تحریر: اشفاق اللہ جان ڈاگیوال۔۔
اسلام دین فطرت ہے۔ اس نے جن چیزوں سے رکنے کا حکم دیا ہے یقیناََ وہ کسی نہ کسی مصلحت پر مبنی ہے، جن میں سے کچھ کا احساس ہمیں ہو پاتا ہے اور کچھ کا نہیں۔ہم جنسی پرستی ایک فحش عمل اور یہ جہاں قانون قدرت سے بغاوت ہے وہاں اسے بدکاری سے تعبیر بھی کیا گیا ہے، جس سے اسلام نے منع کیا ہے اور جس کے برے نتائج آرہے ہیں اور آتے رہیں گے۔اس سے بچنا خدا کا حکم ہے اور خدا کے حکم کے سامنے سرِتسلیم خم کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے، اس میں مذہبی، مجلسی، دیوانی، فوجداری، عسکری، تعزیری، معاشی، سیاسی اور معاشرتی، غرض یہ کہ سب شعبہ ہائے زندگی کے متعلق احکامات موجود ہیں۔ رسوم و رواج سے لے کر روزانہ کے امور حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک، اخلاق وکردار سے لے کر انسداد جرائم تک۔ یہ ہر قول و فعل اور حرکت کے احکامات کا مجموعہ ہے۔
اسلام نے قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ہر عمل اور امور میں رہنمائی فرما دی ہے۔ جو اسلام کی قائم کردہ حدود و قیود میں رہ کر زندگی گزارتے ہیں، انھیں اللہ کریم نے ’’احسن تقویم‘‘ کا میڈل عطا کیا ہے اور جو ان حدود و قیود کو پامال کرتے ہیں انھیں اسفل سافلین قرار دیا ہے۔پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے، اس کی بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی اولین ضرورت و اہمیت یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ مسلمان ہونے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ ہمارے خیالات اسلامی ہوں، ہمارے سوچنے کا انداز اسلامی ہو، معاملات پر ہم اسلامی نقطہ نظر سے ہی سوچ بچار کریں، اپنی تہذیب، تمدن، سیاست، معیشت اور اپنے پورے نظام زندگی کو اسلام کے طریقے پر چلائیں۔بد قسمتی سے گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں سے اس ملک میں ایک مٹھی بھر گروہ ہمیں اسلام سے دور کرنے کی روش پر چل رہا ہے۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ نے احسن تقویم کے سند یافتہ لوگوں کو کھڑا کیا، جو ان کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے اور ان کے مذموم مقاصد کو خاک میں ملا دیا۔
یہ بات انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہی ہے کہ ابھی ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے اڑنے والی گرد بھی پوری طرح نہیں بیٹھی تھی کہ ایک اور متنازعہ فلم ’’جوائے لینڈ‘‘ ریلیز ہوگئی۔ اس فلم کے ریلیز ہونے سے پہلے سب سے پہلا احتجاج جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کیا ان کا کہنا تھا کہ یہ فلم پاکستانی معاشرتی اقدار کے خلاف ہے۔اس کی پاکستان میں نمائش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان کے خیال میں آسکر کے لیے بھیجی جانے والی اس فلم میں ہم جنس پرستی کو فروغ دیا گیا ہے۔ سینیٹر مشتاق کے بعد ملک بھر کی دینی جماعتوں نے بھی اس فلم کی نمائش کے خلاف احتجاج کیا۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں یوزرز نے اس کی نمائش روکنے کے لیے آواز اٹھائی لیکن سینسر بورڈ نے اس کی نمائش کی اجازت دے کر پاکستان کے مذہبی طبقے کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔
جے یو آئی کے شدید احتجاج پر حکومت نے اجازت دینے کے باوجود اس فلم کی نمائش پر پابندی عائد کردی لیکن سینسر بورڈنے چند سین ختم کرکے اس فلم کی نمائش کی اجازت دے دی تاہم پنجاب حکومت نے صوبہ بھر میں اس فلم کی نمائش کی اجازت نہیں دی۔ یقینا اس جرات مندانہ اقدام پر پنجاب حکومت خصوصاً چوہدری پرویز الٰہی داد و تحسین کے مستحق ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ایسی متنازع فلم کی نمائش کی اجازت دینے کی وجہ سے اس ملک کی اسلام پسند قوتوں اور عوام کے دلوں کو ٹھیس پہنچی ہے۔ وفاقی حکومت میں موجود لبرل ازم کے دلدادہ عناصر ہیں انھوں نے جمعیت علمائے اسلام کو بھی بائی پاس کیا۔
ہم گزشتہ کالموں میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات لکھ چکے ہیں کہ اللہ نے مرد اور عورت کو پیدا کیا ہے، تیسری کوئی جنس نہیں۔ اگر کوئی تیسری جنس ہوتی تو اللہ اپنی آخری کتاب میں ضرور بیان فرماتے۔ تمام اسلامی فقہوں کے مطابق ہم جنس پرستی ممنوع ہے۔ اسلام ایسے تمام رحجانات کو غیر فطری سمجھتا ہے اور اسے جنس کے فطری تقاضوں اور مقاصد کی خلاف ورزی گردانتا ہے۔
قطع نظر مذہب و ملت کے، انسانیت اور فطرت سلیمہ اخلاق و اقدار کی حامی و پاسبان ہوا کرتی ہیں۔ فطرت سلیمہ کبھی برائی، بے حیائی، فحش و منکرات کو نہ قبول کرتی ہے اور نہ ہی پسند کرتی ہے، بلکہ ان سے باز رہنے اور ترک کی تلقین کرتی ہے۔ دین اسلام نہایت عالی و پاکیزہ مذہب ہے، جو مکارم اخلاق، اعلیٰ صفات اور عمدہ کردار کی تعلیم دیتا ہے اور افراد و اشخاص کی جسمانی، روحانی، قلبی اور فکری طہارت و صفائی کے ذریعہ ایک صالح اور باحیاء معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔عفت و حیاء کو جزو ایمان قرار دیتا ہے اور کسی صورت میں بے حیائی، بے راہ روی اور فحش و منکرات کو برداشت نہیں کرتا، بلکہ اس کے مرتکبین کو سخت سے سخت سزا تجویز کرتا ہے، تاکہ یہ نسل انسانی پاکیزہ زندگی گزارے۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن مجید میں بعض سابقہ امتوں کو ان کے کفر و شرک اور فسق و فجور کے سبب ہلاک و برباد کردینے کا تذکرہ متعدد مقامات پر کیا ہے، تاکہ لوگ اس سے درس عبرت حاصل کریں اور ان قوموں کے کفر اور ناشکری و معصیت سے بچ کر اللہ تعالی کے عذاب و عتاب سے محفوظ ہوں۔
ان ہی امتوں میں سے ایک قوم حضرت لوط علیہ السلام کی ہے، جو اللہ تعالی کی نافرمانی، فحش و منکرات، بے حیائی اور ہم جنسی کے سبب اللہ تعالی کے سخت ترین عذاب کی حقدار ہوئی۔ اسلامی معاشرے کو ایسی گندی، خبیث، گھناؤنی عادات سے بچانے کے لیے اللہ نے اس جرم کے مرتکب کے لیے سخت سزا تجویز فرمائی ہے۔
ہم اس ڈگر پر چل کر اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں، کبھی ہم، ہم جنس پرستوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ٹرانسجینڈر ایکٹ بناتے ہیں، کبھی ہم نسل نو کو جنس پرستی کے رجحان کو بڑھاوا دینے کے لیے جوائے لینڈ جیسی فلمیں بناتے اور دکھاتے ہیں اور غور کیا جائے تو معاملہ صرف فلم جوائے لینڈ کے کنٹینٹ تک ہی محدود نہیں ہے۔
ہمارے نجی ٹی وی چینلز پر چلنے والے ڈراموں، تھیٹرز میں چلنے والے ڈراموں اوروہاں ہونے والے مجروں اور سینماؤں پر چلنے والی فلموں کا کنٹینٹ کیا قرآن وسنت کا آئینہ دار ہے؟ ایک صرف جوائے لینڈ پر ہی پابندی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہر اس کینٹنٹ پر پابندی ہونی چاہیے جو دینی اور معاشرتی اقدار کے خلاف ہے، جس سے جنسی ہیجان اور فواحش ومنکرات کے دروازے کھلتے ہیں۔
معاشرتی بے راہ روی کو روکنے کے لیے فی الفورموجودہ سنسر بورڈ ختم کر کے ایک ایسا بورڈ تشکیل دیا جائے جو اسلامی نظریاتی کونسل کے تابع ہو اوروہ ہر غیر اسلامی اور غیر اخلاقی لفظ و حرکت کو حذف کرنے کا پابند ہو۔اس تمام کنٹینٹ کو سختی سے روکے جو اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑائے، معاشرتی اقدار کی دھجیاں بکھیرے۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت فوری طور پر جوائے لینڈ پر پابندی عائد کرکے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائے جو اس بات کا پتا لگائے کہ اس متنازع فلم پر پابندی لگ چکی تھی تو اجازت کس نے اور کس کے کہنے پر دی؟
قطر کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس نے فیفا ورلڈ کپ میں اسلامی اقدار و روایات پر کمپرومائز نہیں کیا بلکہ انھیں مقدم رکھا۔ قطری حکومت نے واضح طور پر کہا کہ ہم 28دنوں کے لیے اپنا مذہب نہیں چھوڑ سکتے، دنیا کو ہماری روایات اور اقدار کا خیال رکھنا ہوگا۔فیفا انتظامیہ نے ورلڈ کپ کے دوران ایل جی بی ٹو کو مخصوص جگہ کی اجازت مانگی تو قطر نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ساری ٹیمیں بھی بائیکاٹ کر دیں تب بھی ہم اس بیہودگی کی اجازت نہیں دیں گے۔ میرا خیال ہے اگر جوائے لینڈ فلم کسی نے قطر میں بنانے کی کوشش کی ہوتی تو وہ اس وقت قطر کے قید خانے میں اپنی شرعی سزا کاٹ رہا ہوتا لیکن یہ تو پاکستان ہے شہباز شریف کا پاکستان، جس میں قطری خط تو آسکتے ہیں لیکن قطریوں جیسی ہمت نہیں آتی۔
میں آخر میں مولانا فضل الرحمان اور ان کے رفقاء کی خدمت میں گزارش کرنا چاہوں گا کہ مسلم لیگ (ن) کو اقتدار کے زینوں پر چڑھانے کا سہرا آپ کے سر ہے لیکن یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اپنے نظریے سے کوسوں دور جاچکی ہے، لبرل ازم کے دلدادہ لوگ اس پر حاوی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی اس جماعت کو اقتدار ملتا ہے یہ ایسے کام کرتی ہے جو مذہبی اقدار سے متصادم دکھائی دیتے ہیں،اسی جماعت نے ٹرانس جینڈر بل پیش کیا، اسی جماعت کی حکومت نے آج اس متنازع فلم کی اجازت دی۔اس لیے مولانا اور ان کے رفقاء قوم کی آواز بن کر اٹھیں اور ایسی حکومت اور ایسے اتحاد سے باہر نکل آئیں۔ اس سے آپ کی توقیر کم نہیں ہوگی بلکہ اس میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو گا۔(بشکریہ ایکسپریس)