تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، کراچی شہر جو کبھی روشنیوں کاشہر ہونے کی وجہ سے مشہور تھا ، اب کچرے ، تعفن ، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور اندھیروں کا شہر بنتا جارہا ہے۔۔ گلی گلی، کوچہ کوچہ بے تحاشا کچرہ ، صفائی کا کوئی انتظام نہیں۔ دس ، پندرہ منٹ کی بارش ہوئی تو جل تھل ایک ہوگیا۔۔ گٹر بہہ رہے ہیں۔۔ سمجھ نہیں آتا کہ کراچی والے کس سے فریاد کریں۔۔ کراچی کو ’’کچرا۔چی‘‘ بناکر رکھ دیا ہے۔۔ کراچی کا ایک علاقہ ہے پاپوش، اس کی وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ یہاں اردو ادب کے مشہور مزاح نگار ابن انشا رہائش رکھتے تھے۔ان کے گھر کے سامنے ایک کچرا کنڈی تھی۔۔ جہاں ہر وقت کچرے کا انبار جمع رہتا تھا۔۔ جب انھیں آدم جی ایوارڈ ملا، تو کے ایم سی(انتظامیہ) والے آئے اور خاموشی سے سارا کچرا اٹھا کر صاف کردیا۔۔یعنی کچرہ کنڈی ختم کردی گئی۔۔ ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ابن انشاء مرحوم کے ایم سی کے دفتر پہنچ گئے اور وہاں تحریری درخواست جمع کرائی، جس میں لکھا تھا کہ ۔۔حضور مہربانی فرمائیں، میرے گھر کے سامنے سے کوڑے کا جو ڈھیر اٹھایا گیا ہے وہ واپس لاکر اسی جگہ ڈال دیں۔۔ میرے مہمانوں کو میرا گھر ڈھونڈنے میں بہت دشواری ہو رہی ہے۔۔ یہ بالکل سچا واقعہ ہے۔ اسے لطیفہ مت سمجھ لیجئے گا۔۔جس طرح گوجرانولہ میں کسی سے ایڈریس پوچھو تو وہ کھانے پینے کی اشیا کے حوالے دیتے ہوئے راستہ بتاتا ہے، اسی طرح اب کراچی والے کچرے کے ڈھیر کو ذہن میں رکھ کر ایڈریس بتاتے ہیں۔۔
اب ایک اور سچا واقعہ بھی سن لیں۔۔ 1960میں ترکی کے ایک شہر سے چوکیداروں کی لاپرواہی کی بناء پر پاگل خانے کے کھلے ہوئے دروازے سے موقع پا کر 423 پاگل فرار ہو گئے۔۔ شہر کی سڑکوں پر پاگلوں نے اودھم مچا دیا، بدنظمی اور ہڑبونگ مچ گئی۔۔ہسپتال کی طرف سے شہر کی انتظامیہ کو اطلاع ملی۔ ماہرین مسئلے کے حل کیلئے سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ فوری طور پر ایک بڑے ماہر نفسیات کو بلوا لیا گیا۔۔ ماہرنفسیات نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے فوراً ایک سیٹی منگوائی۔۔ہسپتال کے عملے اور انتظامیہ کے لوگوں کو چھکڑا بنا کر اپنے پیچھے لگایا، گاڑی بنائی اور وسل بجاتے چھک چھک کرتے سڑک پر نکل آیا۔۔ماہر نفسیات کا تجربہ کامیاب رہا۔۔ سڑک پر چلتے پھرتے مفرور پاگل ایک ایک کر کے گاڑی کاحصہ بنتے گئے۔۔شام تک ماہرنفسیات ڈاکٹر سارے پاگلوں کی گاڑی بنا کر ہسپتال لے آئے۔۔