تحریر: عمیرعلی انجم۔۔
آج نجانے کیوں محسن نقوی یادآرہے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ ” مطمئن ہوں کہ یادرکھے گی دنیا ،جب بھی اس شہر کی تاریخ وفا لکھے گی ،میرا ماتم اسی چپ چپ فضا میں ہوگا،میرا نوحہ ان ہی گلیوں کی ہوا لکھے گی- تاریخ شاہدہے کہ اس دنیا میں جس نے کوئی نیا کام کرنے کی کوشش کی ہے یاپھرگہری نیند میں ڈوبے لوگوں کو جگانے کی کوشش کی اسے اول اول لوگوں نے دیوانے سے ہی تشبیہ دی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز سطحی نظروں سے دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں ہمیں بندر کا تماشہ دکھانے والا تو لبھاتا ہے لیکن جو حق کی نشاندہی کرے اسے ہم نظر اندازکرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ بہادر شاہ ظفر کے دربار میں ذوق کا ہی کردار چاہیے ہوتا ہے ہم کبھی غالب ہونا پسند نہیں کرتے اور پھر وقت بتاتا ہے کہ غالب ہونا ہی اصل کامیابی تھا۔بات صداقت اور حق کی ہورہی تھی اس میں ایک خوبی یہ ہے کہ آپ اس کو جتنا بھی نظر انداز کریں ایک نا ایک دن یہ خود کو منوالیتا ہے بس ثابت قدمی اصل شرط ہے۔
نیوز ایکشن کمیٹی بھی مجھ ایسے ایک دیوانے کی کاوش تھی۔ میں نے تن تنہا اس کی بنیاد ڈالی۔ نہ میرے آگے کوئی تھا اور نہ پیچھے بس صرف ایک اللہ کی ذات کا سہارا تھا اور اس سے زیادہ مجھے کچھ اور چاہیے بھی نہیں تھا۔ مجھے علم تھا کہ میرے پاس جو سودا ہے وہ اصیل ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں۔ میں بات ضرور کررہا تھا لیکن میری برادری کا ہر آدمی دل میں تسلیم ضرور کررہا تھا کہ کہنے والا ٹھیک کہہ رہا ہے۔ میں نے خرابی کی اصل جڑ پکڑ لی تھی۔ کوئی ہمیں منہاج برنا کے نام پر بے وقوف بنارہا تھا تو کوئی مذہبی لبادا اوڑھ کر سامنے آگیا تھا لیکن اصل میں تھے یہ سب ہی چانکیہ کے چیلے۔ ان کا اصول تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ اس کے سامنے چھپ کر رہ جائے۔
یہ کئی سالوں سے ہمیں بے وقوف بنارہے تھے۔ ان میں رنگیلے شاہ میں کوئی فرق نہیں تھا۔جب کوئی صحافی بھوک سے مرتا تو یہ کسی فیسٹول منانے کا اعلان کردیتے۔ غریب صحافی عید پر بچوں کے لیے کپڑوں کے لیے ٹھوکریں کھا رہا ہوتا تو ان کی جانب سے گرینڈ افطار ڈنر کا اعلان ہوتا اور یہ وہ لوگ تھے جن کا سفر کچی بستیوں سے شروع ہوا تھا اور جن کے پاس سواری کے لیے سائیکل بھی موجود نہیں تھا۔
وہ دلی کا باکمال شاعر اقبال اشعر کہتا ہے کہ ذرا سی دیر میں ٹوٹ پھوٹ گیا تراش رہا تھا میں جس کو اک زمانے سے تو ہم صحافیوں نے بھی جن پتھروں کو اپنا خدا بنایا تھا وہ ہمارے سروں پر ہی آپڑے۔بات ہورہی تھی نیوز ایکشن کمیٹی کی جس کو میں اکیلا لے کر چلا تھا اور آج خدا کے فضل سے اس کے ملک میں ہی نہیں امریکا جاپان اور اٹلی سمیت مختلف ممالک نمائندے موجود ہیں۔ حق کی خوبی یہی ہے یہ ایک دن آکر باطل کو مٹا دیتا ہے۔
نیوز ایکشن کمیٹی صحافتی تنظیموں کی تاریخ میں وہ فیصلے اور اقدامات کیے ہیں جن کے بارے میں مالکان کے لے پالک سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ان رنگیلے شاہوں کو ڈبل سواری آج کوئی مسئلہ ہی نہیں لگتا ہے یہ لوگ وہ وقت بھول گئے ہیں جب بسوں کے سفر اور کچھ پیسے بچانے کے لیے یہ اپنے موٹرسائیکل سوار دوستوں کی منتیں کرتے تھے۔ہم انشاء اللہ اپنی معزز عدالتوں سے اپنا یہ حق واپس لیں گے۔ہم صحافیوں کی برطرفیوں تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور تنخواہوں میں کٹوتیوں کے خلاف بھی عدالتوں میں جارہے ہیں۔ یہ کام پہلے کسی نام نہاد صحافتی تنظیم نے نہیں کیا کیونکہ انہیں علم تھا کہ عدالتوں کا راستہ صحافیوں کو انصاف فراہم کرسکتا ہے اس لیے یہ اس کے قریب بھی نہیں گئے اگر چلے جاتے تو ان “کالیوں” سے ان کے “سردار” بہت برا سلوک کرتے۔ تو میں بتانا یہ چارہا ہوں کہ آج میں اکیلا نہیں ہوں میرے ساتھ پورا کاروان ہے یہ وہ کاروان ہے جن کو ان رہزنوں نے لٹوادیا تھا اور اب میں اس کاروان کے ساتھ عدالتوں کے در پر جارہا ہوں کہ جب سیاستدانوں ججوں اور جرنیلوں کا احتساب ہوسکتا ہے تو پھر یہ “کچی بستی کے رنگیلے شاہ”کوئی آسمان سے تو نہیں اترے ہیں نا۔ وکلا سے مشاورت کے بعد ان نام نہاد رہنماٶں کے اثاثوں کی چھان بین کے لئے عدالتوں سے رجوع کرنے کے لئے ہم تیار ہیں لیکن اس سے پہلے ہم نیب ایف آئی اے اور دیگر اداروں سے بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنا کام کریں اور صحافی برادری سمیت قوم کو تحقیقات کرکے بتائیں کہ ان ظالموں نے کس طرح اپنے ساتھیوں کی بھوک کا سودا کرکے اپنی نسلیں سنواری ہیں۔ان اداروں نے کام نہیں کیا تو عدالتوں کا دروازہ ہم سے دور نہیں ہے۔(عمیرعلی انجم)۔۔