تحریر: ناصر جمال
حامدمیر اور خودساختہ لبرل سامراجی ایجنٹ، پیالی میں طوفان برپا کئے ہوئے ہیں۔ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کا جھوٹ، ریاست اور اُس کے سپوتوں کو نگل جائے گا۔ بظاہر (ن) لیگ اور مولانا اینڈ کمپنی بڑی شدُومد سے ان کی کمر تھپتھپا رہی ہے۔ ان کے اپنے اندر کا یہ حال ہے کہ مزاحمت کا بیانیہ اپنی ہی پارٹی میں پٹ گیا ہے۔ عزیزی طارق عزیز نے روزنامہ دنیا میں، لیگی اعلیٰ قیادت کے اجلاس کی کمال خبر دی ہے۔ مفاہمت یا مزاحمت ، صرف ایک نکاتی ایجنڈا پر مشاورت تھی۔ شریف خاندان کے چاروں افراد کو بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ 12رکنی ٹیم میں پرویز رشید واحد ووٹ تھے، جو مزاحمت چاہتے تھے۔ رانا ثناء اللہ ، شاہد خاقان ، رانا تنویر، احسن اقبال سمیت سب مفاہمت کے دیوانے نکلے۔ حمزہ شہباز خصوصی اجازت سے، بڑے ہی اصرار کے بعد بولے، ایسے بولے کہ میاں نواز شریف کے مُنہ کو چپ لگ گئی۔ ’’ش‘‘ کے بیانیے نے ’’ن اور م‘‘ کے بیانیے کو بھرے میدان میں شکست دے دی۔ اگر ’’ن اور م‘‘ تنہا رہ گئے ہیں تو صحافت کے دشت میں حامد میر، عاصمہ شیرازی، چیمے ، اعزازے، منزے، بٹ اور ان کے دو درجن حاضر اور مفرور کیا بیچتے ہیں۔
حامد میر کے سفید جھوٹ پر لکھے گئے کالم کی پذیرائی سو فیصد تھی۔ میں خود حیران تھا۔ پیشہ ور صحافیوں کی صف میں، انتہائی معذرت کے ساتھ حامد میر اور افضل بٹ کے’’ کشمیری گروپ ‘‘کے خلاف غم و غُصہ پایا جاتا ہے۔ یہ ایسے پوز کررہے ہیں کہ جیسا سارا میڈیا ان کی جیب میں ہے۔ حالانکہ ان کے ساتھ وہ ’’میڈیا کا ٹانگہ‘‘ ہے۔ جس میں کوئی ذی شعور، محب الوطن، تہذیب یافتہ شخص، بیٹھنے کو تیار ہی نہیں۔ فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ پر، ان کے حواریوں کے غیر اخلاقی گندگی سے بھرے تبصرے اور جملےبتا رہے ہیں کہ ان کی تربیت کسی ’’کھوکھوں‘‘ سے ہوئی ہے۔ یہ کسی ایک شخص نہیں، ریاست، عوام اور اداروں پر حملہ آورہیں۔ ٹارگٹ ایک ہی ہے کہ ’’کسی بھی طریقے جنرل فیض حمید کا راستہ روکا جائے۔‘‘ مجھے سمجھ نہیں آتا۔ یہ اُس سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں۔ یقینی طور پر وہ (ن) لیگ کا تو ٹارگٹ ہیں۔ بیرونی آقائوں کا بھی ہیں۔ وگرنہ حملہ اتنی شدت سے نہ کیا جاتا۔
کیا خوبصورت جال بُنا گیا ہے۔ کبھی کوئی پٹائی سے بھاگ اٹھتا ہے۔ کسی کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کسی کے پیٹ میں گولی لگ جاتی ہے۔ کوئی چل نہیں سکتا۔ پٹیوں میں لپٹا ہوا ہے۔ پھر دوسرے دن سب کچھ پھینک دیتا ہے۔ پھر ’’حامد میر‘‘ رائی بھی نہیں، ایک ایسے جھوٹ کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں کہ جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
