دوستو، خبرکے مطابق کورونا وائرس پھیلنے کے بعد سے سائنسدان ایسی ٹیسٹنگ کٹ تیار کرنے کے لیے جتن کر رہے ہیں جس سے ایک طرف تیزی کے ساتھ ٹیسٹ ہو سکیں اور دوسرے اس کے نتائج حتمی ہوں۔ آئی ٹی ماہرین بھی اس حوالے سے اپنی کاوشیں کر رہے ہیں اور اب امریکہ کی یونیورسٹی آف اوٹاہ کے ماہرین نے اس حوالے سے ایک ایسی اختراعی ڈیوائس تیار کرنے کا اعلان کر دیا ہے کہ جس کے ذریعے آپ گھر بیٹھے چند سیکنڈز میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ کر سکیں گے اور وہ بھی صرف اپنے ا سمارٹ فون کو بروئے کار لاتے ہوئے۔ یونیورسٹی آف اوٹاہ کے ماہرین نے یہ ڈیوائس دراصل 2016ء میں تیار کی تھی جس کا مقصد اس وقت دنیا میں پھیلنے والی ’ذکا‘ نامی بیماری کا ٹیسٹ کرنا تھا۔ اب اس سافٹ ویئر کے پراجیکٹ لیڈر کا کہنا ہے کہ وہ اس کے سافٹ ویئر میں کچھ ایسی تبدیلیاں لا رہے ہیں کہ اس سے کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیا جا سکے۔ یہ سافٹ ویئر ایسا ہے کہ آپ اپنے فون کی اسکرین پر چھینک ماریں یا کھانسیں گے تو اس میں لگا سنسر اسکرین پر لگنے والے وائرسز اور بیکٹیریا کا تجزیہ کرکے آپ کو بتا دے گا کہ آپ میں کورونا وائرس موجود ہے یا نہیں۔پراجیکٹ لیڈر کے مطابق یہ ڈیوائس صرف 60سیکنڈ میں کورونا ٹیسٹ کے نتائج دے گی۔ انہوں نے اس کی تیاری کے متعلق بتایا کہ آئندہ تین مہینوں کے اندر یہ ایپلی کیشن تیار ہو جائے گی اور لوگوں کو دستیاب ہو گی۔ اس کی قیمت ممکنہ طور پر 45پاؤنڈ (تقریباً 8ہزار 700روپے)ہو گی۔یہ ڈیوائس ایک سکے کے سائز کی ہو گی جسے بلیو ٹوتھ کے ذریعے سمارٹ فون سے منسلک کیا جائے گا اور فون کی اسکرین پر کھانس کر، چھینک کریا تیز سانس مار کر کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیا جا سکے گا۔
بات کورونا کی چلی ہے تو چین کے بعد ایک اور ملک بھی کورونا وائرس پر قابو پانے والوں میں شامل ہوگیا۔تھائی لینڈ کورونا پرقابو پانے والا دوسرا ملک بن گیا ہے جہاں 9مارچ کے بعد کورونا کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔تھائی لینڈ میں کورونا متاثرین کی مجموعی تعداد
3017 اور 56 ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں۔حکومت کا کہنا ہے کہ کورونا کا کیس رپورٹ نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ حالات قابو میں ہیں بلکہ کورونا کی دوسری لہر اس سے بھی تباہ کن ہو سکتی ہے۔حکومت کی جانب سے کاروباری پابندیاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔دو دن بعد شاپنگ مالز بھی کھول دیے جائیں گے۔
امیر ہونا ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے لیکن کامیابی چند ایک ہی کو ملتی ہے، تو آخر وہ کون سی عادات ہوتی ہیں جو لوگوں کو امارت کی منزل تک پہنچاتی ہیں؟ سینکڑوں امراء کے انٹرویوز کرنے والی مصنف کیتھ کیمرون اسمتھ نے اپنی نئی کتاب میں امراء کی چار ایسی عادات بتا دی ہیں جنہیں اپنا کر آپ بھی امارت کی منزل تک پہنچنے کے سفر کا آغاز کر سکتے ہیں۔ کیتھ کیمرون لکھتی ہیں کہ دنیا کے امراء میں پہلی مشترک عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ چیزوں پر نہیں بلکہ آئیڈیاز پر سوچتے ہیں۔ ان لوگوں کو بھی گاڑیاں، فلمیں اور دیگر ایسی چیزیں پسند ہوتی ہیں اور وہ ان کے متعلق بھی سوچتے ہیں لیکن یہ لوگ زیادہ تر اپنی توجہ مستقبل سے متعلق آئیڈیاز پر مرکوز رکھتے ہیں اور حال پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ یہ لوگ تخلیقی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں اور زیادہ وقت نئے آئیڈیاز سوچنے پر صرف کرتے ہیں، جو انہیں ترقی کی منزل سے ہمکنار کرتے ہیں۔ کیتھ کیمرون لکھتی ہے کہ امراء کی دوسری عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ کاروبار میں بلاسوچے سمجھے خطرات مول نہیں لیتے بلکہ وہ اچھی طرح سوچے سمجھے اور نپے تلے رسک لیتے ہیں۔ جو لوگ آگے نہیں بڑھ سکتے ان میں ایک بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ رسک لینے سے ڈرتے ہیں یا بغیر سوچے سمجھے رسک لیتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں۔ مڈل کلاس اور امراء میں ایک فرق یہ ہے کہ امراء رسک کے متعلق ڈر کو دل سے نکال دیتے ہیں جبکہ مڈل کلاس رسک کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہے۔امراء میں تیسری عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ سخی اور فیاض ہوتے ہیں۔ مڈل کلاس کے لوگ عموماً یقین رکھتے ہیں کہ وہ دوسروں کو دینے کی استطاعت نہیں رکھتے جبکہ امراء فیاضی کو لازمی امر گردانتے ہیں۔ یہ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ وہ پیسے کو ایک بیج کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ فیاضی برتیں گے تو جواب میں انہیں زیادہ رقم حاصل ہو گی۔کیتھ کیمرون کے مطابق امراء میں چوتھی مشترک عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ کبھی بھی آمدنی کے ایک ذریعے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ ایک وقت میں کئی ذرائع آمدن رکھتے ہیں۔ اگر ایک ذریعے سے انہیں نقصان ہو یا آمدنی بالکل ختم ہو جائے تو انہیں باقی ذرائع سے آمدنی ہوتی رہتی ہے اور ان کی مالی حالت زیادہ متاثر نہیں ہوتی۔ امراء مختلف ذرائع آمدن چلانے کے لیے دوسروں پر انحصار کرنا بھی خوب جانتے ہیں۔ امراء اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کوئی دوسرا نہ صرف ان کا کام کر سکتا ہے بلکہ ان سے بہتر کر سکتا ہے۔جو لوگ کاروبار میں دوسروں پر انحصار کرنے سے ڈرتے ہیں ان کو بھی امارت کی منزل تک پہنچنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس کی مثال آپ یہ لے سکتے ہیں کہ ایک ماہی گیر کے پاس ایک جال ہو اور دوسرے کے پاس پانچ، تو ان میں سے کون زیادہ مچھلیاں پکڑے گا؟اب یہ بات یہاں ناگزیر ہے کہ وہ ماہی گیر جس کے پاس پانچ جال ہیں اسے دیگر لوگوں پر انحصار اور بھروسہ کرنا ہو گا۔
باباجی فرماتے ہیں کہ۔۔بل گیٹس کروناویکسین کے ذریعے ہمارے جسموں میں چپ ڈال کر ہم سے سونگھ کرخربوزے کے میٹھا یا پھیکا ہونے والی ٹیکنالوجی حاصل کرنا چاہتا ہے۔۔ان کا مزید فرمانا ہے کہ۔۔ بہت جلد خواتین کورونا وائرس کے ساتھ ہی جینا سیکھ لیں گی، آخر اپنی ساسوں کے ساتھ بھی تو رہتی ہیں۔۔اسی بات کو ہمارے پیارے دوست نے آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ۔۔بہت جلد لوگ اس وائرس کے ساتھ ہی جینا سیکھ لیں گے،آخر لوگ بیویوں کے ساتھ بھی تو رہتے ہیں۔۔۔ہمارے پیارے دوست نے گزشتہ شب لگنے والی بیٹھک میں ہم سے بہت ہی عجیب سا سوال پوچھا، کہنے لگے۔۔ ہم نے افطار میں اپنے پڑوسی کو سالن بھیجا، انہوں نے جواباً ہمیں پکوڑے بھیجے۔۔ہم نے یہ پکوڑے اپنے دوسرے پڑوسی کو بھیج دیئے تو انہوں نے جواباً وہ سالن جو ہم نے پہلے پڑوسی کو بھیجا تھا وہ بھیج دیا۔۔اب بتائیں یہ افطار ہے یا منی لانڈرنگ؟؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔غلطی کرنا کامیابی کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے، میں نے اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے، اسی لئے سوچ رہاہوں تھوڑی اور کرلوں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
اتی۔