aik tabah saath | Imran Junior

کانپیں ’’ٹانگ ‘‘ رہی ہیں

تحریر : علی عمران جونیئر

دوستو، آٹھ مارچ کو اسلام آباد میں ایک احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کی زبان پھسل گئی اور انہوں نے کہہ دیا۔۔کانپیں ٹانگ رہی ہیں۔۔ اس جملے کو سوشل میڈیا کی ’’فارغ‘‘ عوام نے پکڑ لیا اور آج تک اس پر طرح طرح کی ’’میمز‘‘ بنائی جارہی ہیں، یہ جملہ آج تک موضوع سخن بناہوا ہے۔۔لیکن ہمارا آج بالکل بھی سیاست کے حوالے سے باتیں کرنے کا موڈ نہیں ہے۔۔اتوار کا دن ہے،چھٹی ہے، اس لئے ہم آپ سے کچھ ایسی کام کی باتیں کریں گے کہ آپ کی کانپیں ٹانگنابند ہوجائیں گی۔۔

کہتے ہیں کہ بڑھاپا ٹانگوں سے اوپر کی طرف شروع ہوتا ہے۔ اپنی ٹانگوں کو متحرک اور مضبوط رکھیں! جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی جاتی ہے، ہماری ٹانگیں ہمیشہ متحرک اور مضبوط رہتی ہیں۔۔ بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے تواس کے لئے چلنا پھرنا وبال ہوتا ہے۔۔ پہلے وہ گھٹنوں، گھٹنوں چلنا سیکھتا ہے، پھر سہارے کے ساتھ کھڑے ہوکر چلنے کی پریکٹس شروع کردیتا ہے۔۔ پھر جب اس کی عمر ڈیڑھ ،دو سال ہوجاتی ہے تو ازخود چلنا شروع کردیتا ہے۔۔ہماری اماں حضور فرمایاکرتی تھیں، کہ ہم نے چھ سال کی عمر تک چلنا نہیں سیکھا تھا،جس پر تمام گھر والوں کو تشویش ہوگئی تھی کہ خدانخواستہ بچہ معذور تو نہیں۔۔ لیکن ڈاکٹرز ہمارے والدین کو سمجھاتے تھے کہ بچے کا وزن اس کی عمر سے زیادہ ہے اس لئے اس کی ٹانگیں اس کے جسم کا بوجھ نہیں سنبھال پاتی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ چلنا سیکھ جائے گا۔۔

بچپن بالکل کل کی بات لگتا ہے،ہر گزرتا سال ہمیں بڑھاپے کی طرف دھکیل رہا ہے،جیسا کہ ہم مسلسل بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں، ہمیں اپنے بالوں کے سرمئی ہونے ،یا جلد پر پڑنے والی جھریوں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ لمبی عمر کی علامات میں، جیسا کہ یو ایس میگزین پریونشن نے خلاصہ کیا ہے، ٹانگوں کے مضبوط پٹھے سب سے اہم اور ضروری ہوتے ہیں۔اگر آپ دو ہفتے تک اپنی ٹانگیں نہیں ہلائیں گے تو آپ کی ٹانگوں کی طاقت 10 سال تک کم ہو جائے گی۔ڈنمارک کی یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بوڑھے اور جوان دونوں، دو ہفتوں کی غیرفعالیت کے دوران، ٹانگوں کے پٹھوں کی طاقت ایک تہائی تک کمزور ہو سکتی ہے، جو کہ 20-30 سال کی عمر کے برابر ہے۔جیسے جیسے ہماری ٹانگوں کے پٹھے کمزور ہوتے جائیں گے، اسے ٹھیک ہونے میں کافی وقت لگے گا، چاہے ہم بعد میں بحالی اور ورزشیں کریں۔اس لیے چہل قدمی جیسی باقاعدہ ورزش بہت ضروری ہے۔جسم کا سارا وزن ٹانگوں پر ہوتا ہے۔ پاؤں ایک قسم کے ستون ہیں جو انسانی جسم کا سارا وزن اٹھاتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان کی 50% ہڈیاں اور 50% پٹھے دونوں ٹانگوں میں ہوتے ہیں۔انسانی جسم کے سب سے بڑے اور مضبوط جوڑ اور ہڈیاں بھی ٹانگوں میں ہوتی ہیں۔ مضبوط ہڈیاں، مضبوط پٹھے اور لچکدار جوڑ آئرن ٹرائی اینگل بناتے ہیں جو انسانی جسم کا سب سے اہم بوجھ اٹھاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں 70% سرگرمیاں اور توانائی کو جلانا دونوں پاؤں سے ہوتا ہے۔کیا آپ یہ جانتے ہیں؟ جب ایک شخص جوان ہوتا ہے تو اس کی رانوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ 800 کلو وزنی گاڑی اٹھا سکے! ٹانگ جسم کی حرکت کا مرکز ہے۔دونوں ٹانگوں میں انسانی جسم کے 50% اعصاب، 50% خون کی شریانیں اور 50% خون ان سے بہتا ہے۔یہ سب سے بڑا گردشی نیٹ ورک ہے جو جسم کو جوڑتا ہے۔جب ٹانگیں صحت مند ہوتی ہیں تو خون کا بہاؤ آسانی سے ہوتا ہے اس لیے جن لوگوں کی ٹانگوں کے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں ان کا دل ضرور مضبوط ہوتا ہے۔ بڑھاپا پاؤں سے اوپر کی طرف شروع ہوتا ہے۔جیسے جیسے کوئی شخص بڑا ہوتا جاتا ہے، دماغ اور ٹانگوں کے درمیان ہدایات کی ترسیل کی درستگی اور رفتار کم ہوتی جاتی ہے، اس کے برعکس جب کوئی شخص جوان ہوتا ہے۔اس کے علاوہ، نام نہاد بون فرٹیلائزر کیلشیم جلد یا بدیر وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہو جائے گا، جس سے بوڑھوں کو ہڈیوں کے ٹوٹنے کا زیادہ خطرہ ہو گا۔بزرگوں میں ہڈیوں کا ٹوٹنا آسانی سے پیچیدگیوں کا ایک سلسلہ شروع کر سکتا ہے، خاص طور پر مہلک بیماریاں جیسے دماغی تھرومبوسس۔کیا آپ جانتے ہیں کہ عام طور پر 15% عمر رسیدہ مریض، ران کی ہڈی کے فریکچر کے ایک سال کے اندر مر جائیں گے؟ ٹانگوں کی ورزش کیا کریں، 60 سال کی عمر کے بعد بھی ابھی دیر نہیں ہوئی۔۔ اگرچہ ہمارے پاؤں/ٹانگیں وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ بوڑھے ہوں گے، لیکن ہمارے پیروں/ٹانگوں کی ورزش کرنا زندگی بھر کا کام ہے۔صرف ٹانگوں کو مضبوط کرنے سے ہی کوئی شخص مزید بڑھاپے کو روک یا کم کر سکتا ہے۔ براہ کرم روزانہ کم از کم 30-40 منٹ چہل قدمی کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ آپ کی ٹانگوں کو کافی ورزش مل رہی ہے اور یہ یقینی بنانے کے لیے کہ آپ کے ٹانگوں کے پٹھے صحت مند رہیں۔