اکتیس مئی والے کالم پرصُبح ، صُبح ہی، ابنِ رضوی کا فون آگیا۔ وہ کم عمری ہی میں جیالے تو بنے ہی، باجی ناہید خان کے ساتھ آگئے۔ بی۔ بی سے قربت رہی۔ آصف زرداری کی پر کشش آفرز بھی اس سید زادے کو پگھلا نہیں سکیں۔ اس نے باجی ناہید خان پارٹی اور جیالوں سے وفاداری نبھائی۔ وہ سخت راستے پر چلا۔ 13سالوں سے اُس کے قدموں میں لغزش نہیں آئی۔ یہی حسبی نسبی سادات کا طرئہ امتیاز ہے۔ابن رضوی نے کہا کہ فجر میں تمہارا کالم سرسری دیکھا۔ مگر چار لائنوں کے بعد، ایک ہی ’’گو‘‘ میں تمام پڑھ لیا۔
کہنے لگے تمہیں مشرف دور میں جیو پر پولیس کا حملہ تو یاد ہوگا۔ میں نےکہا کہ ’’ہاں‘‘ ۔کہنے لگے، تمہیں اصل واقعہ کا پتا ہی نہیں ہے۔ اُس دن ہوا کیا تھا اور اس کا اصل آرکیٹکٹ کون تھا۔ میں نے کہا کہ ’’کون تھا‘‘ ابنِ رضوی نے کہا کہ ’’حامد میر‘‘ میں چونکا۔ میں نے کہا کہ وہ کیسے ۔ کہنے لگے کہ ہم ڈی چوک کے پاس احتجاج کررہے تھے۔ اچانک حامد میر کا فون آیا کہ ذرا جیو، جنگ بلڈنگ کے پاس آجائو۔ یہاں میں نے کیمروں کا انتظام کیا ہوا ہے۔ لائٹ بھی ہے۔ اچھی کوریج ہو جائے گی۔ ہم نعرے لگاتے ، معصوم جیالےوہاں پہنچ گئے۔ جہاں پولیس والے پہلے ہی موجودتھے۔ان کے ساتھ شرارت کی گئی۔ کس نے کی، ہمیں پتا ہی نہیں چلا۔پولیس والے طیش میں آگئے۔ ہمیں حامد میر نے جنگ، جیو بلڈنگ میں داخل کیا۔ ہمیں ایک دروازے سے اندر کیا، بیسمنٹ سے دوسرے دروازے سے ہمیں باہر کردیا۔ ہمارے پیچھے پولیس بلڈنگ میں داخل ہوگئی۔ اور وہ جنگ، جیو پر پولیس کا حملہ بنا دیا گیا۔
بین یہی کام اور واردات طاہر القادری کے ورکروں کے ساتھ پرویز رشید اور ان کے گروپ نے کی تھی۔ پولیس والوں نے طاہر القادری کے ورکروں کو اکسایا۔ پولیس والے سادہ وردی میں تھے۔ وہ سیاسی ورکروں کو اپنے پیچھے لگا کر پی۔ ٹی۔ وی کے مین دروازےسےداخل ہوئے اور پی ۔ٹی۔ وی کے پچھلے گیٹ سے باہر نکل گئے۔جبکہ طاہر القادری کے ورکر پی۔ ٹی۔ وی کے اندر آگئے۔اور پھر یہ پی۔ ٹی۔ وی پر حملہ بنا دیا گیا۔ابن رضوی نے کہا کہ صرف یہی نہیں۔ ایک بار جنگ، جیو پر پیپلز پارٹی کی قیادت نے پابندی لگادی ۔ کوئی رہنما وہاں نہیں جائے گا۔ مگر صفدر عباسی گئے۔ صفدرعباسی کی اس پاداش میں بنیادی رکنیت تک معطل کی گئی۔ ناہید خان نے حامد میر کو میڈیا فائونڈیشن، جی۔ ایٹ میں فلیٹ دیا۔ پھر اس کے بعد، حامدمیر نے کبھی صفدر عباسی کا فون تک نہیں سُنا۔
