kia sahafion ke tahaffuz ka qanoon tahaffuz dega

جرنلسٹ پروٹیکشن بل اور انکشافات

تحریر:روہیل اکبر

صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے اور اس میں کام کرنے والے صحافی اس ستون کی مضبوطی کی علامت ہیں صحافت اور سیاست کا آپ میں چولی دامن کا ساتھ بھی ہے پاکستان میں جتنے صحافی مضبوط ہونگے اتنا ہی یہ ستون پائیدار ہوگااسی ستون کو مضبوط بناتے بناتے سینکڑوں صحافیوں نے اپنے خون کے نظرانے بھی پیش کیے اگر یہ ستون مضبوط نہ ہوتا تو آج بڑی بڑی کہانیاں حقیقت کا روپ دھارے ہمارے سامنے نہ ہوتی ہمارا ہر صحافی عظیم ہے خاص ہر علاقائی نمائندگان جو اپنی جیبوں سے پیسے لگا کر اپنے شوق کو پروان چڑھارہے ہیں انہی کہ سٹوریوں کی بدولت تو ایک غریب سے غریب انسان کو بھی انصاف منٹوں میں مل جاتا ہے جبکہ منیر احمدخان جیسے نڈر اور دلیر صحافیوں کی بدولت ایسے ایسے ہوشربا انکشافات ہم پر واضح ہوئے جنہیں پڑھ کر عقل دھنگ رہ جاتی ہے انکا ایک بہت ہی مشہور انٹرویو جس نے پاکستانی صحافت اور سیاست میں اہم نقوش چھوڑے  وہ نامور پولیس آفیسر سابق ڈائریکٹر انٹیلی جنس و سابق آئی جی پولیس سندھ و پنجاب حاجی حبیب الرحمن کے انٹرویو پر مشتمل ”کیا کیا نہ د یکھا“ کے نام سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکا ہے صحافتی دنیا کا یہ طویل ترین انٹرویو، ایک ہزار سے زائد صفحات اور کوئی چار لاکھ الفاظ مشتمل ہے۔ منیر احمد منیر نے سالہا سال اہم اور حساس عہدوں پر فائز رہنے والے حاجی حبیب الرحمن سے اہم قومی واقعات اور راز اگلوانے کے لیے 4226 سوالات کئے جن کے جواب میں حاجی حبیب الرحمن نے پاکستان کی 72 سالہ تاریخ کے کئی اہم واقعات و سیاسی و قومی المیوں اور حکمرانوں کی خفیہ سرگرمیوں اور بعض حسیناؤں کے روز و شب سے پردہ اٹھایا ہے اس انٹرویو کے کچھ اہم حصے تحریر کرونگا مگر بات میں کر رہا تھا ریاست کے چوتھے ستون کی جسکی علامت صحافی ہوتے ہیں جو نہ جانے کن کن مشکلات سے دوچار بھی رہتے ہیں انہی کے مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے  جرنلسٹ پروٹیکشن بل تیار کیا ہے جو اسمبلی میں بھی پیش کیا جارہا ہے تاکہ اس پر قانون سازی ہو سکے وفاقی وزیرفواد چودھری کا کہنا ہے ہے جرنلسٹ پروٹیکشن بل پر ڈھائی سال لگے ہیں لیکن بہرحال اب قانون بن رہا ہے اور یہ ورکنگ صحافیوں کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے وفاقی وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری کا بہت شکریہ کہ جنہوں نے مسلسل اس بل کے لیے کوششیں کیں جبکہ ریاست کے اس چوتھے ستون کو مضبوط بنانے میں پنجاب حکوت کی کاوشیں بھی کسی سے کم نہیں ہیں خاص کر کرونا کی جنگ میں متاثر ہونے والے صحافیوں کو ایک لاکھ روپے تک کی مالی امداد کی اسکے علاوہ جرنلسٹ سپورٹس فنڈ سے بھی مستحق صحافیوں کی خدمت کی جارہی ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ بل پاس ہو کر قانون بن جاتا ہے تو اس سے صحافیوں کی راہ میں آنے والی مشکلات بہت حد تک کم ہوسکتی ہیں اب آتے ہیں نامور صحافی اور سیاسی رہنما منیر احمد خان کے زریعے ہم تک پہنچنے والے حیرت انگیز انکشافات جس میں حاجی حبیب الرحمن صاحب فرماتے ہیں کہ مشرف کے ساتھ نواز شریف کی ڈیل میں مجید نظامی اور میں شامل تھے،پاکستان سٹیل ملز کا چیئرمین عثمان فاروقی شرمیلا فاروقی کا والد ہر مہینے زرداری کو ایک کروڑ پہنچاتا تھا،قومی اتحاد کی ایجی ٹیشن اور بھٹو کی پھانسی کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھاایجی ٹیشن کے دوران مولانا مودودی کے نام 30 لاکھ کا غیر ملکی چیک میں نے پکڑاجماعت اسلامی کے دو اہم آدمی ہمارے لیے انٹیلی جنس کرتے مولانا غلام غوث ہزاروی ہم سے پانچ سو روپیہ مہینہ لیتے تھے جب میں نہیں پہنچاتا تھا خود لینے کے لیے آ جاتے کیونکہ کام کا بندہ وہی ہوتا ہے جو تھوڑی بہت مخالفت کرے اور اندر خانے حکومت کے لیے کام کرے جب بھٹو صاحب پر مقدمہ چل رہا تھا تو پیپلز پارٹی کے تین جیالے امان اللہ خاں، غیاث الدین جانباز اور امیر حبیب اللہ سعدی ہمارے لیے مخبری کرتے انہیں ہم نے سمن آباد کوٹھی لے دی تھی اور سہولتیں بھی فراہم کر دی تھیں پیپلز پارٹی کے سابقہ سینئر وزیر شیخ محمد رشید شیخوپورہ  سے انہی کی مخبری پر پکڑے گئے تھے نواب کالا باغ کو شراب اور عورت سے نفرت تھی چودہری ظہورالٰہی کو انہوں نے پولیس میں حوالداری پر بحال کر کے ڈیوٹی پر طلب کر لیا تھا مرتضیٰ بھٹو نے آصف علی زرداری کے ساتھ ایک جھگڑے میں ان کی ایک مونچھ کٹوا دی دوسری انہوں نے خود منڈوا دی اس پر بینظیر نے زرداری سے مرتضیٰ بھٹو کو صرف پھینٹی لگانے کا کہا تھا۔ مگر انجام مرتضے بھٹو کی موت ہوافاروق لغاری بے نظیر کی حکومت ختم نہ کرتے تو ایک اہم آدمی قتل ہوجانا تھا جو ارب پتی بھاگ گیا اس کی سفارش چودھری شجاعت نے کی عبداللہ ملک اور پروفیسر ایرک سپرین اوپر کے لیول کے تھے، ڈائریکٹر انٹلی جنس بیورو کو ملنے والے ایرک سپرین کمیونزم کے متعلق میرا سورس تھے۔ دو دفعہ میں نے انہیں ماسکو کے لیے ٹکٹ لے کے دیا نواب صادق حسین قریشی کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے نواز شریف نے اس کے نام 35 کنال کی سفارش کردی اقبال ٹکا نے راتوں رات 35 کنال پر قبضہ کرلیا نواز شریف نے ہارس ٹریڈنگ کے دوران ایم این ایز کے لیے سارے معروف مالشیے ہالی ڈے اِن میں جمع کرلیے تھے بھٹو صاحب نے قرآن شریف پر لکھ دیا تھا کہ حْسنہ شیخ میری بیوی ہے۔ اس کے گھر سے صرف وہی قران شریف چوری ہوا تھا۔ بھٹو صاحب کی پہلی بیگم کے گھر نوڈیرو سے جب زیورات چوری ہوئے تو ایس پی لاڑکانہ پنجل خاں نے ممتاز بھٹو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھٹو صاحب سے کہا  سائیں! چور تو آپ کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ جنرل ضیا الحق نے فوج کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں مولانا مودودی کی تفہیم القرآن بانٹی پھر بھٹو صاحب سے معافی مانگ لی بھٹو صاحب ہر ایک کی بے عزتی کر دیتے تھے اسی لیے جب انہیں اقتدار سے ہٹایا گیا تو ڈاکٹر مبشر حسن، حفیظ پیرزادہ، ملک معراج خالد اور کوثر نیازی وغیرہ جنرل ضیا سے ملتے، تحفظ مانگتے اور اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہے جام صادق کو نصرت بھٹو نے باسٹرڈ کہا تو اس نے جواب دیا: اماں آپ نے بجا فرمایا پپو کے قاتلوں کو سرِعام پھانسی اس لیے دی گئی تاکہ بھٹو کی پھانسی کے لیے لوگ ذہنی طور پر تیار ہو جائیں جرنیل بھٹو کو مئی جون 1978ء ہی میں پھانسی لگادینا چاہتے تھے۔ اِن کی پھانسی پر جنرل ضیا اور جسٹس انوارالحق متفق تھے۔ جنرل ضیا کی ہدایت پر میں نے لیاقت باغ فائرنگ کیس تیار کر رکھا تھا کہ اگر سپریم کورٹ بھٹو کو چھوڑ دے تو پھر اس کیس میں انہیں پھانسی دیدی جائے بدنیتی کا یہ عالم تھا کہ قصاص اور دیت آرڈیننس پاس ہونے کے باوجود اسے بھٹو کی پھانسی کے بعد نافذ کیا گیا۔مسعود محمود کو وعدہ معاف گواہ بنانے میں رابطہ کار سیٹھ عابد تھے ضیاء  الحق نے خود کو امیرالمومنین بنانے کے لیے ریفرنڈم کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کھر نے جنرل ضیا کو پریڈ میں اڑانے کا پروگرام بنایا، سیٹھ عابد نے جا کر جنرل ضیا کو بتا دیا اور اپنا سونا واپس لے لیا۔ نواز شریف سے پہلے ان کے روحانی باپ جنرل ضیاء  الحق نے لفافوں کی تقسیم کا سلسلہ شروع کر دیا تھا نورجہاں کے فون پر بھی ٹیپ لگائی لیکن جلد ہی ہٹا دی، کیونکہ وہ گندی گالیاں نکالتی تھی یا اپنے مخاطب سے کہتی تھی: سوہنیا  من موہنیا۔ ضیاء  الحق نے یہ جانتے ہوئے کہ ائرمارشل انور شمیم کرپٹ ہے اسے ائرفورس کا چیف بنادیا۔ اس کی بیوی اپنا پرس کراچی بھول گئی۔ پرس لانے کے لیے ائیرفورس کا جہاز خاص طور پر کراچی بھیجا گیا۔ اس غیرقانونی اقدام کی مخالفت 1965 کی جنگ کے ہیرو ائرکموڈور ایم ایم عالم نے پرزور طریقے سے کی جو پہلے ہی ائیرفورس کے اعلی حلقوں میں ناپسندیدہ تھے اور اس کے بعد ڈسپلن کا بہانہ بنا کر الٹا انہیں ہی کھڈے لائن لگا دیا گیا گورنر پنجاب جنرل جیلانی کو شراب ہلاکو خاں سپلائی کرتا تھا۔جنرل جہاں زیب ارباب نے ایسٹ پاکستان سے پچاس لاکھ روپے لوٹے تھے۔ جنرل ضیا نے اسے سندھ کا گورنر لگایا تو ایک برمی عورت کے پیچھے لگ گیا اس کے خاوند کو روزانہ پولیس سے جوتے لگواتاایف کے بندیال جنرل ضیا کے قدموں میں بیٹھ گیا تو جنرل ضیا نے ان کے داماد کو کینیا میں سفیر لگا دیا۔یہ منیر احمد خان کی کاوش تھی اسی طرح کی اور بہت سی یادگارتحریں ہیں  اور مجھے لگتا ہے کہ جرنلسٹ پروٹیکشن بل کے پیچھے جناب منیر احمد خان صاحب کی بھی ضرور کوئی نہ کوئی کاوش ہوگی۔(تحریر۔روہیل اکبر)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں