تحریر: عبدالرحیم شریف۔۔
استاد کلاس روم میں داخل ہوئے اورجھٹ سوال داغ دیا،،کتے کی زندگی کامقصدکیاہوتا؟؟؟؟،،،کلاس روم میں اس غیرمعمولی سوال پر یکدم سناٹاچھایا،،،بھلا کتے کی زندگی پرکون غوروفکرکرے،،یہاں انسانوںکی زندگی کے روگ کیا کم ہیں۔۔۔
استاد نے کلاس روم کے گہرے سکوت کو خود توڑا اور کلاس کے ذہین طالب علم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، عمر تم بتاؤ؟؟ جواب ملا۔۔بھلا کتے کا بھی کوئی مقصد حیات ہوتا ہے؟؟ اورکوئی طالب علم جو ٹھیک جواب دے سکے،؟؟؟،،استادکے سوال پرکلاس روم میں پھرخاموشی چھاگئی۔۔چندلمحوں کی خاموشی کے بعد وہ خود ہی گویا ہوئے،،لڑکو!۔غورسے سنو۔۔۔یہ کہنا غلط ہے کہ کتے کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا،،،،،روٹی کے چند ٹکرے،، ،، اورہوس کی تکمیل،،،بس یہی دو مقاصد ہیں،،،جو اس جانور کی زندگی کے گرد ہی مختلف کہانیوں کی صورت گھوم رہے ہیں،،،،ان دوخواہشات کی تکمیل میں وہ ساری زندگی رال ٹپکائے سرپٹ دوڑتا اورمالک کے گرد دم ہلائے منڈلاتا رہتاہے۔۔۔ ۔
تھوڑی دیربعد استاد نے سنجیدگی سے کہا،،لڑکو روٹی اورہوس۔۔کیا یہی زندگی ہے،،؟
میٹرک کی الوداعی کلاس کو استاد محترم کی کی گئی نصیحت برسوں گزرنے کے باوجود آج بھی تازہ ہے ۔
زندگی کا یہ مشاہدہ ہے۔،،بڑے بڑے علمی اورجہاندیدہ لوگوں کی زندگی بھی بس آئے،،کھائے،،خواہشات کی تکمیل کی،،اپنی، ذات بچوں کے لیے کچھ حدتک شہرت اور بہت سا پیسہ کماکرچلتے بنے،،،،بہت کم لوگ ہوتے ہیں،،جوصورت خورشیدجیتے اورجگنو بن کرچمکتے ہیں،،،یا اپنے شعبوں میں معمول سے ہٹ کرقابل ذکرکام کرتے ہیں جس کا کسی نہ کسی شکل میں کوئی مقصد بھی ہو ،جس سے بہت سے لوگ مستفید بھی ہوتے ہوں،،،ہمارے معاشرے یا جس شعبے ( صحافت)سے ہم وابستہ ہیں،،یہاںایک دوسرے کی زندگی میں جھانکنے اورحالات زندگی سے واقف رہنے کاخال خال ہی موقع ملتا ہے۔۔افراتفری کا عالم، مشینی زندگی۔۔سمندر کے قریب بسے کراچی والوں والوں کے لئے ایک گاؤں کے بدیسی نے کہا۔۔ اس شہر میں تو پاگل کے پاس بھی کسی کے لئے وقت نہیں، ،بدیسی کی یہ بات مجھے یوں لگی جیسے اس نے صحافت اور میڈیا انڈسٹری میں کام کرنے والوں کے لیے یہ بات کہی ہو،
میں جب اپنے استادسینئربنام جونیئرکو دیکھتا ہوں توکسی دانشورکی یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ۔۔۔بڑے لوگ وہ ہوتے ہیں اوربڑا کام بھی وہی کرتے ہیں جو اپنے اوپرپھینکی گئی کنکریوں کو جمع کرکے ان پتھروں سے ایک ادارے کی بنیادرکھ لیتے ہیں۔۔۔علی عمران جونیئربھی شعبہ صحافت میں مقصدیت کے قائل اور معمول سے ہٹ کرکچھ کرنے کے لیے قابل تقلیدمثال ہیں،،جواب صحافت کے جگنوبن کرچمک رہے ہیں۔
کرونا نے اس مشینی زندگی کر بریک لگادی ہے۔۔معاشی بدحالی کا شکارصحافی ہوں ،یا غریب دیہاڑی دار سب ہی کے لیے نان شبینہ کا اہتمام اوربچوں کی کفالت کرناامتحان بن چکا ہے۔ایسے میں ہمیں ہمارے اساتذہ کی زندگی جگنوبن کر جینے کا سبق دے رہی ہے۔
۔۔زندگی،ہم سب کی،وقت ہم سب کا ،صحت اور سلامتی۔مگرکب تک، ان کی کوئی ضمانت نہیں،،فیصلہ ہم ہی نے کرنا ہے،،صحرا میں ریت کے ذرے کی طرح جینا ہے یا ،،اندھیری رات میں جگنوبن کرچمکنا ہے۔۔۔(عبدالرحیم شریف)۔۔