ایک اور واقعہ یاد آگیا۔ سید عرفان شاہ نانگامست راوی ہیں۔ میر شکیل الرحمٰن ، ان سے ملاقات چاہتے تھے۔ نانگا مست میر شکیل الرحمٰن سے ناراض تھے۔ وہ نہیں مل رہے تھے۔ وجہ فوج سے لڑائی تھی۔ نانگا مست کا اعلان ہے کہ فوج اور پیپلز پارٹی ہم مست مجذوبوں کی پارٹیاں ںہیں۔ جب ہم نے کوئی کام لینا ہوتا ہے تو ان سے لیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے معاملے میں تو کبھی کبھار کوئی بات سن بھی لیتے ہیں۔ فوج کے خلاف بات نہیں سنتے۔ بندے کو بھگا دیتے ہیں۔ کئی بار خفابھی ہوتے ہیں۔ ممتاز قادری کے معاملے میں انہوں نے بہت صبر کیا۔ کہنے لگے، کتنا مجبور ہوں۔ فوج کو بددُعا بھی نہیں دے سکتا۔لاج آتی ہے۔ ہاتھ بلند نہیں ہوتے۔ نواز شریف کے والد کے مرشد تھے۔ آج تک انھیں معافی نہیں دی۔ بے نظیر پائوں کو ہاتھ لگاتیں، ماتھا چومتیں۔ اس کی تصدیق کیپٹن عثمان زکریا بھی کرتے ہیں۔ بہرحال، میر شکیل الرحمٰن نے ان کے فون پر پیغام چھوڑا۔ ’’سید اتنے سنگدل تو نہیں ہوتے۔‘‘ وہ سروسز ہسپتال ملنے کیلئے گئے۔میر شکیل الرحمٰن نے شاہ جی سے گلہ کیا۔ ’’دوستوں‘‘ نے کہا کہ حامد میر کونکال دو، میں نے نکال دیا۔ انہوں نے کہا کہ واپس رکھ لو۔ میں نے رکھ لیا۔ میرا قصور بتائیں۔ وہ بھی ناراض ہیں۔ آپ بھی ناراض ہیں۔ وہاں پر کسی نے بات چیت میں مداخلت کی۔ میر شکیل الرحمٰن برہم ہوگئے اور اُسے کہا کہ تم دیکھ نہیں رہے ہو۔ میری زبان شاہ جی، شاہ جی کی تسبیح کررہی ہے۔ ان کے خلاف بات کیسے کی۔ تمہیں کیا پتا کہ مجھے تو رب سے روشناس ہی انہوں نے کروایا ہے۔ شاہ جی۔۔ میرے لئے دُعا کریں۔ سید زادے نے دُعا دی اور واپس آگئے۔ او ر پھر میر شکیل الرحمٰن بھی باہر آگئے۔ میں کئی بار شاہ جی سے ہنس پڑتا ہوں کہ ’’میر اکالم کب جنگ میں شروع ہورہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ الیاس بیگ پردہ کرگئے۔ وگرنہ واقعات کی ایک ترتیب کا گواہ ہوں۔ وہ جب میرشکیل باہر تھے۔ کتنا اصرار کیا تھا۔ ایک فون لے لیں۔ انکار کردیا۔غیرمعروف نمبرسے اُن کے بیٹھے فون آیا۔ گلہ کیا۔ شاہ جی کو کہا کہ کیا میں اپنا زوال شروع سمجھوں۔ شاہ جی جلال میں تھے۔ کہا کہ زوال سے آگے کی بات کرو۔ گرفتاری اور زوال اس کے بعد ہی کی باتیں ہیں۔ کسی کو شک ہے تو سید سرمد شاہ سے پوچھ لے۔ نانگا مست کے اپنےرنگ اور اپنے ڈھنگ ہیں۔ شاہ جی، کے پاس مریم بھی گئی۔ دادی نے بھیجا۔ کہا کہ کچھ چاہئے تو نیچے بیٹھ جائو۔ وہ نہیں بیٹھی۔ کہنے لگے کہ دنیا دار ہوتا تو اپنے اخبار کیلئے اس سے کئی کروڑ کے اشتہار لے سکتا تھا۔ بہرحال مستوں کے اپنے رنگ ہیں۔
بات دوسری طرف جانکلی ہے۔ وہ عمران خان اور فوج سے میڈیا پالیسی اور میڈیا کی مشکیں کسنے پر شدید ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چند اپنے سابقہ لاڈلوں، غیر صحافی اینکروں اور چند لالچی سیٹھوں کے لالچ کی سزا، پورے میڈیا اور قوم کو کیوں دے رہے ہیں۔
یہ 2009-10کی بات ہے ۔چیئرمین نادرا علی ارشد حکیم تھے۔نادرا ہیڈ آفس کے باہر جاری مظاہرے پر شدید برہم تھے۔کہنے لگے میں نے اُن کی تنخوائیں ڈبل کیں۔ مراعات دیں۔اس ادارے کو اربوں روپے بنا کر دیئے۔ یہ آج میری ماں ، بہن ایک کررہے ہیں۔ وہ شدید مشتعل تھے۔چہرہ سرخ تھا۔ میں نے ان سے پوچھا باہرمظاہرین کی تعداد کتنی ہے۔کہنے لگے 150۔میں نے پوچھا، نادرا کے ملازمین کی کل تعداد کتنی ہے۔ کہنے لگے پندرہ ہزار۔ میں نے ہنس کر کہا کہ علی ارشد صاحب 150،پندرہ ہزارکا ایک فیصد بنتے ہیں۔ سوفیصد لوگ تو نعوذ با اللہ ، اللہ پر بھی متفق نہیں ہیں۔ وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ موڈ بحال ہوگیا۔ واقعہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سمجھے کہ کبھی بھی سو فیصد لوگ کسی چیز پر متفق نہیں ہوتے۔ اجتماعی رائے اور شعور دیکھا جاتا ہے۔ ’’حامد میر‘‘ کے موقف، بیان، تقریر کی حمایت میں ایک فیصد صحافی بھی نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ عوام بھی نہیں۔ یہاں تو امام خمینی بننے کے خواب دیکھنے والے نوازشریف اور مریم نوازکی حالت دیکھ لیں۔ ان کی اپنی پارٹی مفاہمت ، مفاہمت کے ورد کررہی ہے۔
آپ یقین کریں۔ حامد میر کی خبر، تقریر سے مجھے ابھی تک، ایک بھی اتفاق کرنے والا نہیں ملا۔ بیورو کریسی، بزنس مین، عام آدمی، سیاستدان ، علماء، پروفیشنلز، صحافی، انجینئرز، ڈاکٹرز حتیٰ کہ چھابڑی لگانے والا بھی متفق نہیں ہے۔ اور اس کے بعد جو بازاری زبان استعمال کی گئی ہے۔ اس پر لوگ شدید نالاں ہیں۔صحافی برادری کا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے نام کُھلا پیغام ہے کہ جو اس طرح کی حرکت یا حرکات کرتے ہیں۔ وہ صحافی قطعاً نہیں ہیں۔ صحافی خبر لاتا ہے۔ تبصرہ ، تجزیہ کرتا ہے۔ وہ ایک طے شدہ دائرے میں اپنا کام کرتا ہے۔ جس نے ’’حامد میر‘‘ اسد طور یا کسی اور نام نہاد لبرل والا کام کرنا ہے۔ وہ ’’ سیاسی ایکٹوسٹ‘‘ کے طور پر کام کرے۔
پاکستان کے صحافی، ایسے لبادے اوڑھنے والوں کو صحافی تسلیم نہیں کرتے۔جوغیرملکیوں اور اپنےآقائوں کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں۔ ہم حالات و واقعات کی رپورٹنگ اور تجزیوں کو صحافت سمجھتے ہیں۔ کسی کے گھر گھس کر اندر کی خبریں لانے کو صحافت نہیں سمجھتے۔ اس سے ریاست، ملک، عوام اور معاشرے کو کیا فائدہ ہے۔جہاں تک رہ گیا، سوال ’’حامد میر‘‘ کو آف ایئر کرنے کا تو اس پر جنگ گروپ وضاحت دے۔ اگر اُس پر دبائو ہے۔ پیمرا نے نوٹس کیا ہے۔ تو بتائیں، وگرنہ اپنے فیصلوں کا بوجھ کسی اور پر نہ ڈالیں۔اسٹیبلشمنٹ سے مخاطب ہوں۔ وہ نظر ثانی کرے۔ حامد میر کی بات نہیں کررہا۔ اسٹیبلشمنٹ کو چاہئے یا حامد میر چاہیں تو، ایک دوسرے سے ایک بار پھررجوع کرلیں۔ یہ اُن کا باہمی مسئلہ ہے۔
