journalist protection bill

جرنلٹس پروٹیکشن بل، کسے کتنا تحفظ ملے گا؟؟ (پارٹ ٹو)۔۔

تحریر: فہیم صدیقی، جنرل سیکرٹری کے یوجے

دی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹشنرز بل 2021” پر مضمون کا یہ دوسرا اور آخری حصہ ہے جو کمیشن کے قیام اس کے کام کرنے کے طریقے کار، قواعد و ضوابط اور صحافیوں کی تربیت اور انشورنس سے متعلق ہے۔ بل کی تیاری کے دوران کے یو جے کی جانب سے جو سفارشات حکومت کو بھیجی گئی تھیں ان میں ہم نے اس بات پر فوکس کیا ہوا تھا کہ اس قانون کے تحت قائم ہونے والا کمیشن ایک خودمختار اور بااختیار ادارہ ہو جس کے سربراہ سے لے کر ارکان تک کسی دباو میں آئے بغیر کام کرسکیں اسی مقصد کے لیے ہم نے یہ سفارش کی تھی کہ کمیشن کا سربراہ کم از کم سندھ ہائیکورٹ کا جج ہونا چاہیے حکومت نے کے یو جے کی سفارش کو بل کا حصہ بنایا ہے تاہم اس میں یہ آپشن بھی رکھا ہے کہ کسی ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو جو مناسب تجربہ اور قابلیت رکھتا ہو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا جاسکتا ہے۔ بل میں کہا گیا گیا ہے کہ اس قانون کے تحت جو کمیشن قائم ہوگا اس کا نام “کمیشن فار پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹیشنرز” ہوگا۔ اور اس کے قیام کا نوٹیفکیشن سندھ حکومت آفیشل گزٹ کے ذریعے جاری کرے گی۔ کمیشن کا ایک چیئرپرسن ہوگا جبکہ صوبائی سیکریٹری انفارمیشن، صوبائی سیکریٹری داخلہ، صوبائی سیکریٹری قانون اور صوبائی سیکریٹری انسانی حقوق اس کے ارکان ہوں گے۔ کمیشن میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو بھی نمائندگی دی گئی ہے جبکہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی، کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز، پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن، سندھ بار کونسل اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا نمائندہ بھی کمیشن کا رکن ہوگا۔ سندھ اسمبلی میں بل پیش کیے جانے کے بعد اسے قائمہ کمیٹی برائے قانون و پارلیمانی امور کے سپرد کیا گیا تھا جس کے اجلاس میں راقم الحروف نے کمیشن کے ارکان میں اخباری کارکنوں کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائز کنفیڈریشن کے نمائندے کا شامل کرنے کی سفارش کی کے یو جے کی اس سفارش سے وزیراعلی کے معاون خصوصی برائے قانون مرتضی وہاب سمیت قائمہ کمیٹی کے تمام ارکان نے اتفاق کیا اور اب ایپنک کا نمائندہ بھی کمیشن کا رکن ہوگا۔ بل میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ کمیشن کے نمائندہ ارکان اپنی ذاتی حیثیت میں کمیشن کے رکن نہیں ہوں گے انہیں ان کی نمائندہ تنظیم کی جانب سے سالانہ بنیادوں پر نامزد کیا جائے گا۔ تاہم بعد از مدت ان کی کمیشن میں نمائندگی کی تجدید کی جاسکے گی۔ کمیشن ایسے کسی بھی شخص کو جو صحافت سے متعلق بہترین علم رکھتا ہو یا جس کا اس بارے میں عملی تجربہ ہو اسے کمیشن کے اجلاس یا اجلاسوں میں بطور مبصر شرکت کے لیے منتخب کرسکتا ہے۔ کمیشن کے چیئرمین کے علاوہ تمام ارکان بشمول مبصر رضاکارانہ بنیادوں پر کام کریں گے۔ کمیشن کا اپنا سیکریٹریٹ ہوگا جس کے لیے حکومت سالانہ گرانٹ کے ذریعے مناسب بجٹ فراہم کرے گی تاکہ کمیشن اپنی ذمے داریاں بہتر طریقے سے ادا کرسکے۔

