنائے گئے کہ اس الیکشن میں کراچی سے وہ حساسیت اور مرکزیت وابستہ نظر نہیں آتی۔ کراچی اب کسی ایک کا نہیں رہا ہے۔ کراچی کے 22قومی انتخابی حلقوں کیلئے 581امیدوار میدان میں ہیں۔ کراچی کے 7 اضلاع، جنوبی، شرقی، غربی، سینٹرل، ملیر، کورنگی اور کیماڑی میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ اگرچہ ماضی کی انتخابی معرکوں کی طرح کا جوش و خروش نظر نہیں آتا ہے۔ کراچی کی حیثیت اگرچہ استنبول، بمبئی، نیو یارک، مانچسٹر کی طرح ہی ہے لیکن مسلسل کوششوں کے ذریعے اس کی سیاسی اور سماجی حیثیت کم کی گئی ۔بلدیاتی اداروں سے اختیار چھینے گئے انکے انتخابات تسلسل سے نہیں ہوئے۔ پہلے لالو کھیت میں یہ قوت تھی کہ وہ مرکزی حکومت بدل دیتا تھا۔ پھر انتخابی قوت سے 1988سے 2008تک کے عرصے میں اسلام آباد میں اقتدار کی چابی کراچی کے پاس رہی۔ وزیر اعظم 90 پر حاضری کے بعد ہی حلف اٹھانے کی پوزیشن میں آتا تھا کراچی اقتصادی، ابلاغی، تہذیبی طور پر تو دارُالحکومت اب بھی ہے۔ لیکن اس کی سیاسی طاقت سبوتاژ کر دی گئی ہے۔