تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔
اقبال اکیڈمی لاہور کے ڈائریکٹر جناب پروفیسر ڈاکٹر عبد الروف رفیقی نے گزرے کل لاہور پریس کلب لائبریری میں مختص نشست کے دوران کیا ہی دل موہ لینے والی گفتگو کی۔۔۔ایسے موتی بکھیرے کہ صحافی دوست عش عش کر اٹھے۔۔۔۔۔کہنے لگے میری لائبریری میں بیس پچیس ہزار کتابیں ہیں ۔۔۔یہ کتابیں مجھے یورپ نہیں جانے دیتیں۔۔۔۔میں انہیں اداس نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔یہ کتابیں میرے ساتھ باتیں کرتی ہیں۔۔۔میں مسرور ہوں تو وہ کھل اٹھتی ہیں ۔۔۔۔۔افسردہ ہوں تو وہ بھی بجھ سی جاتی ہیں۔۔۔ڈاکٹر صاحب نے ایک گہری بات کہی کہ کوئی قدردان ہو تو اکناف عالم سے کتابیں اس کی طرف کھنچی چلی آتی ہیں۔۔۔کوئی مصر سے تو کوئی لندن سے۔۔۔۔کوئی قدردان نہ تو کتابیں اس سے روٹھ جاتی ہیں۔۔۔۔ایک ایک کرکے اس کے گھر سے چلی جاتی ہیں ۔۔۔کہنے لگے میں بیگم سے کہتا ہوں کہ شکر کریں کہ میری کتابوں سے دوستی ہے۔۔۔۔کتے نہیں پالے ورنہ آپ کو ان کی دیکھ بھال کرنا پڑتی۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب نے اردو کے زوال پر آہ بھری اور کہا کہ میں شہر میں نکلتا ہوں تو اپنے ڈرائیور سے کہتا ہوں کہ دیکھیں کتنے اشتہاری بورڈ اردو میں ہیں؟؟انگریز فارسی کو کھا گئے اب اردو کے درپے ہیں۔۔۔۔انہوں نے کلام اقبال کی بے قدری کا بھی شکوہ کیا کہ پرائم ٹائم میں ایک اچھے بھلے میں اینکر نے جو اشعار اقبال سے منسوب کیے وہ علامہ کے تھے ہی نہیں۔۔۔انہوں نے بتایا کہ دنیا کی پینتالیس زبانوں میں فکر اقبال پر کام ہو رہا ہے۔۔۔انہوں نے انکشاف کیا کہ ملائشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے کلام اقبال کے لیے اقبال اکیڈمی سے استفادہ کیا۔۔۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ہم نے کلام اقبال کی ترویج و اشاعت پر توجہ نہ دی تو ایک دن ہمارے پاس صرف مزار اقبال ہی رہ جائے گا۔۔(امجدعثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب)۔۔