تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،ان دنوں سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کا بڑا چرچا ہے۔۔ شمالی سندھ کے اضلاع جن کی سرحدیں دریائے سندھ سے ملتی ہیں جہاں کچے کا علاقہ ہے، وہاں گذشتہ چار دہائیوں سے ڈاکو راج قائم ہے۔ان ڈاکوؤں کے پاس ایسے جدید ہتھیار ہیں جن کے سامنے بلٹ پروف بکتربند گاڑیاں بھی ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ شہری لوگ عام طور پر کچے کا علاقہ ان علاقوں کو تصور کرتے ہیں، جہاں ان کے بقول پکے راستے نہ ہو، مگر حقیقت میں ایسا نہیں۔دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر مٹی کی موٹی دیواروں جیسے بڑے بند بندھے ہوئے ہیں، تاکہ جب دریا میںطغیانی ہو تو دریا کا پانی باہر نکل کر سیلاب کا سبب نہ بنے۔ دیوار نما بندوں کے درمیان دریا کا فاصلہ کہیں زیادہ چوڑا تو کہیں کم ہے۔ دریا سندھ کے دونوں کناروں پر موجود دیوار نما ان بندوں کے درمیان والے علاقے کو کچے کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ ہر سال سیلاب آنے اور راستے نہ ہونے کی صورت میں کچے کے اندر تک جانا عام انسان کے بس کی بات نہیں، اس لیے سندھ میں ڈاکو کچے کو قدرتی پناہ گاہ سمجھتے ہیں۔چند روز سے سوشل میڈیا پر چلنے والی تصاویر میں دیکھا گیا ہے کہ ان ڈاکوؤں کے پاس کلاشنکوف اور دیگر ہیوی اسلحے کے ساتھ راکٹ لانچر، اینٹی ائیر کرافٹ گن سمیت دیگر جدید اسلحہ بھی موجود ہے۔ ایک باراپوزیشن کے ایک لیڈر کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا۔۔بچے سے پوچھا۔۔ بیٹے آپ کے ابو القاعدہ میں ہیں کیا؟۔۔ بچہ بولا۔۔ پاپا کا تو پتہ نہیں،میں نورانی قاعدہ میں ہوں۔۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔ہمارا مشاہدہ ہے کہ بالکل ایسا ہی ہے۔۔جب بھی کہیں چوری یا ڈکیتی ہوتی ہے تو وہاں پر پولیس لیٹ پہنچتی ہے کیوں کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں پیر نہیں۔ اور چوری،ڈکیتی ہونے کے فورا” بعد یا پہلے پولیس اپناحصہ وصول کر لیتی ہے۔ کیا اب بھی نہیں مانو گے کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔۔پولیس افسر نے ملزم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جج سے کہا۔۔’’جناب عالی! اس چھڑی کے سرے پر انسان نہیں ایک شیطا ن کھڑا ہے۔‘‘ ملزم حیران ہوکرکہنے لگا۔ ’’حضور! ان سے یہ بھی پوچھ لیجئے کہ کس سرے پر…؟‘‘۔۔ایک حاضر سروس ڈی آئی جی نے اپنے بچے کو کہا۔۔ بیٹا یہ تمہارا رزلٹ کتنا خراب ہے،آج سے تمہارا ٹی وی دیکھنا، کرکٹ کھیلنا سب بند۔۔بچہ کہنے لگا۔۔ پاپا کیوں ناراض ہوتے ہو، یہ لو سو روپے اور معاملہ ادھر ہی ختم کردیں۔۔سابق آئی جی سندھ نے اپنے بڑے صاحبزادے سے کہا۔۔تم یہ کیوں سمجھتے ہو کہ پولیس والے جنت میں نہیں جا سکتے؟۔۔۔صاحبزادے نے کہا۔۔اس لیے کہ وہاں ان کے کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہو گا۔۔ایک سردار جی پولیس میں بھرتی ہوگئے۔۔ پہلے ہی دن ڈیوٹی پر پہنچا کہ ٹیلفون کی گھنٹی بجی۔ سردار نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے ایک خاتون بولی۔۔ ہمارے گھر کے گارڈن میں ایک بم پڑا ملا ہے۔۔’’فکر کی کوئی بات نہیں‘‘ سردار نے اطمینان سے کہا۔۔ اگر 3 دن تک کوئی لینے نہ آیا تو آپ اپنا سمجھ کے رکھ لیجئے گا۔۔۔باباجی کا ایک بار بکرا مر گیا۔۔اپنے لڑکے کو بلایا اور کہا۔۔بیٹا یہ بکرا جاکر تھانے دے آؤ، میں نے سنا ہے وہ حرام کھاتے ہیں۔۔ آپ سب نے بچپن میں جب پڑھائی شروع کی ہوگی تواردو کا پہلا سبق، الف سے انار، بے سے بلی، پ سے پتنگ پڑھا ہوگا۔۔لیکن ہم نے ہمیشہ پ سے پولیس پڑھا۔۔کیوں کہ ہمیں بچپن سے ہی پولیس والا بننے کا شدید جنون تھا۔۔ پھر جب بڑے ہوئے، شعور آیا، ذمہ داریاں سر پر آئیں تو کسی اور نگری کے مسافر بن گئے مگر آج بھی پ سے پولیس والا سبق نہیں بھولے۔۔یہ اور بات ہے کہ اب اگر آپ موازنہ کریں تو پ سے پولیس ہی بنتا ہے۔۔ اگر ’’پیسے‘‘ نہ ہوں تو پولیس والا نہیں بن سکتا۔۔اگر’’پیسے‘‘ نہ ہوں تو پولیس والوں سے کوئی کام نہیں نکل سکتا۔۔۔ایک ڈاکو کی بیوی جیل میں اسے ملنے آئی۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ڈاکو نے سرگوشی سے پوچھا۔ ’’وہ جوڈاکوں کا دو کروڑ روپیہ بچا کر رکھا تھا جسے پولیس بھی مجھ سے برآمد نہ کر اسکی وہ تو محفوظ ہے؟‘‘۔۔بیوی بولی۔۔ ’’ہاں… وہ جتنا محفوظ ہے اتنا شاید کسی بینک میں بھی نہیں تھا۔‘‘۔۔کیا مطلب؟ ڈاکو نے مونچھیں مڑورتے ہوئے پوچھا۔ بیوی نے سرگوشی میں جواب دیا۔’’جس خالی پلاٹ میں تم نے رقم دفن کی تھی اس پر دس منزلہ پلازہ بن گیا ہے‘‘۔۔کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ وکیل چاہتا ہے کہ آپ کسی مسئلے میں پھنس جائیں، ڈاکٹر چاہتا ہے کہ آپ بیمار ہوجائیں، پولیس امیدرکھتی ہے کہ آپ کوئی جرم کرلیں، کفن بنانے والا صرف یہی سوچتا ہے کہ آپ مر ہی جائیں، لیکن کیا آپ یقین کریں گے؟؟؟کہ صرف ایک چور یا ڈاکو چا ہتا ہے کہ آپ دولت منداور خوشحال ہوں۔۔ بنک میں ڈکیتی ہو رہی تھی۔ڈاکو ایک آدمی کے پاس آیا اور پوچھا۔کیا تم نے مجھے ڈاکا ڈالتے ہوئے دیکھا ہے؟آدمی نے کہا ، ہاں میں نے دیکھا ہے، ڈاکو نے اسے گولی ماردی۔۔پھر ڈاکو ایک دوسرے آدمی کے پاس آیا اور پوچھا۔کیا تم نے مجھے ڈاکا ڈالتے ہوئے دیکھا ہے؟آدمی پہلے والا منظر دیکھ چکا تھا، جلدی سے کہنے لگا۔۔نہیں،نہیں میں نے نہیں دیکھا، لیکن ۔۔وہ سامنے میری بیوی کھڑی ہے۔اس نے دیکھا ہے۔۔ایک شیخ صاحب کے گھر ڈاکو آ گئے۔شیخ نے ڈاکو پر پستول تان لیا اور کہا، ہینڈز اپ۔ڈاکوؤں کو اندازہ ہو گیا کہ جس گھر میں وہ چوری کر رہے ہیں وہ شیخ ہیں۔ایک ڈاکو کو ایک تر کیب سوجھی۔ اُس نے شیخ سے کہا پستول بیچو گے؟؟شیخ نے کہا ،کتنے پیسے دو گے؟؟۔۔ڈاکو نے کہا، دس ہزار۔اس پر شیخ نے پستول ڈاکو کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔۔ یہ لو پستول اور نکالو پیسے۔۔۔!!! جب ڈاکو گھر سے زیور اور نقدی سمیت سب کچھ لوٹ کر لے گئے تو کسی نے لٹ جانے والے بھلے آدمی سے پوچھا کہ تم نے ایک بندوق بھی خریدی تھی، وہ کہاں گئی، بھلے آدمی نے جواب دیا۔۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ اسٹور میں بہت چھپا کے رکھی تھی ورنہ ڈاکو وہ بھی لے جاتے۔۔پولیس نے خاتون خانہ سے کہا۔۔بی بی ، آپ بہت بہادر ہیں ڈاکو کو آپ نے بہت مارا۔۔عورت کانپتے ہوئے کہنے لگی۔۔ مجھے کیا پتہ وہ ڈاکو تھا،میں تو سمجھی میرا شوہر دیر سے گھر آیا ہے۔۔ڈاکو مسافروں کو لوٹ رہے تھے، ڈاکو نے ایک مسافر سے کہا، تمھارے پاس جو کچھ بھی ہے نکال دو۔۔مسافر نے سرگوشیانہ انداز میں کہا۔۔ بھائی آہستہ بولو میرے پاس تو ٹکٹ بھی نہیں ہے۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ ایک شخص خودکشی کے ارادے سے دریا کے پُل پر پہنچا، ابھی وہ چھلانگ لگانے ہی والا تھا کہ وہاں ایک اور شخص آپہنچا، پہلا شخص رک گیا اور پھر دونوں باتیں کرنے لگ گئے، ایک گھنٹے بعد دونوں نے ہی دریا میں چھلانگ لگادی،نتیجہ: منفی لوگوں سے بچیں، یہ آپ کی سوچ کو بھی منفی کردیتے ہیں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