تحریر: سہیل وڑائچ۔۔
اِن ججوں کی کہانیاں بھی عجیب ہیں۔ می لارڈ شیخ عظمت سعید سے رانا ثناء اللہ نے خفیہ اور ذاتی ملاقات کی تو فرمانے لگے’’ دباؤ بہت ہے نواز شریف سے کہیں کہ وزات عظمیٰ سے استعفا دیکر عدالت میں پیش ہوں۔‘‘ انہی دنوں ایک پراپرٹی ٹائیکون کے ذریعے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام نے پیغام بھیجا کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔نواز شریف کہاں باز آنے والے تھے جی ایچ کیو گئے تو وہاں بھری میٹنگ میں جنرل راحیل شریف کو کہا کہ کیا ایک ماتحت افسر چیف ایگزیکٹو کو مستعفی ہونے کا پیغام بھیج سکتا ہے؟ نواز شریف کے اس سوال پر کوئی جواب نہ بن سکا۔
اسی زمانے کا ذکر ہے کہ وزیر اعظم کو ان کی انٹیلی جنس ایجنسی نے اطلاع دی کہ ججوں کا ایک گروپ آپ کے خلاف سرگرم عمل ہے اور وہ بہرصورت آپ کو سزا دینا چاہتا ہے، یہ بھی بتلایا گیا کہ ججوں کے اس گروپ نے اپنے ہم خیال جرنیلوں سے بھی رابطہ کر لیا ہے اور انہیں کہا ہے کہ آئے روز ہماری بے عزتی ہو رہی ہے آپ نواز شریف کو اس سے روکیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ماضی سے لیکر آج سے کچھ عرصہ پہلے تک مقتدرہ کے کچھ جرنیل اور عدلیہ کے سرپنچ مل کر سیاست دانوں کے خلاف کام کرتے رہے۔ ہر بار مقتدر عدلیہ کو ایسا بیانیہ پیش کرتے تھے جس سے انکے اور سیاستد انوں کے درمیان کشیدگی قائم ہوجائے۔
نواز شریف کو ہٹاتے وقت عدلیہ کو بتایا گیا کہ مسلم لیگ ن عدلیہ میں اصلاحات کے بارے میں قانون سازی کرنے والی تھی جس سے کئی ججوں اور عدلیہ کے اختیارات کو نقصان پہنچنا تھا۔
ایک طاقتور ایجنسی نے ججوں کو اطلاع دی کہ اس وقت کے وفاقی وزیر برائے قانون زاہد حامد کے لیپ ٹاپ سے اس قانون کا مسودہ برآمد ہوا ہے۔ بعدازاں جنرل باجوہ نے ایک ملاقات میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو اس وقت کی مقتدرہ کی ریڈ لائنز کا ذکر کرتے ہوئے بتادیا تھا کہ اگر ججز اور عدلیہ کے خلاف قانون سازی کی گئی تو فوج فوراً ملک کا نظام سنبھال لے گی۔
انہی ججوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پانامہ مقدمہ کی سماعت کے دوران ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے حاضر سروس افسروں کو تفتیش میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تو کور کمانڈرز میٹنگ میں یہ معاملہ زیر بحث آیا ،جنرل باجوہ ان دنوں نواز شریف سے کچھ ہمدردی رکھتے تھے اگرچہ بعد میں بدل گئے۔
جنرل باجوہ نے کور کمانڈرز میٹنگ میں تجویز پیش کی کہ ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کا حصہ نہیں ہونا چاہئے، اس پر وہ 4-3 کور کمانڈرز جو نواز شریف سے خار کھائے بیٹھے تھے اور جنرل ظہیر الاسلام اور ان ججوں کے ہم خیال تھے، انہوں نے پنجابی میں کہا ’’بھارو (قربانی کا بکرا) ہتھ آیا ہوا اے ایہنوں جان نہ دیو‘‘ اس پر جنرل باجوہ خاموش ہوگئے اور انہی کور کمانڈرز کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے فوجی افسروں کو ججوں کیلئے مواد تیار کرنے کی اجازت دیدی۔
