تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،ایک خبر کے مطابق عدالت نے دلہن کا میک اپ ادھورا چھوڑنے پر بیوٹی پارلر کو پچاس ہزار روپے جرمانے کا حکم سنادیا۔لاہور کی صارف عدالت میں دلہن کا میک اپ ادھورا چھوڑنے والے پارلر کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، جج وسیم افضل میاں نے ڈاکٹر شازیہ کے دعویٰ پر سماعت کی، درخواست گزار نے بتایا کہ سیلون کی مالکن نے طے شدہ رقم سے زائد مانگی اور دلہن کا میک اپ ادھورا چھوڑ کر سیلون سے باہر نکال دیا۔درخواست گزار نے استدعا کی عدالت پارلر کو ایک لاکھ دس ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دے جس پر عدالت نے بیوٹی پارلر کو پچاس ہزار ہرجانہ دینے کا حکم دے دیا۔
یعنی خبر کے بعدجب ہم نے تصوراتی گھوڑے دوڑائے تو ہمیں اندازہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحبہ کی شادی پھر کیسے ہوئی ہوگی؟ غریبوں اور ہم ایسے مڈل کلاسیوں کو اپنے گھروں میں وہی ’’باسی‘‘ چہرے دیکھنے پڑتے ہیں ۔۔ جیسا کہ ایک صاحب کی بیگم صاحبہ چار گھنٹے بعد پارلر سے بڑی تیارشیارہوکر لوٹیں،اور گھر میں گھستے ہی شوہر کو وضاحت دینے لگیں کہ ۔۔اتنی دیر لگ گئی،پارلر والوں کو ذرا بھی احساس نہیں۔۔شوہر نے ایک نظر بیوی کو دیکھا اور برجستہ کہا۔۔کیوں ؟ پارلر بند تھا کیا؟؟ اب خود سوچیں اس کے بعد شوہر بے چارے کا کیا حال ہوگا؟؟سیانے کہتے ہیں کہ بیویاں دو طرح کی ہوتی ہیں۔۔ ایک ہوتی ہے اچھی بیوی جو شوہر کو بہت اچھی طرح پریشان کرکے رکھتی ہے، اور بری بیوی وہ ہے جو شوہر کو بری طرح پریشان کرے۔۔ بعض خاوند اپنے بیویوں کو بے پناہ چاہتے ہیں اور بعض تو بس پناہ چاہتے ہیں۔۔ہوٹل میں کھانے کے بعد اٹھتے ہوئے بیوی نے جب کہا ’’جانو ویٹر کو Tipتو دیدو تو شوہر نے ویٹر کو پاس بلا کر کہا ’’شادی نہ کرنا‘‘۔۔بیوی نے لاڈ بھرے انداز میں شوہر سے کہا ’’شادی کیا ہوئی، آپ نے تو مجھے پیار کرنا ہی چھوڑ دیا‘‘ شوہر کا جواب تھا ’’ارے پگلی امتحان ختم ہونے کے بعد بھلا کون پڑھتا ہے‘‘۔
خاتون خانہ نے جب بڑے لاڈ بھرے اندازمیں کہا ۔۔اجی ذرا سنیئے گا۔۔شوہر حیران ہوکربولا۔۔ بیگم جب سے شادی ہوئی ہے تب سے تم کو ہی تو سن رہا ہوں ۔۔خاتون خانہ نے ماتھے پر تیوریاں ڈالتے ہوئے ذرا سخت لہجے میں کہا۔۔میں مذاق کے موڈ میں بالکل بھی نہیں پہلے ہی میرا سر درد سے پھٹا جارہا ہے اور ایک آپ ہو، جنہیں میری کوئی فکر ہی نہیں اب آپ کو مجھ سے وہ پہلے والی محبت نہیں رہی آپ بہت بدل گئے ہیں ۔یہ کہہ کر خاتون خانہ نے آنکھوں سے مصنوعی آنسوبھی صاف کر ڈالے۔۔ شوہر نے ٹی وی کو ریموٹ سے بند کرتے ہوئے کہا۔۔ادھر آؤ میں تمہارا سر دبا دیتا ہوں۔۔ خاتون خانہ نے منہ دیوار کی طرف کرتے ہوئے فرمائش کرڈالی کہ۔۔نہیں کوئی ضرورت نہیں آپ بس مجھے میڈیکل اسٹور سے سر درد کی دو گولیاں لادیں ۔۔شوہرباہرجانے لگا تو پیچھے سے آواز دے دی، ذرا سنیئے گا،مجھے بھی ساتھ لیتے جائیں،میں بھی باہر کی تازہ ہوا کھالوں گی۔۔پھر دونوں میاں بیوی گاڑی میں بیٹھے اور میڈیکل اسٹور کی جانب روانہ ہوئے،راستے میں ایک دکان پر فرائیڈے سیل کا بورڈ دیکھ کر خاتون خانہ نے رکنے کا کہا۔ ۔ شوہر سمجھ گیا کہنے لگا۔۔بیگم میں صرف میڈیسن کے پیسے لیکر آیا ہوں میرے پاس شاپنگ کے پیسے نہیں ہیں ۔۔