تحریر: آغاخالد۔۔
ملک کے مایہ ناز صحافی اور معروف ٹی وی میزبان کا دھماکہ،صحافت کے جدید اصلوب کو اپناکر روائتی حریفوں کی صفوں میں ہلچل مچادی، جیو میں “کامران خان شو” ملک کا سب سے مقبول نیوز پروگرام تھا مگر جیو سے نکل کر وہ گمنامیوں میں کیوں کھو گئے؟،کامران خان نے کہا، جب ان کا پروگرام شروع ہوتاہے تو میر ابراہیم کیبل سے میرا پروگرام غائب کروا دیتا ہے، دوہزار بارہ میں جیونیوز کو ملی دھمکیوں کے سبب اس کے دفاتر کے گرد سیکوریٹی کے سخت انتظامات کیے گئے مگر تلاشی لینے پر خان ناراض ہو کو گاڑی میں جا بیٹھے میر ابراہیم کو چوتھی منزل سے نیچے آکر انہیں منانا پڑا،وہ ہمیشہ اداروں کے لاڈلے رہے،اب وہ بھی حامد میر کی طرح انٹر نیشنل ہوگئے،انکل سام کی پشت پناہی، ملک ریاض کے وسائل اور ایک خان کی مقبولیت اور دوسرے خان کی ذہانت، دیکھنا ہے کہ یہ چرائیکا ملکی اداروں کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوتاہے یا ریت کی دیوار؟، ایک خاص وقت پر “نکتہ دانی” عام جام نہیں۔شطرنج کی یہ چال ملکی سیاست و صحافت میں کیا ہلچل مچاتی ہے اس کا فیصلہ جلد ہوجائے گا،
ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتاہے کچھ ایسا ہی ہمارے محترم خان (کامران خان) کے ساتھ بھی ہے جو جنگ گروپ کے انگریزی اخبار دہ نیوز سے چھلانگ مارکر الیکٹرونک میڈیا میں گئے اور پھر پورے ملک میں چھاگئے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اخباری صحافت میں گمنام تھے یہاں بھی وہ قد آور صحافی تھے اور دی نیوز اور جنگ میں چھپنے والی ان کی اسٹوریوں نے دھوم مچائی ہوئی تھی اور تب جنگ گروپ بھی اسٹبلشمنٹ کا حلیف ادارہ سمجھا جاتا تھا اور اسٹبلشمنٹ ملکی سیاست میں بھونچال لاکر حکومتوں پر دبائو بڑھانے یا انہیں گھر بھیجنے کے لیے بڑی خوب صورتی سے جنگ گروپ کا استعمال کرتی تھی میر شکیل الرحمان کے کامران خان بہت قریب سمجھے جاتے تھے اور ان دنوں کامران خان فخریہ میر صاحب کو اپنا استاد کہا کرتے تھے ترقی پذیرفتہ کے ساتھ دوست، اور پھر۔۔۔ان کے لیے یہ بھی مشہور ہوگیا تھا کہ وہ ایم ایس آر کے رشتہ دار یا سالے ہیں پھر ہمیشہ کی طرح ہوا کچھ یوں کہ طاقت کے شتر بے مہار گھوڑے پر مسلسل سواری کے سبب جنگ گروپ اور کامران خان کو الگ الگ یہ زعم پیدا ہوگیا کہ طاقت کاسر چشمہ ہم ہیں جہاں سے جنگ گروپ کی مشکلات اور کامران خان جیسے صحافت کے بادشاہ کا بیک وقت زوال شروع ہوا ایک چھوٹی سی بات جو سمجھنے کی تھی وہ صحافت کے دونوں بڑے کھلاڑی بھلا بیٹھے کہ جنگ گروپ کی کامیابی کے پیچھے اسٹبلشمنٹ کی قوت تھی اور کامران خان کی کامیابی میں بڑا حصہ میر شکیل الرحمان کی ذہانت کا تھا محترمی خان صاحب کے لیے اب بھی موقع ہے کہ وہ سنجیدگی سے سوچیں کہ جیو میں “کامران