تحریر: علی عمران جونیئر۔۔
ویسے دیکھا جائے تو اوول آل پوری میڈیا انڈسٹری ہی زوال پذیر ہے، پہلے دن سے کہتا آیا ہوں کہ یہ بحران سیٹھوں کا پیدا کردہ ہے اور اب یہ بحران خود ان کے گلے پڑچکا ہے۔۔ یہ بحران صرف اسی صورت بحران لگتا جب سیٹھوں کے اپنے ” اللے تللے” نہ ہوتے۔۔ ان کی عیاشیوں پر بھی بریک لگا ہوتا، ان کے چولہے بھی بجھے ہوتے۔۔ پھر واقعی دل و جان سے اس بحران پر ایمان لے آتا۔۔ لیکن ایسا کچھ نہیں۔۔ سیٹھوں میں سے کسی کا بچہ اسکول سے اس لئے نہیں نکالا گیا کہ فیس جمع نہیں کی گئی۔۔ سیٹھوں کے گھروں کے چولہے خاک بجھیں گے وہاں روزانہ نت نئے پکوان پکتے ہیں۔۔ گھروں میں ملازمین بھی اسی طرح اور اسی تعداد میں کام کررہے ہیں بلکہ ان ملازمین کو تو وقت پر تنخواہ بھی دی جاتی ہے۔۔
گزشتہ ایک عشرے میں جتنے نئے چینلز مارکیٹ میں آئے۔۔ آپ ان میں سے کسی بھی میڈیا ہاؤس کے سیٹھ کا بیک گراؤنڈ اٹھا کر دیکھ لیں، ان کا کاروبار کوئی اور تھا یہاں وہ کمانے کی نیت سے آئے۔۔ کمائی کے ساتھ ساتھ ان کی ایک واضح سوچ یہ بھی تھی کہ میڈیا ہاؤس کھولنے سے ان کے دیگر بزنس کو بھی تحفظ حاصل ہوجائے گا۔۔آپ کسی بھی چینل کا نام لیں ، ہم بتائیں گے اس کا سیٹھ پہلے کیاکرتا تھا۔۔ ایک چینل کے مالک نے تو صرف اس لئے چینل نکالا کہ اسے رپورٹرز بلیک میل کرتے تھے اس نے سوچا اپنا چینل چلاؤنگا تو پھر دیکھتے ہیں کون بلیک میل کرتا ہے۔۔ ایسی درجنوں مثالیں ہیں۔۔جنہیں سنانے بیٹھ گیا تو اصل موضوع سے ہٹ جائیں گے۔۔چلئے اپنے ٹاپک کی طرف آتے ہیں۔۔
کے ٹوئنٹی ون نیوز میں رپورٹرز اور کیمرا مین تنخواہیں نہ ملنے پر ہڑتال پر چلے گئے۔ ان کو فروری کے بعد سے تنخواہ نہیں دی جارہی ہے۔پپو نے بتایا ہے کہ مالکان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ چینل کو چلایا کیسے جائے روز نئے نئے تجربے کئے جارہے ہیں جس کے باعث چینل ڈوب رہا ہے۔ایک آدھ کو چھوڑ کر کوئی رپورٹر خبریں نہیں دے رہا ہے نہ کیمرا مین ڈیوٹی پر آرہے ہیں۔۔پپو کے مطابق ان کا سرکاری واٹس ایپ گروپ جہاں روزانہ رپورٹرز پانچ سو سے سات سو خبریں فائل کرتے تھے، بدھ کے روز وہاں پچاس سےبھی کم خبریں شیئر کی گئیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ادارے میں ڈاون سائزنگ کے نام پر درجنوں ورکرز فارغ کردئیے گئے جن میں کاپی ایڈیٹرز ،کریٹو ڈیپارٹ اور دیگر ڈیپارٹ سمیت آفس پیون اور سوئپرز تک شامل ہیں۔ نوکری سے نکالے جانے والے ورکرز کے واجبات بھی ادا نہیں کئے گئے۔ پپو کا کہنا ہے کہ انتظامیہ برسوں سے ورکرز کی تنخواہ روکے ہوئے ہے ملازمین کے سالوں اور مہینوں کے واجبات پہلے ہی ادا نہیں کئے جارہے تھے اب کورونا کا بہانہ اور مل گیا ہے۔
اسٹاف کی مالی حالت یہ ہے کہ ان کے پاس دفتر آنے کے بھی پیسے نہیں ہیں مگر انتظامیہ زبردستی ورکرز کو طلب کررہی ہے اور جو نہیں آرہے انہیں نوکری سے نکالنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ پپو نے بتایا کہ فروری میں ملازمین کو نصف تنخواہ اور راشن کے تھیلے دئیے گئے(یہ راشن ایک صوبائی وزیر سے درخواست کرکے حاصل کیا گیا تھا)۔ مگر چینل پر جھوٹا پیکج بنوا کر چلوایا گیا کہ کےٹوئنٹی ون نیوز کی انتظامیہ کا احسن اقدام ملازمین میں راشن کی تقسیم اور بروقت تنخواہ ادا کردی گئی۔ یہ پیکج پیش کرنے والی خاتون اینکر حقیقت واضع ہونے پر نادم ہوئی اور نوکری چھوڑ کر چلی گئی۔پپو کے مطابق کورونا کی وباء کے دوران ملازمین کو زبردستی دفتر بلانے والی چینل انتظامیہ کورونا ایس او پیز کو بھی مکمل نظر انداز کئے ہوئے ہے جس کے باعث۔ بیورو چیف،آئی ٹی ڈیپارٹ کا ملازم کورونا میں مبتلا ہوکر قرنطینہ میں ہیں۔ پپو کے مطابق کئی اور ملازمین کے بھی وباء میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔ ایسی صورتحال میں کئی ملازمین دفتر نہیں آرہے ہیں جس کے باعث اکثر نیوز بلیٹن یا تو ہوہی نہیں رہے ہیں یا پھر اسکرین کا پیٹ بھرنے کے لئے پرانی خبریں چلائی جارہی ہیں۔
