تحریر: ایاز امیر۔۔
بات چیت معتدل ہو تو زیادہ اثر رکھتی ہے‘ چیخنے چلانے سے اثر کھو جاتاہے۔ شیکسپیئرکے ڈرامے ”ہیملٹ‘‘ میں ایک خاتون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کچھ زیادہ ہی احتجاج کرتی ہے۔نیکی کے ڈھول پیٹے جائیں تو معاملہ کچھ مشکوک سا لگنے لگتا ہے۔
فیصل آباد جلسے میں عمران خان نے جو باتیں کیں ان پر تنقید زیادہ مؤثر ہوتی اگر قدرے ٹھنڈے مزاج سے کی جاتی۔ جس قسم کا ردِعمل آیا‘ سمجھ سے بالاتر ہے۔یوں لگتا ہے کہ دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ہم اتنے نازک مزاج بن چکے ہیں کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز حساس نوعیت کی بن جاتی ہے‘ لہٰذا حالاتِ حاضرہ پر ہم بات نہیں کرتے۔ ہم نے حالاتِ حاضرہ پر بات کرنے کی کوشش کی تو ہماری قمیص کو جواب دینا پڑ گیا۔ اپنے آپ کو اس پوزیشن میں دوبارہ نہیں ڈالنا چاہتے‘ لیکن اپنی تاریخ پر ہم کچھ نظر ڈال لیں تو جو بات عمران خان نے کہی شاید اتنی عجیب بھی نہیں لگے گی۔ جنرل ایوب خان چار سال کیلئے آرمی چیف لگائے گئے۔ اُن کی تقرری خالصتاً میرٹ پر ہوئی ہوگی لیکن جب اُن کی معیاد پوری ہوئی تو اُن کو چار سال کی توسیع دے دی گئی۔ پاکستانی تاریخ کا ہر طالب علم سمجھ سکتا ہے کہ یہ توسیع تباہ کن ثابت ہوئی کیونکہ اسی کے دوران ایوب خان نے آئین اور اسمبلیوں کو ایک طرف دھکیلا اور ملک پر مارشل لاء نافذ کردیا۔ اُن کا دورِ حکومت دس سال تک رہا اور جب وہ اقتدار سے رخصت ہوئے تو پاکستان کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی۔
مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ایوب خان جب صدرِ پاکستان بن گئے تو اُنہوں نے اپنے آپ کو فیلڈ مارشل بنا دیا اور فوج کے سربراہ کے طور پر جنرل موسیٰ خان کو چنا۔ جنرل موسیٰ سیدھے سادھے فوجی تھے‘ اُن کے بارے یہ نہیں کہا گیا کہ ذہین قسم کے جرنیل تھے‘اُن کی بڑی خوبی اُن کی جنرل ایوب خان سے وفاداری تھی۔
1965ء کی جنگ ہونی نہیں چاہیے تھی‘مگر تب کے ہمارے اکابرین اس بات کا ادراک نہ کر سکے کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو کس طرف جا سکتی ہے اور اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب جنگ ہو ہی گئی تو تقاضا یہ تھا کہ ہم اُسے بہترین طور پر لڑتے۔ اکھنور کے محاذ پر میجر جنرل اختر حسین ملک انڈیا کی دفاعی پوزیشنیں توڑنے جا رہے تھے کہ بیچ منجھدار میں اُنہیں تبدیل کر دیا گیا اور بارہ ڈویژن کی کمان میجر جنرل یحییٰ خان کو سونپ دی گئی۔ آج تک کوئی بتا نہیں سکا کہ جنرل اختر حسین ملک کو ہٹانے کی اور اُن کی جگہ جنرل یحییٰ خان کو لانے کی ضرورت کیا تھی۔ بہرحال میجر جنرل یحییٰ ایوب خان کے فیورٹ تھے۔ فیورٹ کو اکھنور کی کمان سونپ دی گئی اور وہیں پہ حملہ ٹھپ ہو کے رہ گیا۔
ایوب خان اتنے غیر مقبول ہو گئے کہ اُن کے خلاف ایک عوامی تحریک بھڑک اُٹھی۔ عوامی احتجاج کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئے تو صدر ایوب نے اقتدار جنرل یحییٰ خان کو سونپ دیا جو تب تک باقاعدہ آرمی چیف بن چکے تھے۔ جنرل یحییٰ خان رنگین شخصیت کے مالک تھے‘ شامیں گزارنے کا اُن کا اپنا انداز تھا۔ اُن کی دوستیاں اتنی مشہور ہوئیں کہ آج تک لوگ یاد کرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ اُن کی اور کیا خوبی تھی؟ 65ء کی جنگ میں اُن کے کردار کے بارے میں بات ہو چکی ہے‘ کوئی خاطرخواہ کامیابی وہ حاصل نہ کر سکے لیکن منظورِ نظر تھے۔ کوئی پوچھے تو سہی کہ اس میں میرٹ کا دخل کیا تھا؟