خان شو” اگر ان ہی کی وجہ سے ملک کا سب سے مقبول نیوز پروگرام تھا تو جیو سے نکل کر وہ گمنامیوں میں کیوں کھو گئے اور ان کا شو آخری درجہ کے پروگرامز کی فہرست میں کیو گنا جانے لگا تھا، کچھ ہی برس قبل کی بات ہے انہوں نے دنیا کی ڈسٹری بیوشن ٹیم کو طلب کرکے ان پر چڑھائی کردی کہ ان کی نااہلی کی وجہ سے ان کا “شو” ریٹنگ نہیں لے رہا اور انہوں نے زیادہ ہی غصہ میں کہاکہ انہیں معلوم ہے کہ جب ان کا پروگرام شروع ہوتاہے تو میر ابراہیم کے کہنے پر متعدد مقامات پر کیبل سے میرا پروگرام ہٹادیا جاتاہے اب جانے ایسی بے پرکی اطلاع انہیں کس نے دی تھی بہر صورت اس ڈسٹری بیوشن ٹیم میں کیبل کے بادشاہ کا بھائی بھی تھا جس نے برملا ان کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی تو خان صاحب نے الفاظ چباتے ہوے طنزیہ اس نوجواں سے سوال کیا تو پھر تمھارے خیال میں میرے پروگرام کی کم ریٹنگ کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اس نے بڑے ادب سے کہا جناب، شاہ زیب خانزادہ کے مقابل لوگ آپ کا پروگرام دیکھنا نہیں چاہتے، خان صاحب کو اس جواب کی توقع نہ تھی غصہ سے لال پیلے ہوکر اجلاس برخواست کردیا خان صاحب کے تکبر اور غصہ کا میں آنکھوں دیکھا گواہ بھی ہوں، ہوا کچھ یوں 15/2014 میں جنگ/جیو گروپ کو تخریب کاری کی دھمکی ملی جس سے پولیس اور اداروں کو آگاہ کیا گیا تو ان کے مشورہ پر دفاتر کے سامنے سیمنٹ کے بلاکس کی دیواروں کے ساتھ واک تھرو گیٹس بھی نصب کیے گئے اور نجی کمپنیوں کے گارڈز کی بڑی تعداد بھی تعینات کی گئی ہمارے ہاں زیادہ تر سیکوریٹی کمپنیاں ریٹائرڈ ‘خاص” افسران کی ہیں جن پر کوئی ملکی قانون لاگو نہیں ہوتا اس لیے ان کمپنیوں کی اکثریت نے ان پڑھ غیر تربیت یافتہ بے روزگار لوگ معمولی مشاہروں پر بھرتی کیے ہوتے ہیں بلکہ اکثر دوسرے علاقوں کے جرائم پیشہ بھی بھرتی ہوکر خطرناک وارداتیں کرتے رہتے ہیں مگر مضبوط پشت پناہی کے سبب ان سیکوریٹی کمپنیوں کا کبھی کچھ نہیں بگاڑا جاسکا ایسے ہی کچھ “بھائو” لوگ جنگ کو تحفظ فراہم کرنے والی اس کمپنی نے بھی بھرتی کر رکھے تھے اور ان کی ڈیوٹی واک تھرو گیٹ پر متعین تھی تاکہ گیٹ سے گزرنے والوں کی تلاشی اور ان پر نظر رکھی جاسکے وہ بیچارے کیا جانیں “کامران خان” کس بلا کا نام ہے رات کو خان صاحب پروگرام سے ایک آدھ گھنٹہ قبل دفتر آتے تھے سیکوریٹی کے نئے انتظامات کے بعد وہ پہلی دفعہ جیو کے دفتر آئے تو سیکورٹی نے انہیں روک کر ان کے بیگ کی تلاشی لینا چاہی، نک چڑھے خان صاحب کو یہ کیوں کر گوارا ہوسکتا تھا وہ بگڑ گئے آگ بگولہ کامران خان سادہ لوح عملے پر خوب گرجے انہیں بے نقط سنائیں اور پھر اپنا بیگ پکڑا اور واپس جانے کے لیے گاڑی میں جا بیٹھے اس وقت تک اوپر جیو کے دفاتر تک انتظامیہ کو خان صاحب کی ناراضگی کی خبر پہنچ چکی تھی وہاں ایسی ہڑبونگ مچی کہ بڑے بڑے سینیر افسر ننگے پیروں بھاگتے نیچے آئے اور خان صاحب کو منانے لگ گئے مگر خان کا پارہ 50 فارن ہائٹ پر تھا بالآخر میر ابرہیم کو خود آنا پڑا اور یوں اس روز کامران خان شو اپنے وقت معینہ پر ممکن ہوسکا لیکن اس کے بعد سے واک تھرو گیٹ پر تلاشی کا عمل بھی نہ ہونے کے برابر ہی رہ گیا اور واک تھرو گیٹ کے ساتھ ایک چھوٹا سا راستہ الگ سے سیمنٹ کے بلاکس ہٹاکر بنایا گیا جو دن بھر کرسی رکھ کر یا کسی بھی مصنوعی طریقہ سے بند رکھا جاتا مگر خان صاحب کی آمد سے پہلے اسے کھول دیاجاتا اور خان صاحب کی آمد جامد اسی خصوصی راستے سے ہوتی یہ تھے خان صاحب کے ناز جو میر شکیل الرحمان اٹھاتے تھے لیکن پھر بھی کامران خان نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا در اصل کامران خان شو کی بلا شرکت غیرے زبردست کامیابی اور برسوں نمبر 1 رہنے سے ان میں یہ زعم پیدا ہوگیا کہ ان کی ذات کامیابی کا منبع ہے اور انہوں نے اسٹبلشمنٹ کے بہکاوے میں آکر مینڈک نما ایک سیٹھ کے ساتھ مل کر جیو کے متبادل چینل کھڑا کرنے اور خود میر شکیل الرحمان بننے کی ٹھان لی ایسا کرنا کوئی بری بات نہیں ہر شخص کو ترقی کا حق ہے مگر اس میں گر رتی بھر بھی منافقت کی ملاوٹ ہوجائے تو زندگی بھر کے لیے بندہ ننگ خلق ہوکر رہ جاتاہے خان صاحب شاید کہ (اتر جائے تیرے دل میں میری بات) بول چینل کی تیاریاں آخری مراحل میں تھیں جب مینے کامران خان کو ایک سے زائدبار اس سیٹھ کے گھر یا اصلی “بڑے گھر” کے ارد گرد دیکھا تھا اور مینے یہ اطلاع جنگ جیو کی محبت میں ایک سے زائد بار ایم ایس آر کو بھی دی مگر میر صاحب بلا کا ظرف رکھتے ہیں ایسا کھلے دل کا شخص مینے اپنی 65 سالہ زندگی میں دوسرا نہیں پایا انہوں نے ہر بار متعدد سوالات کرکے اس کی تفصیلات تو جزئیات سے سنیں مگر کبھی خان صاحب کی شان کے خلاف کوئی تاثر نہ چھوڑا، اس وقت میری ںات درست میں درست ثابت ہوئی جب اربوں روپیہ کی لاگت سے ملک کے سب سے بڑا چینل ہونے کے دعوی کے ساتھ بول چینل کی افتتاحی تقریب میں خان صاحب کو ادارہ کا صدر بنآنے کا اعلان کیا گیا اور پھر بھاری تنخواہوں اور لمبی مراعات کے سہانے سپنے دکھاکر راتوں رات پورا “جیو” خالی کردیا گیا، اہم ادارتی اور انتظامی عملہ بول میں منتقل ہوگیا، یہ اتنا بڑا جھٹکا تھا کہ فولادی اعصاب کے مالک میر شکیل کی جگہ کوئی اور سیٹھ ہوتا تو خود کشی کرلیتا یا پاگل ہوجاتا اور پھر چند ہی برس میں خدائی کے دعوے مٹی کا ڈھیر ہوے اور بول چینل ڈوبنے لگا تو خان صاحب نے ان سب صحافیوں اور تکنیکی عملہ کو جو ان کے ایما پر جیو کی لگی لگائی روزی چھوڑ کر گئے تھے ڈوبتے جہاز میں چھوڑا اور خودچھلانگ مار کر محفوظ کشتی میں سوار ہوگئے مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ سفارش کھڑا تو کرسکتی ہے چلنا اپنے پائوں سے ہوتاہے۔۔۔ اگے تسی آپ سمجدار او ؟ جو لوگ بھی کامران خان کو اپنا آئڈیئل صحافی مانتے تھے اور ان کے ایک اشارہ پر جیو سے بول میں گئے ان پر کیا بیتی کبھی پلٹ کر خان نے نہیں پوچھا ان کے گھروں میں فاقے چل رہے ہیں کئی صدموں سے قبر کی مٹی بن گئے اور کئی آج بھی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں خیر چھوڑیں یہ سالے چھوٹے لوگ تو پیدا ہی سسک سسک کر مرنے کے لیے ہوتے ہیں دنیا تو کامران خان کو پہچانتی ہے اور خان نے پھر اسٹبلشمنٹ میں اپنے رابطے استعمال کرکے روزی کے نئے راستے بنالیے اور آج بھی وہ ماشااللہ سے ملک کے بڑے ٹی وی میزبانوں کی فہرست میں نمایاں مقام رکھتے ہیں دراصل کامران خان شروع دن سے اسٹبلشمنٹ کے بہت قریب تھے جس کا ثبوت پچھلے دنوں ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کا ایک سے زائد بار دیا گیا یہ بیان ہے کہ وہ ہمارے ہاں 500 سو ماہوار کے ملازم تھے اور اس بیان کو کئی سال گزرنے کے باوجود خان صاحب نے اس کی تردید نہیں کی انہیں معلوم ہے کہ تردید کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ انکشاف کرنے والوں کی زنبیل میں راز ہائے بستہ کی بڑی تعداد بمع ثبوتوں کے ہوگی سو خان صاحب جیسا ذہین بندہ ایسی غلطی کیسے کر سکتاہے اسی طرح ایک بار ایک بڑی سیاسی شخصیت کے کلفٹن پر واقع گھر سے کامران خان برآمد ہوے تو انتظار گاہ میں دیگر بہت سے لوگوں کے اس وقت کے مشہور پولیس افسر رائو انوار بھی بیٹھے تھے خان صاحب کو دیکھ کر رائو انوار تیزی سے ان کی طرف لپکے اور انہیں روک کر معانقہ کیا تو خان صاحب کا انداز بڑا سرد مہری کاسا تھا جس پر رائو سٹ پٹا کر اپنے سینے کو ہتھیلی سے تھپ تھپاتے ہوے فخر سے بولے ارے بھائی رائو انوار ہوں، خان صاحب نے بڑی لاپرواہی سے کہا، جی فرمائیے رائو پھر بولے یار ماضی کا ایس ایچ او رائو انوار، آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، خان صاحب یہ بول کر آگے بڑھ گئے، رائو پیچھے سے زوردار آواز سے بھناکر بولا کمال ہے یار طوطا چشمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، بھول گیا سب جب پھٹیچر اسکوٹر میں تیل بھی نہیں ہوتا تھا اور 20 روپیہ کے لیے دو دو گھنٹے ٹی پی ایکس تھانے میں میرا انتظار کرتا تھا مینے رائو کی پیٹھ تھپ تھپاتے ہوے اسے دلاسہ دیا اور کہا بھائی، اب وہ پاکستان کے سب سے بڑے چینل کے سب سے زیادہ مقبول پروگرام کے کامیاب اینکر ہیں،