جسٹس کھوسہ جب تک لاہور ہائیکورٹ میں تھے آئین اور جمہوریت کی بات کرتے تھے پھر ذاتی بغض پال لیا، انہیں مقتدرہ نے بتایا کہ آپ کی چیف ججی روکنے کیلئے مسلم لیگ ن قانون سازی کرنے والی تھی، جرنیلوں نے اسے رکوا دیا ہے۔ ثاقب نثار نے بھی وکٹ سے باہر نکل کر شاٹس لگائیں کہا جاتا ہے کہ وہ جسٹس کھوسہ کے ہاتھوں استعمال ہوگئے تھے، پستہ قد جسٹس کھوسہ اپنے پستہ قد سسر جسٹس نسیم حسن شاہ سے بہت متاثر تھے، نسیم حسن نے 1996ء میں میرے ساتھ ایک انٹرویو میں پہلی بار بھٹو کیس میں دباؤ کا ذکر کیا اور پھر روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اس انٹرویو کے جواب میں کئی قسطوں پر مضمون بھی لکھے۔حال ہی میں مستعفی ہونے والے جسٹس اعجاز الاحسن کے سگے بھائی اتفاق فائونڈری میں اعلیٰ عہدے پر ملازم تھے۔ حسین نواز، اتفاق گروپ کے سربراہ بنے تو انہوں نے انہیں ملازمت سے نکال دیا شریف خاندان کا خیال ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کے دل میں اس وقت سے گرہ پڑی ہوئی ہے یہی وہ می لارڈ تھے جو جج ارشد ملک کو بلا کر کہتے تھے کہ نواز شریف کو زیادہ سے زیادہ سزا دو جج ارشد ملک کی اس حوالے سے ویڈیو ریکارڈنگ شریف خاندان کے پاس موجود ہے۔
شریف خاندان کے ذرائع کا خیال ہے کہ جسٹس ثاقب نثار اس لئے انکے خلاف ہوگئے تھے کہ انہیں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بننے میں تاخیر ہوئی جبکہ ثاقب نثار کے قریبی دوست تعلقات کی خرابی کی طویل کہانی سناتے ہیں، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انکے جج نہ بننے میں شریف خاندان نہیں بلکہ چیف جسٹس میاں محبوب کا کردار زیادہ تھا۔وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے بتایا کہ صدر تارڑ نے جسٹس کھوسہ کو تو کنفرم کر دیا لیکن ثاقب نثار کو نہیں کیا حالانکہ وزیر اعظم نے دونوں کو کنفرم کرنے کی منظوری دی تھی۔وزیراعظم نے اپنے ایک بیوروکریٹ مشیر کو صدر تارڑ کے پاس بھیجا کہ وہ ثاقب نثار کو بھی کنفرم کریں لیکن صدر تارڑ نے اتفاق نہ کیا جسٹس ثاقب نثار کے قریبی ذرائع نے تصدیق کی کہ صدر تارڑ نے ایک مقدمہ میں ناجائز سفارش کی جوجسٹس ثاقب نثارنے نہ مانی جس پر وہ انکے خلاف ہو گئے تھے۔ججوں کا کچا چٹھا لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جو جج بغض سے بھرے اور تکبر سے لبریز رہے، انکے فیصلے منصفانہ کیسے ہو سکتے ہیں؟
آئین کی کس شق میں وزیر اعظم کو نکالنے کا اختیار چار یا پانچ ججوں کو دیا گیا ہے 58 ٹو بی ختم ہوا تو ماضی کے جرنیلوں اور ججوں نے مل کر کروڑوں لوگوں کے منتخب وزیر اعظموں کو عدلیہ کے ذریعے نکالنے کی غیر آئینی اختراع تراش لی۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ جس طرح جنرل مشرف کو مارشل لاء لگانے کی علامتی سزا دی گئی ہے آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے می لارڈز کی تصویروں پر بھی سیاہی پھیر دی جائےاور عدلیہ کے ایوانوں سے ان کے پور ٹریٹ اتارے جائیں، کیا آئین پر حلف اٹھانے والے ججوں اور جرنیلوں کو اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ مارشل لاؤں کی اجازت دیکر مراعات پائیں؟ اگر ملک کو سیدھا کرنا ہے تو کم از کم ان کا علامتی احتساب تو کیا جائے۔
ماضی کے متکبر اور بغض بھرے ججوں کے ساتھ تاریخ جو کر رہی ہے اس سے آج کے می لارڈز کو بھی سبق سیکھنا چاہئے کہ وہ آئین کے اندر رہ کر فیصلے کریں، سیاست دانوں کو وقت کی مقتدرہ کے کہنے پر ٹارگٹ نہ کریں۔
حالات بدلتے رہتے ہیں ماضی کا احتساب آج ہو رہا ہے تو آج کا احتساب مستقبل میں ہوگا۔ ہم سب تاریخ کو جوابدہ ہیں جج، جرنیل یا جرنلسٹ، سبھی کو تاریخ میں اپنے کردار کا حساب دینا پڑے گا آنے والی نسلیں چاہتی ہیں کہ ہم سرخرو ہوں مگر اس کیلئے نفرت اور غصے کو ختم کرنا ہوگا۔(بشکریہ جنگ)۔۔