تحریر: خرم علی عمران۔۔
ویسے تویہاں ہرہر شعبے میں، ہر شہر قصبے اور دیہات میں مہنگائی اور بے روزگاری اپنے جوبن پر ہے اور ہر جانب جیسے ایک کہرام سا مچا ہوا ہے لیکن میڈیا کے شعبے میں چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک مہنگائی کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کا عفریت بلخصوص جس طرح درمیانی اور نچلی سطح کے غریب میڈیا کارکنوں کی زندگیاں نگل رہا ہے وہ بہت ہی الم انگیز اور دردناک ہے۔ایک مشہور شعر ہے جس کا دوسرا مصرعہ تو زبان زد عام ہے اور تحریر و تقریر میں بہت استعمال ہوتا ہے ؎ تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے۔۔ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔۔ یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ نزلہ ہمیشہ عضو ضعیف پر گرتا ہے اور ہمیشہ کمزور ہی زد پر آیا کرتے ہیں۔ میڈیا کے کارکنوں کے حوالے سے اوپر کہی گئی باتیں جتنی موجودہ حالات میں صادق آ رہی ہیں ایسے حالات تو کبھی نہیں تھے۔ کوئی دن نہیں گزرتا کہ کسی نہ کسی میڈیا کارکن کے بارے میں کوئی بری خبر سیاق و سباق کے ساتھ سننے کو مل جاتی ہے۔ کیسے کیسے مخلص اور نایاب لوگ، جن میں نوجون،جوان اور ادھیڑ عمر کے عام میڈیا کارکن اور مختلف شعبوں سے وابستہ افراد شامل ہیں زندگی سے ہار کر چلے گئے ان کا جرم کیا تھا،یہی کہ وہ اپنے اپنے اداروں کے وفادار تھے، دن رات کی پرواہ کئے بغیر، ہر طرح کے حالات میں اپنی زندگیاں تک داؤ پر لگا کر،اپنی سماجی زندگی تباہ کرکے اپنے فرض کی ادائیگی میں منہمک رہتے تھے، کیمرہ مین، فوٹو گرافر،رپورٹر، دفتری کام کرنے والے مختلف شعبوں کے افراد کو جس بے رحمی سے برباد کیا گیا اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے وہ سنگ دلی، بے حسی اور شقاوت قلبی کی بدتریں مثال اور سرمایہ دارانہ بے حسی کا متوقع مظہر ہے۔
ابھی حال ہی کتنے ہمارے میڈیا کے ساتھی اور دوست، ہم سے بچھڑ گئے بیشتر کی اموات کی وجہ معاشی پریشانیاں اور اس سے پیدا ہونے والے ذہنی دباؤ اور نتیجتا حرکت قلب بند ہوجانا ہے۔ کوئی کسی سیاسی جماعت کے قائدین کی چالاکیاں بے نقاب کرنے پر سندھ میں بے دردی سے زہریلا انجکشن لگا کر ہلاک کردیا گیا تو کہیں دیگر صوبوں میں بھی اسی طرح مختلف معاملات میں اپنی جان گنواتے ہیں یا زخم سہتے ہیں تو کوئی دماغ کی رگ پھٹ جانے سے دنیا سے چلا گیا کہ مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی تھی اور آخر میں برطرفی کا خط تھما دیا گیا اور واجبات کے بارے میں طفل تسلی دے دی گئی تو وہ بے چارہ کیا کرتا بس ناراض ہوکر کسی نے دماغ کی رگ پھاڑ لی اور کسی نے احتجاجا اپنے دل کو دھڑکنے سے روک دیا ،بے چارے جرم ضعیفی کے مارے اور کر بھی کیا سکتے تھے۔
