تحریر: میاں زاہد اسلام انجم۔۔
پاکستانی میڈیا آج ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں صحافت کا حقیقی مقصد دھندلا چکا ہے۔ وہ میڈیا جو کبھی عوام کی آواز تھا، آج چند کاروباری ہاتھوں میں کھیلنے والا کھلونا بن چکا ہے۔ ٹی وی چینلز کے مالکان، جنہوں نے اپنی دولت اور اثر و رسوخ سے صحافت کو قابو میں لیا، اب خبر کو ایک مصنوعات کے طور پر پیش کرتے ہیں، جس کا مقصد صرف ریٹنگز اور منافع کمانا رہ گیا ہے۔
کسی زمانے میں صحافی حق اور سچ کی آواز تھے، لیکن آج وہ مالکان کے مفادات کے غلام بن چکے ہیں۔ خبر کی اہمیت اور اس کی سچائی کو نظرانداز کر کے صرف وہی دکھایا جاتا ہے جو چینلز کے مالکان کے ذاتی یا کاروباری مفادات کے مطابق ہو۔ عوامی مسائل، سماجی ناانصافیاں، اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والی صحافت، اب خاموش ہے یا پھر اسے دانستہ طور پر دبا دیا گیا ہے۔
آج صحافیوں کی مجبوری یہ ہے کہ ایک کال آتی ہے اور ان کے ضمیر کے قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں۔ ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانے والے وہ لوگ ہیں جو ان کے جذبوں اور عزائم کو پیسوں اور دباؤ کے نیچے چورا چورا کر دیتے ہیں۔ وہ لوگ جو عوام کی آواز بننے کے دعویدار ہیں، خود خوف اور مفادات کے قیدی بن چکے ہیں۔ ان کے قلم اور زبان صرف اس وقت حرکت میں آتی ہیں جب ان کے مالک اجازت دیتے ہیں، اور سچ کو خاموشی کے زندان میں ڈال دیا جاتا ہے۔
ہمیں سوچنا ہوگا:
کہاں ہیں وہ آوازیں جو سچائی کے لیے گونجتی تھیں؟
کہاں ہیں وہ صحافی جو عوام کے لیے لڑتے تھے؟
اور سب سے اہم، کیا ہم نے اپنے میڈیا کو محض ایک کاروباری آلہ بننے دیا؟
یہ وقت ہے کہ عوام اپنی آواز بلند کریں اور اس بزنس ماڈل کو چیلنج کریں جو صحافت کے اصل مقاصد کو بھلا بیٹھا ہے۔ ہمیں ایک ایسی صحافت کی ضرورت ہے جو عوام کے مسائل کو اجاگر کرے، حق کی آواز بنے، اور بغیر کسی خوف یا دباؤ کے سچائی کا پرچار کرے۔ کیونکہ جب صحافت بکے گی اور ضمیر دباؤ میں آ جائے گا، تو معاشرے کی آزادی اور انصاف کا خواب بھی بکھر جائے گا۔(میاں زاہد اسلام انجم)۔۔