بل میں کمیشن کے چیئرپرسن کے تقرر کے طریقہ کار کی بھی وضاحت کی گئی ہے جس کے مطابق کمیشن کا چیئرپرسن سندھ ہائیکورٹ کا جج یا کوئی 20 گریڈ کا ریٹائرڈ سول سرونٹ ہوگا جو قانون، انصاف، پبلک ایڈمنسٹریشن اور ہیومن رائٹس سے متعلق بہترین علم رکھتا ہوگا یا اس کا ان شعبوں میں کام کرنے کا عملی تجربہ ہوگا۔ کمیشن کے چیئرپرسن کے عہدے کی مدت اس کے عہدہ سنبھالنے کی تاریخ سے 3 سال تک کیلئے ہوگی۔ چیئرپرسن کے عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد اگر کمیشن کے ارکان کی دو تہائی اکثریت سفارش کرے تو مذکورہ شخص کو اگلی مدت کے لیے بھی چیئرپرسن کے عہدے پر توسیع دی جاسکے گی لیکن ایسا صرف ایک بار کے لیے ہوگا۔ چیئرپرسن اگر اپنے عہدے سے مستعفی ہونا چاہے تو اسے وزیراعلی سندھ کو اپنا استعفی پیش کرنا ہوگا اور استعفے کی منظوری کی صورت میں اس عہدے پر 30 دن کے اندر کسی شخص کو چیئرپرسن تعینات کیا جائے گا۔ کمیشن کے چیئرپرسن کو صرف اس صورت میں عہدے سے ہٹایا جاسکے گا اگر اس کے خلاف بڑے پیمانے پربدانتظامی، نااہلی، کرپشن، بجٹ کے استعمال کے طریقہ کار کی خلاف ورزی، اخلاقی پستی، یا بدعملی کے الزامات ہوں۔ کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہوگا جس کے پاس اپنے کام کرنے کے طریقہ کار اور قواعد و ضوابط بنانے کا اختیار ہوگا۔ کمیشن کے چیئرپرسن کے پاس کمیشن کا اجلاس طلب کرنے کا اختیار ہوگا جبکہ کمیشن کے 50 فیصد ارکان کی درخواست پر بھی وہ کمیشن کا اجلاس طلب کرسکے گا۔ کمیشن کا اجلاس بلانے کے لیے 14 دن کا نوٹس دینا ہوگا۔ اجلاس کا کورم کمیشن کے تمام ارکان کی تعداد کا ایک تہائی ہوگا کسی وجہ سے کمیشن کے چیئرپرسن کی اجلاس میں عدم موجودگی پر موجود ارکان دو تہائی اکثریت سے کسی بھی رکن کو اجلاس کی صدارت کرنے کے لیے منتخب کرسکیں گے۔ کمیشن کے تمام فیصلوں، ہدایات اور احکامات کی کمیشن کے چیئرپرسن یا اجلاس کی صدارت کرنے والے پریزائڈنگ افسر تصدیق کریں گے وہ رکن بھی یہ تصدیق کرسکے گا جسے چیئرپرسن نے اس کام کے لیے بااختیار کیا ہو۔

بل کا چوتھا حصہ کمیشن کے فرائض منصبی سے متعلق ہے جس کے مطابق کمیشن ملنے والی ان تمام شکایات کا جائزہ لے گا جو کسی بھی صحافی یا میڈیا پریکٹشنر کی جانب سے کسی فرد یا گروہ یا کسی سرکاری یا نجی ادارے کیخلاف ہراساں کیے جانے، جنسی ہراسگی، تشدد پر مبنی واقعے، یا پرتشدد حملے کی دھمکی سے متعلق ہوں گی۔ ایسی کسی بھی درخواست پر کمیشن 30 دن کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا۔ کمیشن کسی بھی صحافی یا میڈیا پریکٹشنر پر ہوئے حملے کا ازخود نوٹس بھی لے سکے گا کمیشن ایسے کسی بھی معاملے پر اپنی رپورٹ 14 دن میں حکومت کو پیش کرے گا اور اگر کسی فرد یا گروہ یا سرکاری یا نجی ادارے کو قصوروار پائے گا تو حکومت سے اس کیخلاف مناسب کارروائی کی سفارش کرے گا۔ کمیشن ایسے کسی بھی معاملے کی فوری اور تیز تفتیش کا حکم دے سکے گا تاکہ ماڈل کورٹ سے 90 دن میں فیصلہ آسکے۔ کمیشن کو یہ اختیار بھی ہوگا کہ وہ ایسے کسی بھی صحافی یا میڈیا پریکٹشنر جس پر حملہ کیا گیا، دھمکی دی گئی، یا کسی طرح ہراساں کیا گیا اس کی حفاظت کی خاطر مناسب اقدامات کرنے کا حکم بھی دے سکے گا۔ کمیشن صحافیوں اور میڈیا پریکٹشنرز کو ہراساں کیے جانے، جنسی ہراسگی، پرتشدد حملوں یا اس کی دھمکی کے کیسز کی انویسٹی گیشن اور استغاثہ کی نگرانی اور فالو اپ بھی کرے گا۔ کمیشن کے پاس یہ اختیار بھی ہوگا کہ وہ کوئی بھی متعلقہ ریکارڈ، کسی بھی فرد، انتظامی افراد، سرکاری محکموں اور ایجنسیز کے افسران بشمول پولیس، انٹیلیجنس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے افراد کو طلب کرسکے گا۔ کمیشن کو بااختیار بنانے کے لیے بل میں کہا گیا ہے کہ اسے سول کورٹ کے برابر وہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے جو پاکستان پینل کوڈ 1860 کی دفعات 175، 178، 179، 180 اور 228 میں دیئے گئے ہیں۔ کمیشن سیفٹی آف جرنلسٹس سے متعلق اقوام متحدہ کے ایکشن پلان پر حکومتی کارکردگی کا بھی جائزہ لے سکے گا جبکہ وہ ایک ایسی ویب سائٹ بھی تیار کرے گا جہاں کوئی بھی صحافی یا میڈیا پریکٹشنر آن لائن اپنی شکایات درج کراسکیں گے۔ ویب سائٹ پر کمیشن کو ملنے والی تمام شکایات کا اسٹیٹس اور اپ ڈیٹس بھی موجود ہوں گی۔ کمیشن صوبے میں صحافیوں اورمیڈیا پریکٹشنرز کی سیفٹی اور سیکیورٹی پر اپنی سالانہ رپورٹ بھی تیار کرے گا جو سندھ اسمبلی میں پیش کی جائے گی۔

