خصوصی رپورٹ۔۔
چند روز پہلے (26دسمبر2019ء) پنجاب کاو¿نٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے گوجرانوالہ میں ایک مشترکہ آپریشن کیا اور القاعدہ سے وابستہ ایک تنظیم کے میڈیا سیل پر چھاپہ مارا۔ اس تنظیم کا نام ”القاعدہ انڈین سب کانٹی نینٹ“ (AQIS) بتایا جاتا ہے۔ کسی قاری نے شائد ہی پہلے کبھی یہ نام سنا ہو گا۔ کہا جاتا ہے نام میں کیا رکھا ہے لیکن اس نام میں بہت کچھ رکھا ہوا ہے۔ اس نام میں ”انڈین برصغیر“ کے الفاظ قابلِ توجہ ہیں۔ نام انڈیا کا ہے اور تنظیم، کام پاکستان میں کر رہی ہے۔ اگر اس تنظیم کا کوئی سیل دہلی، کول کتہ، چنائی یا ممبئی میں پکڑا جاتا تو کہا جاسکتا تھا کہ یہ انڈین برصغیر کی کوئی ایسی تنظیم ہے جس نے انڈین برصغیر میں دہشت گردی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور دہشت گردی کا کوئی پلان اگر انڈیا کے کسی شہر میں بے نقاب ہوتا تو بات اور تھی لیکن یہ تنظیم تو انڈیا کا نام اوڑھ کر پاکستان میں کام کر رہی تھی۔ کلبھوشن سے جو آپریشن شروع ہوا تھا اس کا سلسلہ جاری ہے۔
لیکن ہمیں یہاں کچھ دیر رک کر پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پنجاب کے محکمہ ءانسدادِ دہشت گردی کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے اس سازش کا پردہ چاک کیا اور ملک کو ایک بڑے حادثے سے بچا لیا۔
یہ خبر اسی روز (26دسمبر 2019ء) پاکستانی الیکٹرانک میڈیا پر بھی بریک کی گئی تھی لیکن اسے ”معمول کی خبر“ سمجھ کر زیادہ قابلِ توجہ نہیں گردانا گیا۔ اس چھاپے (Raid) میں دہری کامیابی حاصل کی گئی۔ ایک تو تنظیم کے سرکردہ پانچ لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا اور دوسرے جو مواد قبضے میں لیا گیا اس کی تفصیل پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ اگر اس تنظیم کا یہ پلان کامیاب ہو جاتا تو جانی اور مالی نقصانات کا سکیل کیا ہوتا…… پہلے چھاپے میں برآمد شدہ مواد کی تفصیل دیکھ لیں۔۔:
۔کئی موبائل فون جن میں آنے والے ایام میں پلان شدہ سرگرمیوں کی تفصیلات موجود تھیں۔۔ایک مکمل چھاپہ خانہ جس میں بلیک اینڈ وائٹ اور رنگین تحریری مواد کی طباعت کا سارا ساز و سامان موجود تھا۔۔۔پانچ خودکش جیکٹیں۔۔۔دو کلو دھماکے سے اڑ جانے والا بارودی مواد۔پانچ کلاشنکوفیں بمعہ درجنوں گولیاں۔۔۔دو پستول بمعہ بیسیوں کار توس۔۔۔کافی تعداد میں ایسی ملکی اور غیر ملکی کرنسی جو دہشت گردانہ کارروائیوں کی تکمیل میں استعمال ہونی تھی۔۔ملک کے اہم اور حساس مقامات کے نقشے / خاکے
جن دہشت گردوں کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا، ان کی تفصیل یہ ہے
۔ آثم اکبر عرف سعید عرف بزرگ، عرف بابا، عرف جعفر…… سکنہ لاہور…… یہ شخص گزشتہ 14برسوں سے القاعدہ کے ساتھ وابستہ تھا اور میڈیا سیل کا اوورآل انچارج تھا۔ اس نے تنظیم کے کئی کارندوں کو ٹریننگ دی۔ یہ لوگ میڈیا کے لئے جداول (Tables)، نقشہ جات، خاکے اور تصاویر وغیرہ ڈیزائن کرکے میڈیا میں استعمال کرتے تھے۔(واقفانِ حال جانتے ہیں کہ گرافکس اور Animationsسے کیا مراد ہے) کچھ ماہ پہلے افغانستان میں اس تنظیم کا ایک شخص ہلاک ہو گیا تھا جس کا نام ابو ہاشم بتایا گیا تھا۔ یہ گروہ خفیہ مقامات سے ایسا مواد ڈاو¿ن لوڈ کرتا تھاجو نہ صرف آن لائن مواصلات کے کام آتا تھا بلکہ پرنٹنگ پریس میں اسے چھاپ کر متعلقہ مقامات پر اپنے خاص اشخاص کے توسط سے تقسیم بھی کیا جاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ مطبوعہ مواد افغانستان اور پاکستان میں خصوصی ہرکاروں اور قاصدوں کے ذریعے تقسیم کیا جاتا تھا۔
