تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
آج کل جوں جوں سپریم کورٹ اور شہباز شریف حکومت کے درمیان لڑائی اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے‘ پارلیمنٹ اور حکومت ہر ہتھیار استعمال کررہے ہیں کہ اس لڑائی میں آخری فتح ان کی ہونی چاہیے۔
اگرچہ میرا خیال ہے کہ وقتی طور پر اگر حکومتیں جیت بھی جائیں تو آخری قہقہہ پھر بھی سپریم کورٹ کا ہوتا ہے۔اگرچہ سیاستدانوں کے حامی کہہ سکتے ہیں کہ سیاستدانوں کی سیاسی عمر جرنیلوں اور ججوں سے لمبی ہوتی ہے‘ اس لیے زرداری اور گیلانی کو سزائیں سنانے والے ججز برسوں ہوئے ریٹائر ہو کر گھر جا چکے لیکن زرداری سزائوں کے بعد بھی صدر بن گئے‘ درمیان میں پھر دو تین سال قید مزید بھگت لی اور اب پھر کنگ میکر بن کر پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔ گیلانی بھی پانچ برس کی نااہلی کے بعد سینیٹر بن کر چیئر مین سینیٹ تقریبا ًبن گئے تھے‘ جبکہ اُس وقت کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کب کے ریٹائر ہو کر گھر جا چکے۔پرویز مشرف نے کہا تھا‘ اب بینظیر بھٹو اور نواز شریف کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ بینظیر کا خیر جو انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے‘ تاہم نواز شریف نہ صرف مشرف کے اقتدار میں رہتے ہوئے واپس آئے بلکہ سپریم کورٹ سے سب سزائیں معاف کرا کے تیسری دفعہ وزیراعظم بھی بن گئے بلکہ خود کو دوبارہ سپریم کورٹ سے نااہل کراکے پھر لندن پہنچ کر گئے۔ اب وہ پھر پُرامید ہیں کہ 2007ء والا سین دہرایا جائے گا اور وہ وطن واپس آئیں گے۔ سپریم کورٹ ان کے مقدمات ختم کر کے انہیں چوتھی دفعہ وزیراعظم بننے میں مدد دے گی۔
دوسری طرف سپریم کورٹ میں کچھ اور ہی سین بن رہا ہے۔ایک دن کابینہ‘وزیراعظم اور پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے حوالے سے کچھ کرتے ہیں تو اگلے دن سپریم کورٹ سے کچھ حکومت کے لیے آجاتا ہے۔اب تو کام روز بروز سے ہوتا ہوا گھنٹوں تک آگیا ہے کہ ایک گھنٹے میں کچھ پارلیمنٹ میں ہوتا ہے تو اگلے گھنٹے سپریم کورٹ اسے اُڑا دیتی ہے۔ اسے کہتے ہیں Tit for tat۔اس خطرناک صورتحال میں عون شیرازی جو اسلام آباد کے مشہور اور پرجوش صحافی مانے جاتے ہیں‘ نے ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ سے ایک چبھتا ہوا سوال پوچھا۔عون نے پوچھا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں حکومت کو جو مشکلات کا سامنا ہے‘ کیا آپ کو اس بات کا پچھتاوا ہے کہ آپ نے چند ماہ پہلے سپریم کورٹ میں ہائی کورٹ کے دو جونیئر ججز لگوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ یہ سب کچھ رُولز اور انصاف کیخلاف تھا؟