میرا مسئلہ تو میڈیا ہے۔ میرا مسئلہ یہ اینکرز بھی نہیں ہیں۔ جو گذشتہ 19سال سے سمیع اللہ سے کلیم اللہ اور کلیم اللہ سے سمیع اللہ کھیل رہے ہیں۔ برادرم رئوف کلاسرا، فرید رئیس سے معذرت کے ساتھ۔ یہ ایک دوسرے کے پروگراموں میں بھی خود ہی آتے ہیں۔ مجال ہے جو کسی دوسرے صحافی کو گھسنے دیں۔ کیا صرف یہی صحافت کا ’’کل‘‘ ہیں۔ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ سیاسی اشرافیہ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ صرف انھیں صحافی سمجھتی ہے۔ آج آپ نتیجہ بھی بھگتیں ۔ ان کی اکثریت آپ کے گملوں میں پروان چڑھی ہے۔ سیاستدانوں کی طرح، نتیجہ کیا ہے۔ آپ کے ہابرڈ بیج آج، آپ کیلئے زہر بن گئے ہیں۔ ان کے بغیر آپ کی بریفنگ، ڈنر اور محفل مکمل نہیں ہوتی۔ ان کی اکثریت ہماری خبروں کی جگالی کرتی ہے۔ یہ وہ خبر بریک ہوتی ہے۔ جو آپ دیتے ہیں۔
آپ نے میچ ڈالنا ہے تو ان چند درجن لوگوں سے ڈالیں۔ مگر آپ نے 99.99فیصد میڈیا سے میچ ڈالا ہوا ہے۔ جہاں سنجیدگی، ذمہ داری، عوام کا حساس اور حب الوطنی ہے۔ آپ ان سےاُتنا ہی بُرا سلوک کررہے ہیں۔ بادامی، مبشر لقمان، کامران شاہد، معید پیرزادہ اور حسینائیں 420،ان کا صحافت سے کیا لینا دینا ہے۔ یہ بے نقاب ہوچکے ہیں۔ پیشہ ور صحافیوں کی گردن کو چھوڑ دیں۔ شکنجہ ہٹالیں۔ آپ ہمیں نہیں، اس ملک کو برباد کررہے ہیں۔ جھوٹ کا زہر اس ملک کی بنیادوں میں تیزاب ہے۔ صحافت کا سچ ہی اس ملک کو بچا سکتا ہے۔ اس ملک کے پیشہ ور صحافیوں کی جان لالچی، دھوکے باز، سیٹھوں اور لانچیڈ لیڈروں سے چھڑائیں۔ آپ ایجنٹ نہیں، سچے، پروفیشنل صحافیوں کو جگہ دیں۔ ایجنٹ تو اپنا آقا، مال اور مراعات میں اضافے پر بدل لیتا ہے۔
اگر دوستوں کے پاس وقت ہے تو سوچیں۔ صحافت اور ملک کے وارث، میڈیا سیٹھ، حامد میر، ابصارعالم، چیمے، اعزازے اور مطیع اللہ جان نہیں ہیں۔ وہ ، وہ ہیں، جنہیں مسلسل دبا، دبا کر بربادکیا جارہا ہے۔ جو ریاست اوراداروں کی بے وفائی کے باوجود ناراض تو ہیں، مگرریاست کے وفادار ہیں۔ عوام کے مخلص ہیں۔ ملک اور معاشرے سے محبت کرتے ہیں۔یہی اصل ’’واچ ڈاگ‘‘ ہیں۔ انھیں اپنا کام کرنے دیں۔ حامد میروں، ابصار عالموں اور اسد طوروں جیسوں کو ہم خود دیکھ اور نمٹ لیں گے۔ انھیں عوام کے سامنے بے نقاب نہیں، ننگا کردیں گے۔ انھیں صحافت سے باہر نکال کر، ان کے آقائوں کے پاس پہنچا دیں گے۔ وہ ان سے خود ہی جان چھڑوا لیں گے۔(ناصر جمال)۔۔