انتظامیہ نے پاگلوں کو واپس اُن کے وارڈز میں بند کیا اور ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا۔۔۔ مسئلہ شام کو اُس وقت بنا، جب پاگلوں کی گنتی کی گئی تو 612 پاگل شمار ہوئے۔۔ جبکہ ہسپتال سے صبح کے وقت صرف 423 پاگل فرار ہوئے تھے۔۔پچھلے دنوں خبر پڑھی کہ اداکارہ میرا جی ان دنوں بلوچی زبان سیکھ رہی ہیں۔۔ انسان کو ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنا چاہیئے۔باباجی نے ایک روز ہمیں ایک واقعہ سنایا،کہنے لگے۔۔ایک چوہیا اپنے تین ننھے ننھے بچوں کے ساتھ سیر کررہی تھی کہ ایک بلی سامنے آگئی۔ اس سے پہلے کہ بلی ان پر جھپٹتی ، چوہیا اپنی پوری طاقت سے چلائی۔۔ بھوں بھوں غررررررر۔ بھوں بھوں۔ بلی ہکا بکا رہ گئی۔ اور کنفیوز ہو کر الٹے قدموں واپس چلی گئی۔۔چوہیا نے مڑ کر بچوں کو دیکھا اور فخریہ لہجے میں بولی۔۔ دیکھا بچو ! تعلیم کے فائدے۔ اب تم جان گئے ہوگے کہ مادری زبان کے علاوہ کوئی اور زبان سیکھنا کتنا ضروری ہے۔
کامیڈین لیجنڈ عمرشریف ایک بار ایک ٹی وی اداکارکے گھر گئے تو باتوں باتوں میں بولے۔۔ ’’اس گلی میں تمہارے علاوہ کتنے بے ہودہ آدمی رہتے ہیں؟۔۔ٹی وی آرٹسٹ ذراخفگی سے بولے۔ آپ میری توہین کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟۔۔ ’’ہر گز نہیں‘‘عمر شریف نے سنجیدگی سے جواب دیا۔’’اگر مجھے تمہاری توہین کرنی ہوتی تو میں یہ سوال یوں پوچھتا،اس گلی میں تم سمیت کتنے بیہودہ آدمی رہتے ہیں۔‘‘گاہک نے دکاندار سے کہا۔۔ آج کے بعد میرا کتا بھی تمہاری دکان پر آئے تو تمہیں اس کی عزت کرنی ہو گی۔۔دکاندار دونوں ہاتھ جوڑ کر بولا۔۔ بہت بہتر جناب! آپ کا کتا آئے تو سمجھوں گا کہ جناب ہی تشریف لائے ہیں۔۔۔ ایک بچہ گلی میں کھیل رہا تھا، سامنے والے مکان سے ایک کتا نکلا اور اس کے پاؤں چاٹنے لگا ، بچہ روتا ہوا گھر آیا ۔۔ماں نے پوچھا، رو کیوں رہے ہو ؟ کہیں پڑوسی کے کتے نے تو نہیں کاٹ لیا ؟بچہ بولا۔۔نہیں، ابھی تو صرف چکھ کر گیا ہے، کاٹنے تو کل آئے گا۔۔کسان کھیت کی تیاری میں تھا کہ گیدڑ پاس آنکلا۔ اس نے کسان سے پوچھا، جناب کیا فصل اگانے کا ارادہ ہے۔۔کسان نے کہا، ہاں ،خربوزے کی فصل کا ارادہ ہے۔ گیدڑ بولا، واہ پھر تو میری موجیں ہوجائیں گی۔۔کسان نے کہا، نہیں میںکھیت کے گرد باڑ لگواؤں گا۔۔گیدڑ نے کہا،تو کیا ہوا میں باڑ کے نیچے سے آجاؤں گا۔۔کسان بولا، میں کھیت کے گرد دیوار بنوادوں گا۔۔گیدڑ نے کہا، میں دیوار پھلانگ لیا کروں گا۔۔