ہماری اسٹبلشمنٹ بھی کامران خان کے بڑے ناز اٹھایا کرتی تھی 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو طاقت کے زعم میں وہ بھی مغل بادشاہوں کی طرح اپنے جاننے والوں پیاروں اور رفقاء میں ملکی اثاثے اور عہدے بانٹنے لگے ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر عبدالحق کو انہوں نے کراچی کے سب سے بڑے شہری ادارے کے ایم سی کا ایڈ منسٹریٹر لگادیا جنہوں نے آتے ہی زبردست قسم کی اکھاڑ پچھاڑ شروع کردی ان کے لیے مشہور ہوگیا کہ وہ کسی سفارش یادبائو کو خاطر میں نہیں لاتے وہ فوج میں پرویز مشرف کے ابتدائی دنوں کے استاد تھے انہوں نے حاکم اعلی کے سامنے پیش ہوکر اپنا رشتہ جتلاتے ہوے مدعا بیان کیا تو بادشاہ سلامت نے منہ مانگا انعام دیدیا ،ان سے کوئی کام پڑا ہوگا ہمارے محترم خان صاحب کو تو ملنے کی فرمائش اتنے اوپر سے کروائی کہ ایم اے جناح روڈ پر کے ایم سی ہیڈ آفس کے مین گیٹ کے ساتھ وہ نخریلو بریگیڈیر اپنے سینیر عملے کے ساتھ دوپہر کی تپتی دھوپ میں کھڑے تھے اتفاقا میں کے ایم سی ہیڈ آفس گیا ہوا تھا میری گنہگار آنکھوں کو یہ منظر ہضم نہیں ہورہا تھا، ناگواری سے انتظار کی گھڑیاں گنتے بریگیڈیئر صاحب کو دیکھا اس دوران پبلک ریلیشنز کے ڈپٹی ڈائرکٹر بشیر سدوزئی مجھے دیکھ کر میری جانب لپکے تو ان سے معلوم ہواکہ خان صاحب کی آمد کا بگل بجنے والاہے بصد مجبوری آقائے کے ایم سی اپنے نورتنوں کے ساتھ موجود ہیں،
خان صاحب سناہے آپ کا بیٹا بھی اب آپ کے ہم رکاب ہوگا “جب بچے بڑے ہوجائیں تو باپ کا قد چھوٹا اور امیدیں لمبی ہوجاتی ہیں” خدا اسے کامرانیوں سے نوازے یقینا اس مرحلے پر باپ کے مرتبہ کا تو آپ کو بار بار احساس کچوکے لگاتا ہوگا میں زیادہ تفصیل میں نہیں جائونگا بس اتنا یاد دلانا ہے کہ بیٹے اگر فرمانبردار ہوں تو باپ کا بڑھاپا کسی نجی ادارے میں اکائونٹنسی میں نہیں گزرتا اب آپ کا اور ہمارا بڑھاپا زوال یار کی مثل ہے دیکھناہے ہماری اولادیں ہمارے ساتھ کیا سلوک روا رکھتی ہیں واللہ اعلم،
آج خان صاحب کو ان کے نئے ڈیجیٹل چینل کی افتتاحی تقریب کا ان کے مخصوص انداز میں افتتاح کرتے دیکھا تو ماضی کو کنگھال ڈالا وہ ہم جیسے فٹ پاتھیے صحافیوں کے لیے کسی مہان ہستی سے کم نہیں ان کی تحقیقاتی اسٹوریاں پڑھ کر ہم نے لکھنا سیکھاہے انہیں ٹی وی کی جگمگاتی اسکرین پر بڑے مالیاتی اسکینڈلز میں لتھڑے حکمرانوں اور ان کے حاشیہ برداروں کو ننگا کر کے سرعام چوک میں لٹکاتے دیکھاہے اس جرئت رندانہ نے ہمیں خانصاحب آپ کا دیوانہ بنادیا ہم ہمیشہ آپ کی کامرانیوں کے خواہشمند رہے مگر یہ سب لکھنے کا مقصد آپ کو آپ کی فطری کمزوریوں سے آگاہ کرنا تھا ممکن ہے لفظوں کے انتخاب میں کوتاہی ہوئی ہو مگر نیت میں کوئی کھوٹ نہیں بس آپ سے التجا ہے کہ اپنے محسنوں کو نہ بھولیں اور کھونٹیں سے جڑے رہیں ورنہ پچھلی دہائی کا بیشتر وقت ہی آئینہ کافی ہے۔(آغا خالد)
(زیرنظر تحریرسے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)