تحریر: انصارعباسی۔۔
یہ بھی کمال شخص ہے۔ ایک جھوٹے کیس میں پکڑا گیا اور بے قصور سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا لیکن اس کے باوجود پکڑنے والے کے خلاف کوئی بات کرنا تو درکنار، کوئی شکایت بھی نہیں کی بلکہ الٹا یہ کہا کہ وہ تو بہت اچھا آدمی ہے۔اپنےبے قصور ہونے اور مقدمہ کے جھوٹے ہونے پر کوئی شک نہیں، یہ بھی معلوم ہے کہ نشانہ اس لیے بنایا جا رہا ہے کہ وہ سچ بولا اور اُس سچ کا ساتھ دیا جو طاقت ور طبقہ کے لیے تلخ تھا۔ ہمیشہ سے اس بات پر فخر رہا کہ کبھی کوئی چوری نہیں کی، کوئی ناجائز فائدہ نہیں اُٹھایا۔اس کے باوجود ایک کے بعد ایک حکومت کے ہاتھوں ستایا گیا، جھوٹے پروپیگنڈوں کا نشانہ بنایا گیا، انتہائی گھناونے الزامات لگائے گئے لیکن سچ پر قائم رہا۔ جھوٹے الزامات لگانے والوں کو عدالتوں میں جھوٹا ثابت کیا۔ اربوں روپے کا نقصان برداشت کیا، انتہائی سنگین مقدمات کا سامنا کیا لیکن پھر بھی اپنے اصولوں پر قائم رہا۔ زیادتی کرنے والوں سے کوئی دشمنی نہ کی، نہ کبھی بدلہ کا سوچا، جو خلاف بولا، جسے اُس کے خلاف استعمال کیا گیا۔
جس نے اُس کی ذاتی زندگی اور خاندان تک کو نشانہ بنایا سب کو درگزر کیا اور جب ان میں سے کسی سے آمنا سامنا ہوا تو ایسے ملے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ یہ میر شکیل الرحمٰن بھی عجیب آدمی ہے۔ جب اپنے بڑے بھائی کی موت پر چند دن کے پیرول پر رہا ہوئے اور اُس دوران میری اُن سے بات ہوئی تو میرے استفسار پر کہ نیب کی قید میں کیسے دن گزر رہے ہیں تو کہنے لگے اللہ کا شکر ہے سب ٹھیک ہے۔گفتگو کے دوران اُنہوں نے وہ بات کی جو میرے لیے حیران کن تھی۔ کہنے لگے کہ عباسی صاحب ڈی جی نیب تو اچھا آدمی ہے۔ میں نے کہا میر صاحب ڈی جی نیب لاہور ہی نے تو آپ کے خلاف جھوٹاکیس بنایا، اُنہی کی سفارش پر تو آپ کو گرفتار کیا گیا۔ میری اس بات پر کوئی جواب نہیں دیا تو پھر میں نے ہی کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ڈی جی نیب کی کوئی مجبوری ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نیب ہی مجبور ہو اور اُنہیں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی استعمال کیا جا رہا ہو۔
میر صاحب سے بات ختم ہوئی تو سوچا نیب لاہور کے اپنے کچھ ذرائع سے بات کروں کہ میر صاحب کے ساتھ اُن کا تحقیقات کیسی چل رہی ہیں۔ ایک متعلقہ افسر کو فون کیا تو کہنے لگے کہ میر صاحب کے بارے میں جو تاثر تھا اُس کے برعکس وہ تو بہت سیدھے اور پیارے آدمی ہیں، جب سے نیب کی قید میں آئے نماز باقاعدگی سے اُنہیں ادا کرتے دیکھا اور قرآن پاک کو بھی ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھتے ہیں۔بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ شب برأت کے موقع پر بھی چار پانچ گھنٹے عبادت کرتے رہے جس پر میں نے سوچا کہ اب میر صاحب سے جب بات یا ملاقات ہو گی تو پوچھوں گا کہ کتنے عرصہ قبل اس طرح آپ نے شب برأت کی رات عبادت کی۔