بیوی نے مسکرا کر کہا۔۔اوہو شاپنگ کب کرنی بس دیکھنا ہی ہے لیڈیز ورائٹی پر کتنا ڈسکاؤنٹ مل رہا ہے۔۔شوہر مطمئن ہوگیا کہ بیگم نے کون سی شاپنگ کرنی ہے، وہ دکان میں لگے صوفے پر بیٹھ گیا، کوئی ایک گھنٹے بعد بیگم صاحبہ ہاتھ میں دو سوٹ اور ایک جوتا پکڑے آئی اور پوچھنے لگی، کیسے لگ رہے ہیں؟ شوہرکے دماغ میں تھا کہ بیگم ویسے ہی پوچھ رہی ہوگی اسے کون سی شاپنگ کرنی ہے۔۔فوری بول اٹھا، بیگم بہت زبردست ہمیشہ کی طرح تمہاری چوائس اس بار بھی بڑی بہترین ۔۔تھوڑی دیر بعد بیگم ہاتھوں میں دو شاپر اور دس ہزار کا بل پکڑے سامنے کھڑی تھی ۔۔شوہر نے پوچھا تمہارے پاس پیسے کہاں سے آئے؟؟ بیگم نے کیوٹ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔گھر سے نکلتے وقت آپ کا کریڈٹ کارڈ ساتھ لے آئی تھی۔شوہر بیچارہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ بیگمات کے دماغ میں ایسے آئیڈیا کدھر سے آتے ہیں،اسی سوچ میں غرق شوہر نے میڈیکل اسٹور کے سامنے گاڑی روک دی۔۔بیگم نے پوچھا، اب یہاں کیوں رکے ؟؟شوہر بولا، بھئی تمہارے سر درد کی میڈیسن لینے کے لیے رکا ہوں۔۔یہاں بیگم نے وہ تاریخی جملے کہے جو آج تک کسی شوہر کو سمجھ نہیں آسکے۔۔رہنے دیں خود ہی ٹھیک ہوجائے گا، میں آپ کا زیادہ خرچہ کرانا نہیں چاہتی۔۔
باباجی کو تو آپ سب لوگ جانتے ہی ہیں۔۔ ایک روز باباجی کے ساتھ محفل جمی ہوئی تھی۔۔ گرماگرم چائے کے کپوں سے دھوئیں اٹھ رہے تھے۔۔۔ باباجی کی دلچسپ باتوں کا سلسلہ جاری تھا۔۔ ہم نے باباجی سے اچانک پوچھ لیا ۔۔باباجی،ایک بات ہماری سمجھ نہیں آتی ،یہ کیوں کہاجاتا ہے کہ شیشے کے مکان میں بیٹھ کر پتھر نہیں مارنے چاہئے۔ ۔باباجی نے اپنی نظروں کا فوکس ہمیں بنایا،پھر سگریٹ کا لمبا سے کش کھینچا اور مسکراکر کہنے لگے۔۔ اس طرح سب کو پتہ لگ جاتا ہے کہ پتھر کون مار رہا ہے۔ ۔باباجی کی باریک باتوں کی جب سمجھ لگتی ہے تو دل کی گہرائیوں سے قہقہے نکلتے ہیں۔۔ ایک دن کہنے لگے۔۔سب کا وہی ’’مطلب‘‘ ہوتا ہے مگر کہتے سب یہی ہیں کہ میرا ’’وہ‘‘ مطلب نہیں تھا۔۔ لتاجی کے انتقال پر جب باباجی سے تبصرہ فرمانے کوکہا تو کہنے لگے۔۔لتا جی کے بعد فن موسیقی کا سارا بوجھ اب ’’نصیبو لعل‘‘ کے نازک کاندھوں پر آن پڑا ہے۔۔باباجی سے جب ان کی بیگم نے کہا۔۔آپ مجھے صبح سے گھور کیوں رہے ہیں؟باباجی نے برجستہ کہا۔۔ مجھے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اپنے بلڈ پریشر پہ نظر رکھو۔۔باباجی جب اپنی زوجہ ماجدہ کے ساتھ ایک شادی کی تقریب میں گئے تو حسب عادت دیگر خواتین کو ’’ تاڑنے‘‘ میں مصروف ہوگئے، زوجہ ماجدہ کافی دیر سے برابرمیں بیٹھی ان کی یہ حرکت برداشت کررہی تھیں جب معاملہ حد سے زیادہ نظر آیا تو باباجی سے اچانک سوال کرڈالا۔۔۔ ایسا کیا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو چھوڑ کر دوسرے کی بیوی دیکھتا ہے۔۔باباجی نے معصومانہ انداز میں جواب دیا۔۔ کوئی اپنی غلطی کو تھوڑی دیکھتا ہے ہمیشہ دوسرے کی غلطی کو دیکھتے ہیں۔۔باباجی فرماتے ہیں۔۔عورت مرد کی برابری بھی کرنا چاہتی ہے لیکن زرا سی مونچھیں نکل آئیں تو بھاگ کر بیوٹی پارلر پہنچ جاتی ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔نیچے گرنا ایک حادثہ ہے ، نیچے رہنا ایک مرضی ہے۔ خوش رہیں،خوشیاں بانٹیں۔