مالکان چینل کو ٹھیکے پر دینے کے لئے سرگرم ہیں تاکہ اخراجات کا بوجھ ٹھیکے دار کے کاندھوں پر ڈال دیا جائے۔ مگر کوئی بھی ملازمین کے پہاڑ جیسے واجبات کو دیکھتے ہوئے چینل کو ٹھیکے پر لینے کو تیار نہیں۔ اس صاری صورتحال میں پریشان حال ملازمین کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کون ان کے واجبات اور کرنٹ سیلری دے گا کچھ پتہ نہیں۔ ایک ملازم مسلسل تنخواہ سے محرومی کے باعث اپنے بسے بسائے گھر کو اجڑوا چکا ہے۔جس کی اہلیہ نے معاشی بدحالی سے تنگ آکر اپنے میکے کا رخ کرلیا ہے اور اب خلع کا مطالبہ کررہی ہے جس سے دلبرداشتہ ہوکر ملازم نے نوکری چھوڑ دی اور چینل کے واٹس اپ گروپوں سے لیفٹ ہوگیا ہے۔۔اسی طرح ایک ملازم نے اپنے گھرکا سارا سامان برائے فروخت کے نام سے سوشل میڈیا پر پوسٹ شیئر کی ہے۔ ۔ ایک اور ملازم کی بیوی شدید علیل ہے اور اس بیچارے کے پاس ٹیسٹ کرانے کے لئے ساڑھے چار ہزار روپے تک نہیں، جس کی وجہ سے اس کی بیوی موت و زندگی کی جنگ لڑرہی ہے۔۔چیف کیمرہ مین نے اپنا گھر چلانے کے اپنی واحد سواری اور روزی کا ذریعہ موٹرسائیکل ہی بیچ ڈالی۔۔ایک این ایل ای کے گھر کی بجلی صرف اس وجہ سے کٹ گئی کہ وہ بل نہیں بھررہا تھا، بل بھرتا بھی کیسے رواں سال چھ ماہ کے دوران صرف فروری کی آدھی سیلری ملی اس میں بل بھرتا یا گھر چلاتا؟؟۔۔ایک کیمرہ مین کو تین ماہ تک گھر کا کرایہ نہ دینے پر مالک مکان نے گھر سے نکال دیا، اب وہ سسرال میں رہ رہا ہے اور کھانا بھی ساتھی کیمرہ مینوں کے گھر سے آیا ہوا کھاتا ہے۔۔ ایک رپورٹر نے گھر کا گیزر بیچ ڈالا، وجہ صرف یہ تھی کہ گھر میں بیمار ماں کو کھلانے کے ڈبل روٹی خریدنے کے پیسے تک نہیں تھے۔۔پپو نے مزید انکشاف کیا ہے کہ کئی ورکرز کے پاس تو بچوں کے دودھ کے پیسے تک نہیں۔۔اب وہاں آپس میں موضوع گفتگو “خودکشی” رہ گیا ہے۔۔
پپو نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ ۔۔ چیئرمین کے ٹوئنٹی ون کے علم میں ورکرز کو پیش آنے والے سارے واقعات آچکے ہیں، انہوں نے اپنے ایک وائس میسیج میں چینل ملازمین کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کے تمام مسائل حل کریں گے۔۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ان کے بھائی کے پاس اختیارات تھے اب انہوں نے یکم جون سے آفس میں بیٹھنا شروع کردیا ہے۔۔انہوں نے سارے ورکرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایچ آر میں جاکر ملیں اور اپنی اپنی سیلری شیٹ فائنل کرکے انہیں ملیں،انہوں نے تمام ورکرز کو کہا ہے کہ سب کی سیلری جلد جاری کریں گے اور سب کے مسائل حل کریں گے۔ اس میسیج کے حوالے سے جب کے ٹوئنٹی ون کے کچھ ورکرز سے رابطہ کیا تو سب نے کم و بیش اسے لالی پاپ قرار دیا ، کچھ نے تو ایچ آر کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھایا۔۔ اس دوران مزید انوکھے انکشافات سامنے آئے۔۔ جنہیں اگلی بار آپ سے شیئر کریں گے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ۔۔ چیئرمین کے 21 اگر خلوص نیت سے اپنے ورکرز کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر اگلے اڑتالیس گھنٹے میں ورکرز کو ایک، ایک سیلری دیں، حساب کتاب، ایچ آر سے فائنل سیلری شیٹ والی کہانیاں بعد میں بھی ہوتی رہیں گی۔۔ اس وقت ورکرز کو فوری ریلیف کی ضرورت ہے، چیئرمین صاحب کارکنوں پر اگر اپنا اعتماد قائم کرنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر تمام ورکرز کو ایک ایک سیلری دیں اور اس کے بعد سب کو ایک ڈیڈ لائن دیں کہ کب تک ان کے تمام واجبات ادا کردیئے جائیں گے۔۔ صحافتی تنظیموں کو بھی اس جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔۔ یہ ایک المیہ ہے۔۔اگر آپ مشکل وقت میں ورکرز کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے تو پھر آپ کی لیڈرشپ خود ایک سوالیہ نشان ہوگی۔۔کیوں کہ آپ کی لیڈری ورکرز کے دم سے ہی ہے۔۔ (علی عمران جونیئر)۔۔