اس پر اعظم نذیر تارڑ صاحب نے فرمایا ‘شیرازی صاحب آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں‘ مجھ سے غلطی ہوئی تھی‘ مجھے یہ کام نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وہ خود بھی یہ اصول توڑنے کے خلاف تھے لیکن انہیں شہباز شریف حکومت نے مجبور کیا کہ وہ ہائی کورٹ کے جونیئر ججز کو سپریم کورٹ میں لانے کیلئے ووٹ ان کے حق میں دیں۔ ان کا کہنا تھا ‘انہیں انکار کر دینا چاہئے تھا لیکن انہوں نے حکومتی دبائو میں وہ ووٹ ڈالا۔ اس پر وہ قوم سے دوبارہ معافی مانگتے ہیں۔یاد رہے کہ اُس وقت اگر وفاقی وزیر جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں اپنا ووٹ ان کے حق میں نہ ڈالتے تو وہ دو ججز ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ نہیں پہنچ سکتے تھے۔آج انہی ججز کا مؤقف الیکشن کے ایشو پر شہباز شریف حکومت کے خلاف ہے ‘جس وجہ سے وفاقی وزیر قانون اب معافی مانگ رہے ہیں۔اس وقت جب تارڑ صاحب ووٹ ڈال کر واپس آئے تھے تو پاکستان کی بار کونسلز نے شدید ردِعمل دیا تھا۔اعظم نذیر تارڑ کو استعفیٰ دینا پڑ گیا تاکہ دبائو کم کیا جائے اور ایاز صادق کو وزارتِ قانون کا اضافی چارج دے دیا گیا۔چند دن گزرے اور دبائو کم ہوا توتارڑ صاحب دوبارہ وزیرِقانون بنا دیے گئے اور اب وہ عون شیرازی کے سوال پر اپنی غلطی مان کر معافی مانگ رہے تھے۔
ہوسکتا ہے آپ سب کہیں کہ انسانوں سے غلطیاں ہوجاتی ہیں‘ان سے بھی ہوگئی ‘اب جانے دیں‘ سانپ نکل گیا تو کیا لکیر کو پیٹنے بیٹھ گیا ہوں۔میرا صحافت کا تجربہ کہتا ہے کہ حکومتیں اور حکمران کوئی غلطی نہیں کرتے‘ وہ سب کچھ سوچ سمجھ اور دیکھ بھال کر کرتے ہیں۔ ہاں اگر نتیجہ ان کی مرضی کے برعکس نکل آئے تو پھر وہ اسے فوراً اپنی ”غلطی‘‘ مان کر ہمدردیاں سمیٹنے لگ جاتے ہیں۔ ہاں اگر اس سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ انکی مرضی کا نکل آئے تو پھر انکی بڑھکیں سنا کریں کہ ہم جیسی سیاست تو کسی کو نہیں آتی۔ ایک زرداری سب پر بھاری‘ یا اگلی واری شیر‘ یا خان نے سب کو چاروں شانے چت کر دیا۔سپریم کورٹ کے وکیل اور تحریک انصاف کے لیڈر حامد خان نے مجھے بتایا کہ عمران خان نے انکے سامنے اعتراف کیا تھا کہ انہیں ان کے مشیروں نے غلط مشورے دیے جس سے نقصان ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ان مشیروں کے مشورے سے خان صاحب کامیابیاں سمیٹ رہے تھے تو وہ مشیر بہت زبردست تھے۔ وہی بات کہ ناکامی کا کوئی باپ نہیں بنتا۔