ویسے تو تانا شاہی کے وزن پر خانا شاہی حکومت نے جوجو بے سر وپا خواب دکھا کر اقتدار حاصل کیا تھا اس میں کچھ بھی بدتر سے بدتر ہونا متوقع ہی تھا لیکن ایسا بدترین ہونے کی پھر بھی توقع نہیں تھی، ہم تو سمجھے کہ چلوں ابھی ناتجربہ کار ہیں لیکن بد عنوان نہیں ہیں،بد نیت بھی نہیں لگتے کچھ وقت کے بعد معاملات میں سدھار آ ہی جائے گا ،تبدیلی ائی ہے تو بہتری بھی آئے گی،ترقی بھی نصیب ہوگی، ترقی تو ترقیء معکوس کی شکل میں اور بہتری ابتری کے روپ میں اور تبدیلی بجائے مثبت کے منفی نتائج دیتی ہوئی فی الحال جھوم جھوم کر رقص کرتی نظر آ رہی ہیں،آگے کی خدا جانے۔معاشی ترقیوں کا شور مچانے والے اور بہتر دن شروع ہونے کی نوید سنانے والے شاید غریب کی چیخیں سننا ہی نہیں چاہتے کہ وہ کس حال میں جی رہے اور مر رہےہیں۔ ان کی صبح کس طرح ہوتی ہے اور ان کے گھروں میں رات کو کیا قیامت کے کیا مناظر ہوتے ہیں؟ بچوں کے دودھ سے لے کر گھر کے راشن تک کے معاملات میں گھروں میں لڑائی جھگڑے عام ہوتے جارہے ہیں۔ جو خوش قسمتی سے ابھی تک بے روز گاری سے بچے ہوئے ہیں وہ بھی ہر وقت ذہنی دباؤ اور خدشات میں گھرے اپنے فرائض سر جھکائے پورا کررہے ہیں۔ یہ کوئی نہیں سوچ رہا کہ بیس پچیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا شخص کس طرح اپنے گھریلو اخراجات پورے کررہا ہے، یہ وہی جانتا ہے یا پھر اس کا خدا جانتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا تو بس اسکے وطن کے اشرافیہ ، مقتدرہ ،اس کا ادارہ اور حاکم وقت نہیں جانتا۔
دراصل ایک عام آدمی کے جرائم بھی تو بہت بڑے ہوتے ہیں نا اس لئے اسے ایسی ہی سزائیں ملنی چائیں۔ اب جرم ضعیفی اور جرم جہالت کے ساتھ ساتھ حصولِ رزق حلال کی سعی، ایمانداری ،وفاداری، محنت کو اختیار کرنا اور پوری دل جمعی سے ہر قسم کے موافق اور نا موافق حالات اپنی ذمہ داریاں بجا لانا، اپنے بجلی گیس پانی کے بل بھرنے میں تاخیر نہ کرنا، اپنے وطن سے محبت کرنا،یہیں جینا یہیں علاج کروانا اور یہیں مرنا اور بھی ایسی کئی عجیب و غریب سی بری عادات اور جرائم کا یہاں کا عام آدمی شکار ہے تو پھر سزا تو ملے گی ہی نا اسے ان کی جانب سے جن کا مقصد بس طاقت کے حسول کے بعد مال و زر کے انبار جمع کرنا ہے، اور ان کی جانب سے جو اس ملک میں کسی بھی قسم کے سدھار سے نفرت کرتے اور ڈرتے ہیں اور ہر قسم کے بگاڑ کو خوب پسند کرتے ہیں کہ اسی میں ان کی بقا کا راز مضمر ہے، جو اس ملک کے ہرشعبے کو ٹھکیدارانہ نظام کے تحت اور ایڈہاک ازم پر چلانے میں مسرت اور اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ جنہیں بدعنوانی کے لئے نت نئے نظام بنانے میں بے پناہ فخر اورخوشی محسوس ہوتی ہے، جو اس وطن کو سونے کی کان سمجھ کر خوب کمائیاں کر کر کے اور پیسہ بنا کر باہر کے ممالک میں جمع کراتے ہیں اور وہیں کہیں اپنی اپنی دنیاوی جنتیں بنا لیتے ہیں اورپھر بڑی ایمانداری سے اپنے جونیئر استحصالی گروپ کو موقع دیتے ہوئے باہر جاکر آرام دہ زندگی گزار کر مر جاتے ہیں،تو انہیں کیا پروا کہ کوئی جئے یا مرے بس ان کا کام نہ رکے اور بالاذکر کردہ سارے جرائم کے مرتکب عام لوگ ان صاحب لوگوں کی راہ میں خوامخواہ کی رکاوٹیں پیدا کرتے رہتے ہیں تو پھر تو سزا دینا بنتا ہے نا باس۔۔(خرم علی عمران)۔۔