تحریر: سید بدرسعید۔۔
ہم کچھ دوستوں نے اپنی حیثیت کے مطابق کوشش کی کہ لاک ڈاون کا شکار ہونے والے مایوسی کا شکار نہ ہوں. یقینی طور پر یہ دوستوں کا ساتھ تھا، میں کسی کا نام نہیں لوں گا کیونکہ جو کام اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے اس میں نام صرف رب کے حضور گواہی دیتے وقت لیا جاتا ہے. اس سلسلہ کی ابتدا تہن ایسی فیملیز سے ہوئی جنہیں نہ میں جانتا تھا، نہ آج تک ملا ہوں اور شاید کبھی کوئی ملاقات نہ ہو، ایک ڈرائیور دوست نے بتایا تھا کہ وہ اپنی گنجائش کے مطابق محلے کے تین خاندانوں کو ایک ایک کلو آٹا دے کر آیا ہے کیونکہ وہ لوگ فوٹو سیشن کے ڈر سے کہیں سے مدد مانگنے نہیں جا رہے اور گھر میں نوبت فاقوں کی آ گئی ہے. میں نے ایک پوسٹ لگائی، کچھ دوست آگے بڑھے، میں نے رابطہ نمبر دے دیا، نوجوانوں کا ایک ٹولہ ان تک پہنچا، ان لڑکوں نے اپنے جیب خرچ سے 15،. 15 سو ملا کر تین خاندانوں کو راشن پہنچا دیا، پھر اطلاع ملی کہ مہینے بعد یہ دوبارہ ان کے گھر گئے اور راشن دے آئے. کیا کوئی یقین کرے گا کہ جن تین خاندانوں تک راشن پہنچا میں انہیں نہیں جانتا، جن لڑکوں نے راشن پہنچایا میں ان سے بھی کبھی نہیں ملا. شاید وہ بھی مجھے نہیں جانتے کیونکہ ایک دوست نے میری پوسٹ شیئر کی تھی جو ان تک پہنچ گئی. ایک دوست نے اکاونٹ میں کچھ پیسے بھیجے جو میں نے متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کروا دیے. یہ دوست بھی ان خاندانوں کو نہیں جانتا،نہ ان سے کبھی ملا. بات یہیں سے شروع ہوئی، پھر لاہور سے باہر ایک ادیب کے مشکل حالات کا پتا چلا تو ایک دوست نے ان کے اکاونٹ میں پیسے بھجوا دیے، یہ دونوں بھی ایک دوسرے کو نہیں جانتے اور نہ کبھی ملے ہیں. سلسلہ آگے بڑھنے لگا، ایک معروف قلمکارہ کا 4 ماہ کا کرایہ ادا نہیں ہو سکا تھا،. یہ رقم چالیس ہزار تھی،. اللہ نے کرم کیا اور دو دن بعد ان کے 36 ہزار ادا ہو گئے، ہمارے ساتھ ایک کالم نگارہ ایسی ہیں جو خود شدید مالی مسائل کا شکار ہیں لیکن اب تک تقریبا 4 سے 5 لاکھ کا راشن تقسیم کروا چکی ہیں.، ایک دوست کی مدد سے ایک سیاست دان کے ذریعے لگ بھگ 20 سے زائد بےروزگار صحافی دوستوں تک رقم پہنچائی گئی اور یہاں بھی نہ سیاست دان ان سے ملے اور نہ ہی انہیں جانتے ہیں. بس ہم پر اعتماد کیا اور ان حالات میں ان کی مالی مدد کر دی.یہ سب ان دوستوں کی بدولت ہوا جنہوں نے اس سارے سلسلہ میں ایک دوسرے پر یقین کیا اور اپنا کردار ادا کیا، یہ نہ تو بہت امیر ہیں، نہ ہی لینڈ لارڈ ہیں، اکثریت مڈل کلاس ہی ہے لیکن مجھے اس سارے سفر میں جو سب سے خوشگوار احساس ہوا وہ یہ تھا کہ ہم اس پر آشوب دور میں بھی دوسروں پر یقین رکھتے ہیں. ہم میں سے کوئی بھی ان سے نہیں ملا جن کی مدد کی گئی، ہم نے کسی کو نہ تو شرمندہ ہونے دیا، نہ نظریں چرانے دیں، جنہوں نے مدد کی وہ تفتیش سے ماورا تھے، بس یہ ہوا کہ جسے پتا چلتا گیا وہ ساتھیوں کو بتاتا گیا اور کوئی تیسرا جا کر خاموشی سے اپنا فرض ادا کر آیا. سچ کہوں تو مجھے بہت حوصلہ ملا ہے، مجھے یقین ہوا کہ ہم برے سے برے حالات میں بھی شکست نہیں کھا سکتے. ہم لڑیں گے اپنے مرنے تک یا پھر یہ جنگ جیت جائیں گے کیونکہ میں نے یہاں غریب کو غریب کی مدد کرتے دیکھ لیا ہے اور میرا ماننا ہے کہ جب غریب کسی دوسرے غریب کی مدد کرنے لگ جائیں تو پھر کبھی نہیں ہارتے. مجھے اعتراف ہے کہ اس سارے سفر میں میرا کردار ایک خاموش تماشائی سے زیادہ نہ تھا، یہ سب آپ دوستوں کی کاوش تھی جس کی گواہی بہرحال میں روز آخرت بھی دوں گا (سید بدر سعید)۔۔