ہمارا نظام عدل بھی ایسا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں مہنوں سالوں بلکہ دہایاں گزر جاتی ہیں، نسلوں تک کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تو ایسے بھی کئی کیس سامنے آئے کہ لوگ قید کے دوران فوت ہو گئے کچھ تو پھانسی پر بھر چڑھا دیا گیا لیکن بعد میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ بندہ تو بے قصور اور معصوم تھا۔
نیب کے کیسوں میں تو اکثر بغیر عدالتی سزا کے قید و بند کی صعوبتیں پہلے برداشت کرنے پڑتی ہے اور ٹرائل بعد میں چلتا ہے اور بہت بڑی تعداد میں ملزمان کو بری کر دیا جاتا ہے اور عدالتیں یہ فیصلہ دیتی ہے کہ کیس بدنیتی کی بنیاد پر بنایا گیا، یا کیس میں کوئی جان نہیں، یا یہ کہ نیب کے پاس کوئی ثبوت نہیں ۔ میر صاحب کے خلاف بنایا گیا کیس بھونڈا اور جھوٹ کا پلندہ ہے لیکن اب قانون کا یہ حال ہے کہ کچھ بھی ہو جسمانی ریمانڈ کے دوران ضمانت نہیں ہو سکتی۔
گزشتہ روز امید تھی کہ احتساب عدالت 35 دن کے جسمانی ریمانڈ کے بعد اب جوڈیشل ریمانڈ پر میر صاحب کو بھیج دے گی جس کے بعد ہائی کورٹ سے اُن کی ضمانت لی جا سکتی ہے۔ لیکن احتساب عدالت نے ایک بات پھر نیب کو دس دن کا جسمانی ریمانڈ دے دیا۔ یہ فیصلہ سننے کے کچھ دیر بعد میری میر ابراہم (جو میر شکیل الرحمن کے بڑے بیٹے اور جیو کے سی ای او ہیں) سے بات ہوئی تو افسردہ لگے کہ انصاف نہیں ملا۔
میں نے پوچھا میر صاحب کے کیا حالات ہیں تو کہنے لگے کہ وہ تو حیران کن انداز میں بہت حوصلہ میں اور اُنہیں دیکھ کر میرا (میر ابراہیم) کا بھی حوصلہ بہت بڑھ گیا۔ یہ بھی بتایا کہ جب کیس کے لیے عدالت میں اُنہیں پیش کیا گیا تو دوسروںکو ملنے کے ساتھ ساتھ نیب کے وکیلوں اور پراسیکیوٹرز سے بھی شفقت سے ملے۔ ابراہیم نے کہا کہ میر صاحب کو حوصلہ میں دیکھ کر اُنہیں اپنے والد کی فکر نہیں بلکہ اپنی نوے سالہ دادی کے بارے میں سوچ سوچ کر بہت پریشان ہیں کیوں کہ اُنہوں نے اپنی دادی کو امید دلائی تھی کہ ان شاء ﷲ عدالت سے انصاف ملے گا۔ابراہیم کو فکر تھی کہ اپنی دادی اماں کو کیسے بتائے گا کہ ایک بار پھر عدالت نے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کر دی ۔
تھوڑی دیر بعد میر ابراہیم نے جنگ جیو سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے ایک وٹس ایپ گروپ میں ایک پیغام بھیجا جس میں لکھا مجھے آج مایوسی ہوئی لیکن اس کے باوجود میںثابت قدم ہوں کیوں کہ میں نے اپنے والد کو آج ایک مایوس کن فیصلے کے باوجود پھر ثابت قدم پایا۔ابرہیم نے لکھا کہ وہ آج اپنے والد کے ساتھ عدالت میں موجود تھے جہاں اُن کے والد نے اُنہیں کہا کہ ہمارے ساتھ جو زیادتی ہورہی ہے اس کے باوجود بدلہ کے بارے میں نہیں سوچنا، کسی سے کوئی دشمنی نہیں کرنی۔بس اپنے اصولوں پر قائم رہنا ہے۔
ابراہیم نے اس پیغام میں لکھا کہ نہ صرف میر صاحب کا مورال بہت اچھا تھا بلکہ وہ نہایت پرسکون تھے۔ ابراہیم کے مطابق میر صاحب کا کہنا تھا جس طرح دنیا بھر سے اُن کی گرفتاری کے خلاف اور اُن کی حمایت میں پیغامات وصول ہو رہے ہیں اُس کے بارے میں کبھی اُنہوں نے سوچا بھی نہ تھا اور یہ اُن پر ﷲ تعالی کا بہت بڑا کرم ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