میری کبھی سینیٹر اعظم نذیر تارڑ سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن جو چند لوگ میرے دوست ہیں اور وہ انہیں جانتے ہیں وہ ان کی ہمیشہ تعریف کرتے رہے ہیں کہ قابل انسان ہیں لہٰذا اب تک میں ان دوستوں کی رائے کے زیراثر ہی تھاتاہم اس پریس کانفرنس میں دیے گئے اس جواب کے بعد میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہورہا ہوں۔ اگر اعظم نذیر تارڑ جیسا پڑھا لکھا اور اس قدکاٹھ کا بندہ بھی جان بوجھ کر غلط بندے کو ووٹ ڈالتا ہے کیونکہ اسے حکومت نے کہا تھاتو اس کے بعد بندہ کس سے گلہ کرے؟ مطلب اگر آپ کسی بات کو اپنے ضمیر یا اصول کے خلاف سمجھ کر بھی وہی کام کرتے ہیں تو آپ کی معافی کیسے قبول کی جاسکتی ہے یا یہ مان لیا جائے کہ آپ سے معصومیت میں غلطی ہوئی؟ جیسے میں نے کہا‘ غلطی وہ ہوتی ہے جس کام کو کرتے وقت آپ کو علم نہ ہو کہ یہ غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں‘ انہیں اس وقت بھی علم تھا کہ وہ ججوں کی تعینا تی کے اصول توڑ کر غلط کررہے ہیں لیکن پھر بھی یہ غلط کام کیا‘ پھر یہ غلطی تو نہ ہوئی۔ آپ یوں کہیں‘ کہ انکے سوچے سمجھے فیصلے کے مطابق نتیجہ نہ نکلا تو آج انہیں وہ غلطی لگ رہی ہے۔ مطلب اگر وہ دو جونیئر ججز سپریم کورٹ بینچ میں حکومتی مؤقف کے مطابق کسی فیصلے پر اپنی رائے دیتے تو آپ کا کیا خیال ہے اعظم نذیر تارڑ صاحب عون شیرازی کے سوال پر یہی کہتے کہ میری غلطی تھی‘ معافی مانگتا ہوں؟ بلکہ وہ الٹا وزیراعظم شہبازشریف کے پاس خوشی سے دوڑے جاتے اور اکھڑی سانسوں کیساتھ کہتے کہ سر جی دیکھا ہماری جونیئر ججز کو سپریم کورٹ لانے کی حکمت عملی کیسے کامیاب رہی۔میری مایوسی کی وجہ یہ بھی ہے کہ کیا اعظم نذیر تارڑ جیسے بندے کو مالی پریشانی ہوجاتی اگر وہ وزارت چھوڑ دیتے اور ووٹ نہ ڈالتے؟ ووٹ ڈالنے سے پہلے اپنے ضمیر اور اصول پر ڈٹ جاتے تو کیا بگڑتا؟ وزارت ہی چلی جاتی لیکن آج وہ معافیاں نہ مانگ رہے ہوتے۔ اگر انہیں احساس تھا کہ ان سے غلط کام کرایا گیا اور انہوں نے وزارت یا سینیٹ کی سیٹ بچانے کیلئے وہ زہر کا گھونٹ بھرا تو ان پر آپ اور ہم کیسے اعتبار کرسکتے ہیں کہ ملک کا قانون آج ایک باضمیر اور تگڑے بندے کے ہاتھ میں ہے جو وزارت اور سینیٹر شپ چھوڑ دیتا ہے لیکن ضمیر کے سامنے شرمندہ نہیں ہوتا۔یاد آیا صدر ٹرمپ نے ایک دن ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی ‘ جو اُنکے خلاف تحقیقات کررہے تھے‘ کوکہا تھا کہ تم سے میں وفاداری کی امید رکھتا ہوں۔ کومی بولا: سر مجھ سے ایمانداری کی توقع رکھیں‘ وفاداری کی نہیں۔ابھی اسکی نوکری کے چھ برس رہتے تھے‘ٹرمپ نے اسے برطرف کر دیا‘ وہ گھر چلا گیا اور ضمیر کے سامنے شرمندہ نہیں ہوا۔
اعظم نذیر تارڑ کمزور نکلے۔وزارت اور سینیٹر شپ نے ان کے ضمیر کوشکست دے دی۔اب وہ معافیاں مانگیں یا شرمندہ ہوں‘وقت گزر گیا۔ تارڑ صاحب کا تُکا لگ جاتا تو اسے کارنامہ قرار دیتے نہ تھکتے۔ تیر نشانے پر نہ بیٹھا تو غلطی ہوگئی۔ کمال کرتے ہیں پانڈے جی آپ بھی۔(بشکریہ دنیانیوز)