دی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹشنرز بل 2021” کا پانچواں حصہ ٹریننگ اور انشورنس سے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے صحافیوں اور دیگر میڈیا پریکٹشنرز کی مناسب انشورنش اور موزوں تربیت کے ذمے دار مالکان ہوں گے کیونکہ وہ ان کے کام کی وجہ سے ہی کسی بھی حملے کا نشانہ بن سکتے ہیں، زخمی ہوسکتے ہیں یا قتل کیے جاسکتے ہیں۔ بل میں کہا گیا ہے کہ حکومت مناسب انشورنس اور موزوں تربیت کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پی ایف یو جے، اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی بی اے سے رابطے میں رہے گی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ حکومت صحافیوں اور میڈیا پریکٹشنرز کے لیے سیفٹی پالیسیز اور پروٹوکولز بنائے گی اور اس مقصد کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول پی ایف یو جے، اے پی این ایس، سی پی این ای، پی بی اے اور سول سوسائٹی سے رابطے کرے گی حکومت صحافیوں کی مختلف کیٹیگریز جس میں رپورٹرز، فوٹو جرنلسٹس، ویڈیو جرنلسٹس اور ضلعی نمائندگان شامل ہیں انہیں موثر سیفٹی پروگرامز بھی فراہم کرے گی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ حکومت موزوں تربیت اور مناسب انشورنس کے حوالے سے اپنی کارکردگی رپورٹ وقفے وقفے سے کمیشن کو بھیجتی رہے گی۔

“دی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹشنرز بل 2021” کا چھٹا اور آخری حصہ متفرقات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون امن اور جنگ دونوں زمانوں میں نافذ العمل ہوگا۔

کمیشن اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے مختلف کمیٹیز جیسے ایڈمنسٹریٹیو کمیٹی، فنانشل کمیٹی اور ٹیکنیکل کمیٹی قائم کرسکتا ہے جبکہ کمیشن کو اپنے قواعد و ضوابط کے تحت سیکریٹریٹ کے لیے افسران اور عملے سمیت مشیر یا کسی ماہر کے تقرر کا بھی اختیار ہوگا لیکن قواعد وضوابط بنائے جانے تک دیگر حکومتی دفاتر سے تبادلے بھی کیے جاسکیں گے۔ کمیشن میں کام کرنے والے کسی بھی فرد کے خلاف قواعد و ضوابط کے تحت انضباطی کارروائی کی جاسکے گی۔ اور یہ تمام افراد سول سرونٹ تصور کیے جائیں گے، کمیشن کسی بھی عمومی یا خصوصی حکم کے ذریعے اپنے اختیارات اور فرائض منصبی چیئرپرسن، کسی رکن یا کمیشن کے کسی بھی افسر کو دے سکے گا۔ (فہیم صدیقی، جنرل سیکرٹری کے یوجے)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں