تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،باباجی فرماتے ہیں، ضرورت ایجاد کی ماں اور ’’جگاڑ‘‘ ایجاد کے ابو ہیں۔۔ جگاڑ اردو، ہندی اور پنجابی زبانوں میں عام استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ جگاڑ ہندی اور پنجابی کا لفظ ہے جس کا مطلب کوئی مشکل کام کرنے کا آسان طریقہ نکالنا ہے۔ اس طریقہ میں پہلے سے موجود ذرائع کو استعمال کر نا یا معمولی ذرائع استعمال کر کے نئی چیز بنانا ہوتا ہے۔جگاڑ کا خیال بنیادی طور پر مغربی دنیا سے اور بالخصوص امریکا سے آیا ہے جس میں کسی کام کے کرنے کو اہمیت دی جاتی ہے حالانکہ روایتی طور پر اس کام کا ہونا ممکن نہ سمجھا جاتا ہو۔جگاڑ کو بتدریج اہمیت حاصل ہو رہی ہے، بھارت میں اسے بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ بھارت میں کمپنیاں تحقیق اور ترقی کی قیمت کو کم رکھتے ہوئے جگاڑ کو اپنا رہی ہیں۔ کسی کام کو کرنے کی غیر روایتی سوچ اور لائف ہیکنگ کو جگاڑ کہا جاتا ہے جس سے کام کرنے کے ذرائع کو بڑھایا جا سکے۔
ہم لوگ تہہ دل سے ایک جگاڑو قوم ہیں۔ دنیا میں جو کچھ ممکن نہیں ہوتا ہم وہ بھی جگاڑ سے کر لیتے ہیں۔ یہ عادت ایسے شدید طریقے سے ہماری رگوں میں دوڑ رہی ہے کہ نچوڑنے پہ شاید خون بھی اتنا باہر نہ آئے جتنی مقدار جگاڑ کی برآمد ہو گی۔کشکول ہمارا قومی نشان، جگاڑ ہماری سیاست اور عوام کی طرف سے ٹھنڈ ہماری حکومتوں کا شیوہ بن چکا ہے۔ لطیفہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ امریکی صدر کے کچھ نمائندے پاکستان آئے تو ان کو مختلف صنعتوں اور جگہوں کی سیر کروائی گئی۔ ان کا مقصد یہ پتا کرنا تھا کہ اتنے مشکل حالات کے باوجود یہ ملک کس طرح سروائیو کر رہا ہے۔ وطن واپسی پر جب صدر نے ان سے رپورٹ مانگی تو انہوں نے بتایا کہ پاکستانیوں نے تو اپنی ہر چیز جگاڑ پر چلائی ہوئی ہے۔ صدر نے پوچھا کہ جگاڑ کیا ہوتا ہے تو وفد نے جواب دیا ہمیں یہ تو نہیں پتا لیکن ہم جس جگہ بھی گئے تو ہمیں یہ ہی بتایا گیا کہ جگاڑ لگایا ہوا ہے۔پھر جب امریکی صدر نے کہا کہ آپ نے حکومت سے پوچھا نہیں کہ جگاڑ ہوتا کیا ہے؟ اور آپ نے پاکستانی حکومت سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ یہ جگاڑ ہمیں دے دیں۔ وفد نے جواب دیا کہ ہم نے حکومت سے جگاڑ مانگنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ہم آپ کو کیسے دے دیں ہم نے تو خود اپنی حکومت جگاڑ پر چلائی ہوئی ہے۔
جگاڑ کے حوالے سے ہی دو دلچسپ خبریں بھی ملاحظہ کیجئے۔۔تھانہ نیو ملتان کے علاقہ میں نامعلوم مسلح افراد کی سوہن حلوہ کی د کان پر لوٹ مارکی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آگئی۔موٹرسائیکل سوار تین ڈاکوؤں نے اسلحہ کے زور پر سوہن حلوے کی د کان میں لوٹ مار کی۔ ڈھائی منٹ کی واردات کے دوران ڈاکوؤں نے کاؤنٹر کی تلاشی لی۔رقم کم ملنے پر شاپروں میں 12 کلو سوہن حلوہ پیک کروایا اور ساتھ لے گئے۔ڈاکو 15 ہزار نقدی، سوہن حلوہ،2 موبائل فون چھین کر باآسانی فرار ہوگئے۔ پولیس نے مقدمہ درج کرلیا۔دوسری خبر ہے کہ چین میں چار افراد ایئرپورٹ پر 30 کلو مالٹے کھانے کے بعد شدید السر کا شکار ہوگئے۔ ان افراد کو کہا گیا تھا کہ وہ ان پھلوں کو لے جانے کے لیے اضافی سامان کی فیس ادا کریں۔ تاہم ان افراد نے صوبہ یونان کے کنمنگ چانگشوئی بین الاقوامی ایئرپورٹ پر اضافی ادائیگی سے انکار کردیا اور اس کی بجائے مالٹوں کو کھا لینے کا انتخاب کیا۔چینی اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق ان افراد نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ 300 یوآن فیس کی رقم تھی جبکہ مالٹوں کی قیمت 50 یوآن،یعنی فیس کی رقم مالٹوں کی اصل قیمت سے چھ گنا زائد تھی۔۔ یہ واقعہ رواں ہفتے چین میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ ان افراد میں سے ایک نے بتایا کہ ہم وہاں کھڑے ہوئے اور سارے مالٹے کھالیے۔ اس تمام عمل میں ہمیں 20 سے 30 منٹ لگے لیکن اس کے بعد ہم بیمار ہوگئے۔ ان کا مزید کہنا تھااب ہم کبھی بھی مالٹے نہیں کھانا چاہتے۔۔آپ نے پاکستانیوں کی جگاڑ دیکھی، ڈاکوؤں کو رقم کم نظر آئی تو سوہن حلوہ ہی پارسل کرکے لے گئے۔۔جب کہ دوسری طرف کسٹم ڈیوٹی زیادہ ہونے پر پاکستانیوں نے وہ چیزہی کھا کر ختم کردی جس پرڈیوٹی عائد ہونی تھی۔۔اسے کہتے ہیں،جگاڑ۔۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔ اور دیکھیں میں بھی اس بات پر متفق ہوں کیوں کہ میرے پاس اس بات کا ثبوت بھی ہے۔۔جب بھی کہیں چوری یا ڈکیتی ہوتی ہے تو وہاں پر پولیس لیٹ پہنچتی ہے کیوں کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں پیر نہیں۔ اور چوری،ڈکیتی ہونے کے فورا’’بعد یا پہلے پولیس اپناحصہ وصول کر لیتی ہے۔ کیا اب بھی نہیں مانو گے کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔بڑے صاحبزادے سے کہا۔۔تم یہ کیوں سمجھتے ہو کہ پولیس والے جنت میں نہیں جا سکتے؟۔۔۔صاحبزادے نے کہا۔۔اس لیے کہ وہاں ان کے کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہو گا۔۔پولیس میں نیا نیا بھرتی ہونے والا جوان جب پہلے ہی دن ڈیوٹی پر پہنچاتو ٹیلفون کی گھنٹی بجی۔ سردار نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے ایک خاتون بولی۔۔ ہمارے گھر کے گارڈن میں ایک بم پڑا ملا ہے۔۔’’فکر کی کوئی بات نہیں‘‘ سردار نے اطمینان سے کہا۔۔ اگر 3 دن تک کوئی لینے نہ آیا تو آپ اپنا سمجھ کے رکھ لیجئے گا۔۔باباجی کا ایک بار بکرا مر گیا۔۔اپنے لڑکے کو بلایا اور کہا۔۔بیٹا یہ بکرا جاکر تھانے دے آؤ، میں نے سنا ہے وہ حرام کھاتے ہیں۔۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہماری پولیس کی صحت دیکھ کر یہ دھوکہ ہو جاتا تھا کہ انہیں اچھی خاصی تنخواہ ملتی ہو گی جس سے ان کاتن بدن خوشی سے پھولا ہوا ہے۔ ایک عام پولیس کانسٹیبل کا پیٹ دیکھ کرحیرت ہوتی تھی کہ یہ بے چارہ اتنی کم تنخواہ میں اتنا بڑا پیٹ کیسے پالتا ہو گا؟ پولیس والے کے پیٹ کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ یہ اتنا ا یڈوانس ہے کہ موقع واردات پہ یہ پولیس والے سے پانچ منٹ پہلے پہنچ جاتا ہے۔ کچھ بے دریغ پیٹ رکھنے والے پولیس والوں کے پیٹ دیکھ کر یہ بھی شک ہو جاتا تھا کہ تپتی دھوپ میں ڈیوٹی کے دوران ان کے پیٹ کے سائے تلے کئی لاوارث مجرم گھڑی دو گھڑی پناہ بھی لے لیتے ہوں گے۔۔انکل سرگرم سے کسی نے پوچھا،فوج اور پولیس میں کیا فرق ہے؟ تو سرگم نے جواب دیا کہ’’ایک دشمن کو مارتی ہے اور دوسری اپنوں کو مارتی ہے‘‘۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔لوگ دھوکا ہمیشہ غلط انسان سے کھاتے ہیں اور اس کا بدلہ ہمیشہ صحیح انسان سے لیتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