دوستو،اکثر مشاہدے اور تجربے میں آیا ہے کہ جب کسی کا انتظار ہو،یا کوئی مصیبت نازل ہوتو تو لگتا ہے کہ وقت تھم سا گیا ہے۔۔ ٹائم گزرتا ہی نہیں۔۔ اس کے علاوہ بھی کئی مراحل ایسے ہوتے ہیں جب ٹائم باوجود کوشش کرنے کے پاس نہیں ہورہا ہوتا۔۔ ایسی صورت حال سے ہم کئی بار دوچار ہوئے ہیں۔۔بلکہ ہر انسان ہی ٹائم پاس والی کیفیت کا شکار رہا ہوگا۔۔ چلئے آج ہم آپ کا ٹائم پاس کراتے ہیں، آپ سے کچھ ایسی باتیں شیئر کرتے ہیں جس کا مطلب ہمیں خود بھی نہیں معلوم۔۔
گزشتہ دنوں ہمارے پیارے دوست نے ہمیں واٹس اپ پر روسی زبان سے ترجمہ شدہ ایک مختصر سی کہانی بھیجی، جو کچھ یوں تھی کہ۔۔بہت پہلے کی بات ہے خدا نے دس مرد تخلیق کیے مگر وہ جلد جنت سے اکتا سے گئے۔خدا نے انہیں گوندھا ہوا آٹا دیا اور کہا کہ جیسی تمہیں عورت پسند ہے اس آٹے سے بنا لو اور ہاں اس میں سامنے رکھے شکر کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا ملانا مت بھولنا تاکہ آپس کی ازدواجی زندگی شیریں رہے، میں تمہاری بنائی عورتوں میں بس جان ڈالوں گا۔سب نے بنا لیں۔ خدا نے دیکھا اور کہا، شکر کے گیارہ ٹکڑے تھے۔ تم میں سے کسی نے غلطی سے دو ٹکڑے ڈال دیے۔ کس نے ڈالے ہیں، خدا نے پوچھا۔ سارے مرد چپ رہے۔خدا نے ان مجسموں میں جان ڈالی اور جس نے جو بنائی تھی وہ اسے دینے کی بجائے جس کے حصے میں جو آئی وہ اسے دے دی۔تب سے اب تک 9 آدمی غیر کی بیوی میں یہ سوچ کر دلچسپی لیتے ہیں کہ شیرینی کے دو حصے شاید اسی میں ہوں گے۔محض ہر دسواں مرد یہ جانتا ہے کہ ساری عورتیں ایک سی ہیں کیونکہ شکر کا گیارہواں ٹکڑا اس نے خود کھا لیا تھا۔۔۔
باباجی نے ایک واقعہ ہم سے شیئر کیا۔۔کہتے ہیں۔۔کل چپاتی کے کنارے ٹھیک سے پکے نہ تھے. میں نے بیگم سے شکایت کی دیکھیں اسے اگر ایک لمحہ مزید کی سینک مل جاتی تو یہ کنارے ضائع نہ ہوتے، بیگم نے کہا ،آپ ہمارے توے کو تو دیکھیں، اس توے پر اتنی چپاتی پک گئی یہی کمال ہے۔۔میں نے یوٹیوب کھول کر خانہ بدوش خواتین کی ایک ویڈیو دیکھنے کو دی جو آگ پر چھوٹے چھوٹے گول پتھر جوڑ کر ان کو گرم کر کے بنا توے کے اس پر روٹی بنا رہی تھیں۔۔ بیگم نے ویڈیو دیکھی مجھے سیل فون واپس کیا اور کہا ،ویڈیو میں روٹی پکانے اور حقیقت میں بہت فرق ہے، فلموں میں تو سپر مین بھی اڑ رہا ہوتا ہے، آپ اڑ کر تو دکھائیں۔ روٹی چھوڑیں ان خانہ بدوش لڑکیوں نے یہ جو ملٹی کلر کے گھاگرے پہنے تھے جن کے گلے اور آستینوں پر ریشمی کام ہوا ہے، دیکھیں کتنی خوبصورتی کے ساتھ اس میں شیشے کا کام ہوا ہے۔۔ یہ کہاں سے ملتے ہیں؟؟؟میں نے دل میں کہا ۔۔بھاڑ میں گئی یہ دانشوری اور زبان سے بیگم کو کہا۔۔چھوڑو بیگم چپاتی کے کنارے اتنے بھی کچے نہیں ہیں۔ میں کھا لیتا ہوں۔۔
ایک صاحب کو فیملی ڈرائیور کی ضرورت تھی اور اس نے اخبار میں اشتہار ڈال دیا کہ ہمیں ایسا ڈرائیور چاہیے جو مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہو۔۔شادی شدہ ہو،پابند صوم و صلات ہو۔لمبی سفید داڑھی ہو۔عمر 50 سے اوپر ہو۔۔حاجی ہو۔۔تہجد گذار ہو۔۔حج کے علاوہ اضافی عمرے یا حافظ کو ترجیح دی جائے گی.۔۔کافی لوگ انٹرویو کیلئے آئے لیکن کہیں نہ کہیں کوئی کمی نکل آتی۔۔ آخر ایک مندرجہ بالا خصوصیات کا حامل 52 سالہ سفید داڑھی والا باریش شخص مل گیا۔۔ جب ان کو گاڑی کی چابی دی گئی تو وہ کہنے لگے۔ میری بھی 3 شرائط ہیں۔۔جناب کو بڑے صاحب یعنی گھر کے سربراہ کے سامنے پیش کیاگیا، انہوں نے پوچھا، بتائیں آپ کی کیا تین شرائط ہیں؟؟ وہ کہنے لگے۔۔ پہلی شرط یہ کہ گاڑی میں ٹیپ ریکارڈ نہیں بجے گا۔۔کہا کہ ٹھیک ہے دوسری شرط؟؟دوسری شرط یہ کہ نماز کے وقت گاڑی پارک کر کے نماز پڑھوں گا۔۔کہا کہ ٹھیک ہے آخری شرط بتاؤ؟؟کہا کہ مجھے گاڑی چلانی نہیں آتی آپ چلانا سکھائیں گے۔۔واقعہ کی دُم: یہ سچا واقعہ بن چکا ہے، اس قوم نے بھی ایسا محب وطن انقلابی ڈھونڈا ہے جسے ملک چلانا نہیں آتا، کبھی ملک میں ٹماٹر نہیں ہوتا، کبھی آٹے،چینی کی قلت اور کبھی ادویات نایاب ہوجاتی ہیں۔۔کبھی اسے اپنی تنخواہ کی پڑی ہوتی ہے کہ جناب کتے سمیت تین لوگوں کا دولاکھ میں گزارا نہیں ہوتا،ارے بھائی پہلے گاڑی چلانا تو سیکھ لیتے؟؟
معروف فوک سنگر عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی اور معروف رائٹر مستنصر حسین تارڑ کی پی ٹی وی کے کسی پروگرام میں ہلکی پھلکی نوک جھونک جاری تھی۔۔تارڑ صاحب نے سوال کیاکہ۔۔یہ جوآپ کے گانوں میں اذیت ہے یعنی سنگلوں سے مارنے والی اور یہ جو ہجر اور فراق ہے۔۔ یہ کوئی اپنے آپ تو نہیں ہو جاتا۔۔۔ بس یہ بتائیں کہ یہ کس کا ہجر و فراق ہے۔؟؟؟۔۔عطااللہ عیسیٰ خیلوی بولے۔۔ آپ کی اس بات سے ایک دلچسپ واقعہ یاد آ گیا۔۔پھر واقعہ سنانے لگے ، کہتے ہیں۔۔ میں کچھ عرصہ اسلام آباد میں بھی رہا ہوں۔ وہاں پی ٹی وی کے کسی پروگرام میں میرا یہی گانا ریکارڈ ہوا کہ۔۔ بالو بتیاں وے ماہی میکوں مارو سنگلاں نال۔۔ ریکارڈنگ ٹی وی پہ چلائی گئی تو ایک دن رات دو بجے مجھے فون آیا۔۔ دوسری طرف سے ایک نسوانی آواز تھی۔۔ میں ان دنوں سنگل بھی تھا اس لئے تھوڑا الرٹ ہو گیا۔۔ خاتون کہنے لگی کہ میں نے آپ کا گانا سنا مگر ایک شعر کی سمجھ نہیں آئی۔۔ اگر آپ سمجھا دیتے تو۔۔۔کہنے لگے کہ میں نے کہا کہ خاتون رات کے دو بج رہے ہیں۔ پھر بھی آپ بتائیں۔۔ کوشش کروں گا کہ سمجھا سکوں۔۔خاتون بولیں کہ اس شعر کا مطلب بتائیں کہ۔۔ میں اتھاں تے ڈھولا واں تے۔۔میں سمّاں ڈھولے دی بانہہ تے۔۔ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ اصل میں ڈھولے ماہیے کا پہلا مصرع بے معنی سا ہوتا ہے صرف قافیہ ردیف ملانے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور دوسرا مصرع بڑا جاندار ہوتا ہے جیسا کہ اس شعر میں ہے۔۔ ویسے ’’واں‘‘ ہمارے علاقے میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔۔ بہرحال شعر کا مطلب یہ ہے کہ میں کہیں اور ہوں اور میرا محبوب کہیں اورہے۔۔ میرا جی بڑی شدت سے چاہتا ہے کہ میں اپنے محبوب کے بازو پہ سر رکھوں اور سو جاؤں۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔کہتے ہیں کہ خاتون بڑے تحمل سے میری بات سنتی رہیں۔۔ جب میں خاموش ہوا تو خاتون فی الفور گویا ہوئیں۔۔۔۔ شکل دیکھی ہے اپنی۔۔۔ اور کھٹاک سے فون بند کر دیا۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ منصف کے لیے یہ ضروری ہے کہ فیصلہ کرنے سے قبل وہ اتنا ضرور سوچے کہ ایک دن اسے بھی کسی ملزم کی طرح ایک بڑی عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