تحریر: ناصر بیگ چغتائی22
ضیا کو اپنے پہلے سول وزیر اعظم سے حلف لینا تھا ۔ تقریب صبح تھی ۔ ہم 3 بجے صبح اخبار کی تمام کاپیاں بھیج کر گھر گئے اور صبح 9 بجے واپس آگئے ۔ میر صاحب( ۔میر خلیل الرحمان ) سے باتیں کیں خلاف معمول انہوں نے سبز چائے پلائی اور اپنی عمومی تجاویز دیں کیونکہ مجھے فورا ضمیمہ نکالنا تھا ۔۔۔۔ہم سب لائبریری میں جمع ہوئے جہاں مانیٹرنگ کا خصوصی انتظام تھا ۔ خبریں دوسروں کو دینی تھیں لیکن میں صرف ہیڈ لائین اور تصویروں کی فکر میں تھا ۔۔کمزور نحیف وزیر اعظم کی تقریر شروع ہوچکی تھی ۔۔
۔۔کوئی توقع نا تھی ۔۔۔آخر ضیا کا وزیر اعظم تھا لیکن پھر اس نحیف جسم سے آواز آئی
میں یقین رکھتا ہوں کہ جمہوریت اور مارشل لاء ساتھ نہیں چل سکتے
میں اچھل پڑا ۔ مانیٹر کو دیکھا وہ میری تصدیق کررہا تھا ۔۔۔۔
میں فرسٹ فلور پر نیوز روم میں آیا لیزر کام اور کاتب تیار تھے ۔۔۔
” جمہوریت اور مارشل لاء ساتھ نہیں چل سکتے، وزیر اعظم جونیجو
ہیڈ کاتب ساجد صاحب نے بغور دیکھا پڑھا مجھے گھورا اور پوچھا ” نور داخل کر دیا “
مطلب واضح تھا ۔ ضیا کا وزیر اعظم مارشل لاء اٹھانے کا مطالبہ کررہا ہے ۔۔
ہیڈ لائین کی سرخیاں بنائیں تصویریں منتخب کیں ۔ میر صاحب سے فون پر بات کی ۔۔۔۔اسی دوران پیسٹنگ شروع ہوچکی تھی ۔ ایک ہی صفحہ تھا ۔۔۔۔کام ہم تیز ہی کرتے تھے ۔۔۔۔
” میاں سرخی کیا ہے ” میر صاحب کا پھر فون آیا ۔
میں نے بتا دیا
” سنو بھائی ۔ میری آپ سے تقریر کے بعد بات ہوئی نا رابطہ ۔ سپلیمینٹ جلدی بھیج دو “
میں سب کچھ سمجھ گیا ۔نیوز روم سے کہا ” میں غائب “
لیزر کام میں کام کیا ۔ نیچے پریس میں پلیٹس بنوا کر پرنٹنگ شروع ہونے تک وہیں رہا ۔۔۔۔پھر لنچ کے لئے نکل آیا
9 بجے ٹی وی کی خبروں سے یہ جملہ حذف کیا جاچکا تھا کہ جمہوریت اور مارشل لاء ساتھ نہیں چل نہیں چل سکتے
صبح ایک اور اپ سیٹ ہو چکا تھا
وزیر اعظم جونیجو نے سب سے طاقت ور جنرل مجیب الرحمان سیکرٹری اطلاعات کو عہدے سے ہٹا دیا تھا
جرم ۔۔۔۔وزیر اعظم کی تقریر کو سینسر کیا ۔(ناصربیگ چغتائی)