فوجی قابلیت تو جیسی بھی تھی مگر سیاسی سوجھ بوجھ اُس سے بھی کم تھی۔ گھوڑے پر سوار ہو گئے لیکن کیسے اُس سے اترنا ہے وہ نہ جان سکے۔ الیکشن کرا دیے‘ وہ الیکشن جو پاکستان کی تاریخ میں پہلے عام انتخابات تھے‘ لیکن اُن کے نتائج کو نہ سنبھال سکے۔ عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی تو آئینی اور جمہوری تقاضا یہ تھا کہ اُسے اقتدار دیا جاتا۔ اس میں قباحت کیا تھی؟ ذوالفقار علی بھٹو اس حق میں نہیں تھے کہ اقتدار شیخ مجیب الرحمن کے حوالے کیا جائے لیکن اس صورت میں بھٹو کو سمجھایا اور دبایا جاتا نہ کہ مشرقی پاکستان کے عوام کے خلا ف کارروائی شروع کی جاتی۔ بہرحال یحییٰ خان اور اُن کے ٹولے نے یہی کیا اور نتیجتاً پاکستان دولخت ہو گیا۔
مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو یہاں اقتدار بھٹو نے سنبھال لیا۔ لیفٹیننٹ جنرل گل حسن نے ایک کردار ادا کیا تھا بھٹو کو اقتدار میں لانے کیلئے۔ گل حسن آرمی چیف بنا دیے گئے لیکن کیونکہ وہ ایک آزاد خیال آدمی تھے‘ بھٹو زیادہ دیر اُن کے ساتھ چل نہ سکے اور اُنہیں اپنے عہدے سے فارغ کردیا گیا۔ پھر کس کو بھٹو نے آرمی چیف بنایا؟ جنرل ٹکا خان کو اور وہ اس لیے کہ وہ زیادہ سوچ بچار والے آدمی نہ تھے اور وفاداری اُن کی بھی خاصیت تھی۔ ایک بات جنرل ٹکا خان کے بارے میں کہی جانی چاہیے کہ بھٹو اقتدار سے محروم بھی ہوئے تو ٹکا خان اُن سے وفادار رہے۔
جنرل ٹکا خان کی میعاد پوری ہوئی تو بھٹوصاحب کی نظرِ انتخاب کس پر پڑی؟ جنرل ضیا الحق پر جو سینئر ترین جنرل نہ تھے اور جن کا عسکری ریکارڈ بھی اتنا شاندار نہ تھا۔ آرمی چیف وہ اس لیے چنے گئے کہ ان کی شہرت ایک شریف النفس آدمی کی تھی اور بھٹو ان کو اسی حوالے سے جانتے تھے۔ مگر اس کا نتیجہ کیا ہوا‘ وہ ہماری تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ ہے۔
جنرل ضیا کی موت واقع ہوئی تو جنرل اسلم بیگ فوج کے نائب چیف تھے۔ بالحاظِ عہدہ وہ آرمی چیف بن گئے۔ ہرموضوع پر بات کرتے تھے‘ سفارتی تقریبات میں جاتے تو صحافی اُنہیں گھیر لیتے اور جنرل صاحب ضرور کچھ ایسی بات کر جاتے جو دوسرے دن اخبارات کی سرخی بنتی۔ صدر غلام اسحاق خان سے جنرل اسلم بیگ کے اچھے تعلقات تھے۔ دونوں نے مل کر آئین کے آرٹیکل 58-2(b) کا سہارا لیتے ہوئے بے نظیر کی گورنمنٹ کی چھٹی کرا دی۔ 1990ء کے انتخابات کے بعد نواز شریف وزیراعظم بنے۔ وہ جنرل اسلم بیگ سے کچھ زیادہ خوش نہ تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ جنرل صاحب ہر بات میں دخل دیتے ہیں اور اُن کیلئے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ جنرل اسلم بیگ کے ابھی تین ماہ باقی تھے کہ صدارتی فرمان جاری ہوا کہ آئندہ آرمی چیف جنرل آصف نواز ہوں گے۔ نواز شریف کی جنرل آصف نواز سے بھی نہ بنی۔ کہتے ہیں کہ جنرل آصف نواز ایک دفعہ وزیراعظم کو مری ملنے آئے تو اُنہیں بطور تحفہ ایک بی ایم ڈبلیو گاڑی دینے کی کوشش کی گئی۔ جنرل آصف نوازخاصے پریشان ہوئے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔بہرحال جنرل آصف نواز کی ناگہانی موت واقع ہوئی اور مسئلہ درپیش آیا کہ کون نیا آرمی چیف ہوگا۔ سنیارٹی اور میرٹ پر جاتے تو جنرل فرخ ‘ جو چیف آف جنرل سٹاف تھے‘ کو آرمی چیف بننا چاہیے تھا لیکن نواز شریف نے بھرپور احتجاج کیا کہ جو بھی ہو جنرل فرخ کو آرمی چیف نہیں بننا چاہیے کیونکہ اُن کی نظروں میں وہ بینظیر بھٹو کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے۔ درمیانی راستہ چنتے ہوئے صدرغلام اسحاق خان نے جنرل وحید کاکڑ کو آرمی چیف بنادیا۔
کہانی لمبی ہے۔ کس کس چیز کا ذکر کیا جائے۔ اتنا سمجھنا ہی کافی ہے کہ جب عسکری سربراہ کی تعیناتی کا وقت آتا ہے تو میرٹ کے ساتھ ساتھ بہت کچھ دیکھا جاتا ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)