۔ ایک اور دہشت گرد کا نام عبداللہ عمیر عرف حنظلہ، عرف باسط، عرف رب نواز تھا جو کراچی کا رہائشی تھا اور نو دس برس پہلے اس نے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس کے سپرد افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردانہ اور تخریب کارانہ سرگرمیوں میں ربط و ارتباط پیدا کرنا تھا۔ اس تنظیم کا عسکریت پسند کمانڈر عاطف غوری عرف یحییٰ بتایا جاتا ہے جو آج بھی افغانستان میں مقیم ہے اور اس چھاپے میں پکڑا نہیں گیا۔
۔ایک اور دہشت گرد احمد الرحمن عرف قاسم ہے اور وہ بھی کراچی کا رہنے والا ہے۔ اس نے پانچ برس پہلے تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی۔ یہ شخص شہری آبادیوں اور علاقوں میں گھاتیں لگانے کا ماہر بیان کیا جاتا ہے۔آنے والے چند ایام میں پنجاب میں امن و امان کے قیام کی ذمہ دار ایجنسیوں کو بالخصوص نشانہ بنانے کا کام اسی احمد الرحمن کے سپرد تھا۔
۔ ایک اور شخص محمد یوسف بھی کراچی کا رہائشی ہے اور تنظیم کے ایک کمانڈر کا بھائی ہے اس کا نام یعقوب ہے۔ یہ لوگ پراپیگنڈا مواد ترتیب دینے، اسے پھیلانے اور اس کی تجسیم (Animation) کے ماہر تھے۔ ان کا تعلق ”داعش“ سے بھی تھا۔
یہ میڈیا سیل (Cell) پہلے کراچی میں کارروائیاں کرتا تھا، پکڑے گئے ان پانچ دہشت گردوں میں سے چار کا تعلق کراچی ہی سے ہے۔ وہاں جب حالیہ ایام میں ان کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا تو یہ گروہ گوجرانوالہ میں آ گیا اور اب پنجاب کے مختلف علاقوں میں حملے کرنے کے منصوبے بنا رہا تھا۔
دہشت گرد گروپوں کا پکڑا جانا پاکستان میں کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور انسدادِ دہشت گردی کے محکمے کے اکثر اہلکاروں اور افسروں کو درج ذیل معلومات کی خبریں بھی ہوں گی۔۔:
۔دہشت گردانہ حملوں میں کام آنے والا مواد اور سازوسامان کہاں سے آتا ہے، کون لاتا ہے، سہولت کار کون کون سے ہیں اور ان کا اصل سرغنہ کون ہے۔
۔سرمایہ کہاں سے آتا ہے، کس بینک، ہنڈی یا دست بدست وسیلے سے آتا ہے، کن لوگوں کو تقسیم ہوتا ہے اور اس ”بزنس“ کے سہولت کار کون ہیں؟
۔افغانستان سے پاکستان آنے جانے کے ذرائع اور راستے کون کون سے ہیں، افغانستان میں ان کو کون سا نیٹ ورک ٹریننگ دیتا ہے اور اس سارے کاروبار کا اصل فنانسر کون ہے۔
دہشت گردوں کا یہ وتیرہ ہے کہ وہ کئی کئی عرفی ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایجنسیوں اور سراغ رساں اداروں کو دھوکے میں رکھا جائے اور یہ پتہ نہ لگنے دیا جائے کہ کس مخصوص سیل میں کس مخصوص کارروائی کے لئے ایک سے زیادہ افراد کام کر رہے ہیں۔ اگرچہ ایک ہی شخص مختلف ناموں سے آپریٹ کر رہا ہوتا ہے لیکن ایجنسیوں کے لئے ان ناموں کو ڈی کوڈیا ڈی سائفر کرنا کوئی ایسا مشکل کام نہیں۔
اس چھاپہ مار کارروائی سے یہ حقیقت بھی واضح ہو گئی ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کام دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک طرح کی ”پاگل دوڑ“ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ FATF کے گزشتہ اجلاس میں پاکستان بڑی مشکل سے بلیک لسٹ ہونے سے بچا ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو پاکستان کی اقتصادی مشکلات بڑھ جاتیں۔ کچھ دنوں سے حکومت کی طرف سے اقتصادی صورتِ حال کی جو نقشہ کشی کی جا رہی ہے، وہ اگرچہ حوصلہ افزا ہے لیکن پاکستان پر بلیک لسٹ ہونے کی تلوار ابھی لٹک رہی ہے۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ ایسے دو الزامات ہیں جو پاکستان کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔فروری کا مہینہ کچھ زیادہ دور نہیں۔ اگر قانون کا نفاذ کرنے والی ایجنسیوں نے اس میڈیا سیل کو بے نقاب کیا ہے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی لیا جائے گا کہ پاکستان میں ہنوز منی لانڈرنگ اورٹیرر فنانسنگ کی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ اگر یہ پانچ لوگ جن کو پکڑا گیا ہے، عدالتوں سے جلد سزا یاب نہیں ہوتے اور ان کے مقدمات طول کھینچتے ہیں تو یہ پاکستان کے مستقبل کے لئے کوئی نیک شگون نہیں ہوگا۔ ملک میں مہنگائی کا عفریت پہلے ہی منہ کھولے کھڑا ہے اور حکومت گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرکے اس عفریت کو مزید خطرناک بنانے پر مجبور ہے۔ نیب کے پَر کترنے کی جو باتیں ہو رہی ہیں، اس پر اپوزیشن کا ردعمل دیدنی اور شنیدنی ہے اور ایک اور طویل بحث کا دروازہ کھل چکا ہے۔ یہ صورتِ حال ایسی ہے جو اس نئے سال میں اگر ختم نہ ہوئی تو عوام کو سخت مایوسی کا سامنا ہو گا۔
جیسا کہ اوپر کہا گیا دہشت گردی کے میڈیا سیل پر یہ چھاپہ،آئی ایس آئی اور محکمہ انسداد دہشت گردی کا، ایک کامیاب مشترکہ آپریشن تھا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ 2019ءکا سال، دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے گزشتہ دو عشروں کے مقابلے میں کامیاب ترین سال تھا۔ دہشت گردانہ حملوں کا ”حساب کتاب“ رکھنے کے لئے جو ادارہ بنایا ہوا ہے اور جس کو ”سنٹر فار ریسرچ فار سیکیورٹی سٹڈیز“ (امن و سلامتی کے موضوع پر تحقیق و تفتیش کا ادارہ) کہا جاتا ہے، اس کے مطابق پاکستان میں 2019ءمیں 370دہشت گردانہ حملے ہوئے جن میں 518لوگ مارے گئے۔ ان مارے جانے والے افراد کی تعداد 2018ءمیں مارے گئے افراد کے مقابلے میں 30فیصد کم ہے۔2018ءمیں 400حملے ہوئے تھے جن میں 739افراد مارے گئے تھے۔ اور جب ہم ان اعدادوشمار کو گزشتہ 5برسوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو پاکستان کے لئے گزشتہ سال بہت ”پ±رامن“ سال تھا۔ 2013ءمیں اس طرح کے حملوں میں مارے جانے والے سویلین اور وردی پوش (فوج اور پولیس) افراد کی تعداد تو 4600تھی۔ قوم کو یہ بھی یاد ہو گا کہ 2014ءمیں APS پشاور پر حملے میں 141 طلباءشہید ہو گئے تھے۔
گزشتہ روز ہم 8،10دوست کسی تقریب میں اکٹھے تھے۔ میں نے جب اس گوجرانوالہ میڈیا سیل پر حملے کا ذکر کیا تو اس کی اپوزیشن کرنے والے بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سکے کا دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہیے جو یہ ہے کہ یہ چھاپہ محض ایک ڈرامہ تھا…… اگلے ماہ فروری میں FATF کا جو اجلاس ہو رہا ہے اس میں اس چھاپے کا بطور خاص ذکر کیا جائے گا اور دلیل دی جائے گی کہ پاکستان کو گرے (Grey) لسٹ سے نکالا جائے۔ ان کا استدلال تھا کہ جو اسلحہ اور خودکش جیکٹس وغیرہ ٹیلی ویڑن پر دکھائی گئی ہیں اور جن پانچ افرادکے چہروں کو ڈھانپ کر ان کو میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے تو یہ سب اسی طرح کا ڈرامہ ہے جس طرح کا ماورائے عدالت قتل کیسوں میں رچا یا جاتا ہے۔
اس میڈیا سیل کے گرفتار شدگان سے جو ”برآمدگی“ ڈالی اور دکھائی گئی ہے وہ تمام اشیاء/ ہتھیار/ نقدی وغیرہ تو ایجنسیوں کے پاس پہلے سے موجود ہیں۔ اور عرفی ناموں کا حوالہ بھی کوئی نیا انکشاف نہیں، یہ ایجنسیوں کا پرانا حربہ ہے۔ لوگوں کے چہروں پر نقاب ڈال کر میڈیا کے سامنے لانا ایک مشکوک حرکت ہے۔ اس کی جو تاویلیں بھی کی جائیں، وہ بھی ڈرامے کا حصہ ہوں گی…… ایک صاحب نے تو یہ تک کہا کہ جب کراچی میں اس گروہ کا سراغ مل گیا تھا تو وہاں اس کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟…… کیا یہ چھاپہ محکمہ ءانسدادِ دہشت گردی، پنجاب کی کارکردگی دکھانے کے لئے مارا گیا ہے؟…… کیا یہ پنجاب حکومت کو ’شاباش‘ دینے کا آپریشن ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔
میں سوچ رہا تھا کہ معترضین سے سوال کروں کہ اگر ان کی بات کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر اصل حقیقت کہاں پوشیدہ ہے؟ کس بات کو سچ سمجھا جائے اور کس کو ڈرامہ قرار دیا جائے؟(بشکریہ پاکستان)۔۔