کسان نے کہا، میں کھیت کی رکھوالی کیا کروں گا۔۔گیدڑ کہنے لگا، جب تم سونے جاؤگے میں کھیت میں داخل ہوکر خربوزے کھایا کروں گا۔۔ اچانک کسان کو یاد آیا کہ گیدڑ کتے سے ڈرتے ہیں، بولا۔۔۔ میں کھیت کی رکھوالی کے لئے کتے رکھ لوں گا۔۔’’ اوہ جٹا، ایہہ تے فیر مرداں والی گل نہ ہوئی نا (یہ تو کوئی مردوںوالی بات نہ ہوئی نا )گیدڑ یہ کہہ کر دم دبا کر آگے نکل گیا۔۔
آج زندگی میں پہلی بار ایک پٹواری نے لاجواب کر دیا۔۔کہتا ہے۔۔ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو مچھروں کو ہمارے خون کی صورت میں رزق ملتا ہے۔۔کہتے ہیں کہ تصویریں بولتی ہیں۔۔ ہم جب پرنٹ میڈیا میں آئے تو ہمارے سینئرز ہمیشہ یہی بات کرتے کہ۔۔تصویریں بولتی ہیں۔۔ اب فوٹو شاپ آیا ہے تو تصویریں اب بھی بولتی ہیں مگر اب جھوٹ زیادہ بولتی ہیں۔۔باباجی نے سگریٹ کا طویل کش لگاتے ہوئے فلسفیانہ انداز میں کہا۔۔ہر حکومت آتے ہی ایسے سگریٹ پر ٹیکس لگاتی ہے جیسے اس ملک پر سارا قرضہ بے چارے سگریٹ پینے والوں نے چڑھایا ہو۔۔وہ مزید فرماتے ہیں۔۔جس ملک میں رکشوں پر ایف سولہ اور بسوں پروڑائچ طیارہ لکھا ہو، وہاں انقلاب کی باتیں کرنا معیوب بات نہیں۔۔ایک پاگل سمندر میں دہی ڈال رہا تھا ،دوسرے پاگل نے وجہ پوچھی۔پہلے پاگل نے کہا۔میں لسی بنارہا ہوں۔۔دوسرا بولا۔۔لوگ اسی لئے تجھے پاگل کہتے ہیں اتنی ساری لسی کسے پلائے گا؟؟۔۔ آج کی لڑکیاں حد سے زیادہ ذہین ہوچکی ہیں۔۔ ایک لڑکی اپنی سہیلیوں کو بتارہی تھی کہ۔۔ایک دِن میں گھر میں اکیلی تھی کہ اچانک میری ہونے والی نند آ گئی۔ دروازے پر اس کی آواز سن کر میں تو بس چکرا کر رہ گئی، کہاں منگنی والی میک اَپ شدہ تصویریں اور کہاں میرا اَصل چہرہ اس بُری حالت میں، لیکن شکر ہے کہ مجھے ایک ترکیب سوجھ گئی۔ میں نے جھاڑو ہاتھ میں پکڑی، دروازہ کھولا اور کہا۔ ’’جی! کس سے ملنا ہے آپ کو؟‘‘۔۔آنے والی خاتون نے کہا۔۔’’ماسی! مجھے عینی سے ملنا ہے، میں اس کی ہونے والی نند ہوں۔‘‘میں نے فٹافٹ کہا۔۔’’جی! وہ تو اپنی امّی کے ساتھ مارکیٹ گئی ہیں۔‘‘ میرا جواب سن کر وہ خاتون کہنے لگیں۔۔ ’’اچھا میں چلتی ہوں، انہیں میرا بتا دینا۔‘‘۔۔اتنا کہہ کر لڑکی نے گہری ٹھنڈی سانس لی اور سہیلیوں سے بولی۔۔’’شکر ہے کہ عین وقت پر میری حاضر دماغی کام آگئی اور میرا بھرم بھی رہ گیا۔‘‘
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہر بزرگ کی بات میں حکمت مت ڈھونڈیں، احمق لوگ بھی بوڑھے ہوتے ہیں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