اب کچھ حالات حاضرہ پر ہلکی پھلکی باتیں کرلی جائیں۔۔جیساکہ پورے ملک میں رمضان چل رہاہے، افطار میں ٹماٹو کیچپ استعمال کیا جاتا ہے، کیا آپ کو معلوم ہے کہ جس مقصد کے لئے آج ہم ٹماٹو کیچپ استعمال کررہے ہیں،یہ اس کام کے لئے نہیں بنایاگیاتھا۔ امریکی ریاست اوہائیو سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جان کک بینیٹ نے 1830 میں ٹماٹو کیچپ کے لیے دوا کا ایک نسخہ تیار کیا۔ڈاکٹر بینیٹ نے اپنے تیار کردہ کیچپ کی تشہیر ایک ایسی دوا کے طور پر کی جس سے اسہال، یرقان، بدہضمی اور گٹھیا کا علاج ممکن تھا۔ کچھ  ہی عرصے بعد ڈاکٹر بینیٹ نے وسیع پیمانے پر ٹماٹو کیچپ کی ترکیبیں شائع کرنا شروع کردیں، جنہیں پھر گولیوں کی شکل میں بھی مرکوز کر کے ملک بھر میں ایک موثر دوا کے طور پر فروخت کیا گیا۔پہلے کیچپ مچھلی یا مشروم کا مرکب ہوتا تھا لیکن بعد میں ڈاکٹر بینیٹ نے کیچپ میں ٹماٹر شامل کیے۔ ٹماٹر کے اضافے کا مقصد وٹامنز اور اینٹی آکسیڈنٹس کی بڑی مقدار کو اس میں شامل کرنا تھا۔آج جو ہم کیچپ کو کئی ڈشز کے ساتھ ایک لوازم کے طور پر جانتے ہیں، 19ویں صدی کے آخر تک اس کی یہ وجہِ مقبولیت نہیں تھی۔۔باباجی نے محفل میں لطیفہ سنایا۔۔ وزیراعظم شہبازشریف سے جب کسی صحافی نے سوال کیا، میاں صاحب خزانہ خالی ہے تنخواہ کیسے بڑھائیں گے؟ شہباز شریف نے جواب دیا۔۔ وڈے پائن باہر ہوندے نے۔۔باباجی نے ہی انکشاف کیاکہ۔۔نواز شریف کے پلیٹلٹس تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے!۔۔انہوں نے عمران خان کو مفت مشورہ دیتے ہوئے کہا۔۔عمران خان شیر بنو شیر۔۔۔لندن بھاگ جاؤ ۔۔باباجی نے ہمیں بتایاکہ جیسے ہی پرانا پاکستان بنا اور شہبازشریف وزیراعظم بنے،میں چینی لینے گیا تو دکاندار نے پیسے ہی نہیں لئے،کہنے لگا، مفت ہوگئی ہے۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ پرانا پاکستان بنتے ہی لوڈشیڈنگ کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ کل ہمارا پڑوسی سحری میں دہی لینے اپنی بیگم کی شلوار پہن کر چلا گیا۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں